غریب دوست حکومت اور گوجرانوالے میں ہجوم


لاہور، اسلام آباد موٹروے ٹیکس ٹول 830 روپے کرنے پر ہم عوام دوست حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ابھی چند برس پہلے یہ ٹول 230 روپے ہوا کرتا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ پہلے جاں، پھر جان جاں اور جان جاناں رخصت ہونے والا معاملہ ہو گیا۔ لیکن نوٹ کریں کہ اس سے غریبوں کو فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہ جی ٹی روڈ پر سفر کرتے ہیں۔ موٹر وے پر تو صرف بگڑے ہوئے رئیس زادے اور رئیس زادیاں بلاوجہ کی لانگ ڈرائیو پر قوم کا پیٹرول اور غریبوں کا خون جلانے کے لیے نکلتے ہیں اور وہ جی ٹی روڈ پر گدھا گاڑی یا ٹریکٹر ٹرالی کے پیچھے اپنی عالی شان گاڑی لگانا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔

معترضین حسب عادت اس دعوے کی تردید کریں گے مگر وہ موٹر وے پر جا کر دیکھ سکتے ہیں کہ ادھر صرف مہنگی گاڑیاں ہی چلتی ہیں۔ حتی کہ بسیں بھی مرسیڈیز کمپنی کی ہوتی ہیں اور بیڈ فورڈ کی لاریاں ادھر نظر نہیں آتیں۔ ادھر آپ کو کوئی دس پندرہ برس پرانی سوزوکی کار بھی نظر نہیں آئے گی۔ بفرض محال دکھائی دے بھی جائے تو وہ کسی نے کرپشن کر کے خریدی ہو گی۔ اچھا ہے، قوم کا سرمایہ لوٹنے والوں سے اسی طرح پیسہ نکلوانا چاہیے۔

اسی طرح گزشتہ دنوں گندم کی قیمت میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ جنہوں نے گندم اگائی تھی وہ بھی اس کے دانوں کو ترس رہے ہیں کیونکہ انہوں نے ذخیرہ اندوزی کی نیت سے اپنے گودام میں یہ سوچ کر بھر لی تھی کہ سارا سال اپنی اگائی گندم کھائیں گے۔ ایسے ذخیرہ اندوزوں سے حکومت نے آہنی ہاتھ سے نمٹا اور ان کی گندم ان سے بہ جبر و اکراہ لے لی۔ ہم نے ہمیشہ یہی پڑھا ہے کہ اصل غریب تو باجرے گوار کے آٹے کی روٹی کھاتے ہیں، سفید گندم کا آٹا کھانا تو امیروں کی عیاشی ہے۔ اس لیے ہم نہایت اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ گندم کی قیمت میں اضافہ کرنے سے بھی غریبوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

اسی طرح بعض عیاش فطرت لوگ صبح ناشتے میں انڈا بھی کھاتے تھے اور جو زیادہ بگڑے رئیس تھے وہ تو سیاسی جلسے جلوسوں میں مخالفین کو انڈے مارا بھی کرتے تھے۔ اب حکومت نے ان کی طنابیں کھینچی ہیں تو دیکھ لیں کہ گوجرانوالہ کے جلسے میں کوئی انڈے نہیں لایا۔ سب عوام خالی ہاتھ خالی جیب ہی شریک ہوئے ہیں۔ غریبوں کے استعمال کے لیے حکومت نے نہ صرف سستے پلاسٹک نما مواد سے بنے ہوئے انڈے بلکہ نہایت صحت افزا کیمیکل سے بنا دودھ بھی ملک بھر میں فراہم کیے جانے کی کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے۔ یہ بالکل اصلی جیسے دکھائی دیتے ہیں۔

ادھر گوجرانوالے میں آج خوب ہجوم جمع ہے۔ حاشا وکلا ایسا نہیں ہے کہ یہ غریب غربا وہاں گوجرانوالہ میں اپنی ہردلعزیز حکومت کے خلاف احتجاج کرنے گئے ہیں جو ان کی ایسی حامی ہے کہ غریبوں کی تعداد میں دن رات اضافے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں خرچ کر رہی ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ اس ناقص مغربی جمہوریت میں اسی کی حکومت بنتی ہے جس کی تعداد زیادہ ہو۔ یوں جلد ہی وطن عزیز میں غریبوں کا راج ہو گا اور ہر طرف وہی فاتحانہ شان سے در بدر پھرتے دکھائی دیں گے۔

یہ غریب تو ادھر اس لیے جمع ہو گئے ہیں کہ موٹر وے پر اب صرف امیر امرا ہی جاتے ہیں۔ ویسے بھی غریبوں کو اپنی راج دلاری جی ٹی روڈ سے جدا ہونے پر کون مجبور کر سکتا ہے۔ یہ تو چند موروثی سیاست دان جو نہایت کرپٹ بھی ہیں، ادھر عین گوجرانوالہ میں ٹریفک جام کر کے بیٹھ گئے ہیں۔ غریبوں کی خوشی برداشت نہیں ہوئی ان سے۔ بدمعاشی دیکھیں ان کی کہ اپنی جہاز جیسی بڑی گاڑیوں سے غریبوں کو اذیت دینے سے ان کا جی نہیں بھرا تو اپنی امارت کی جھوٹی شان دکھانے کی خاطر اپنے پرتعیش درآمدی سامان کے بڑے بڑے کنٹینر بھی ساتھ لے آئے ہیں اور جہاں جس کا جی کیا ادھر کنٹینر دھر دیا کہ غریب پریشان ہوں اور حکومت بدنام ہو۔

ہماری رائے میں بہت سے غریب ان منافق سیاست دانوں کے خلاف احتجاج کرنے بھی جمع ہوئے ہوں گے جو غریب دشمن پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے لوگوں کو خط غربت سے اوپر کھینچ کر مڈل کلاس میں لانے کی سازش کر رہے تھے تاکہ ملک میں غریبوں کا راج ممکن نہ ہو سکے۔

اسی سازش کے ایک دوسرے حصے کے طور پر پچھلے ستر برس میں کرپٹ سیاست دانوں نے جو سرکاری ملازم بھرتی کیے تھے، وہ بھی غریبوں کا بھیس بھر کر اسلام آباد میں دھرنا دے کر بیٹھ گئے ہیں۔ بہانہ یہ بنا رہے ہیں کہ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے اور تنخواہ نہیں بڑھی۔ حالانکہ گزشتہ کچھ عرصے کی رپورٹیں واضح طور پر بتا رہی ہیں کہ جس شرح سے مہنگائی بڑھی ہے، اس سے کہیں زیادہ شرح سے اوپر کی کمائی کا ریٹ بڑھا ہے۔ تو پھر کس چیز کا شکوہ ہے انہیں؟ حکومت تو جی جان سے کوشش کر رہی ہے کہ وہ اضافی آمدنی کی طرف راغب ہوں تاکہ ملکی معیشت کا پہیہ چلے، اگر وہ خود ہی زیادہ پارسا بن کر تنخواہ پر قناعت کر رہے ہیں تو پھر چکھیں درویشی کے مزے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar