دواؤں کی قیمت کیسے کم کی جائے؟


دنیا کی ایک تہائی آبادی کی پہنچ مناسب ادویات تک نہیں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر 1000 میں سے 7.3 افراد دوائی نہ ملنے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ دواؤں کی آسمان سے چھوتی قیمتیں لوگوں کی پہنچ سے باہر ہو رہی ہیں۔ اس وجہ سے وہ جعلی حکماء عطائی ڈاکٹروں اور پیروں کے چکر میں آ جاتے ہیں۔ بیمار آدمی کو کسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اصل مضبوط سہارا جب ان کی پہنچ سے باہر ہوتا ہے تو وہ ان کمزور سہاروں کی طرف بھاگتا ہے۔ اب یا تو وہ اللہ کی طرف سے ٹھیک ہو جاتا ہے یا اللہ کے پاس ہی پہنچ جاتا ہے۔

ذوالفقارعلی بھٹو کے ایک وزیر تھے شیخ محمد رشید پکے سوشلسٹ۔ وہ ایک نظریاتی آدمی تھے۔ عوامی بھلائی اور بہتری ہمیشہ ان کے پیش نظر رہتی تھی۔ وہ وزیرصحت تھے مگر دیکھنے میں ان کی اپنی صحت مشکوک لگتی تھی۔ مگر لوگوں کی صحت کے لیے انہوں نے ایک انقلابی کام کیا۔ انہوں نے ایک ڈرگ پالیسی متعارف کروائی۔ جو بنگلہ دیش اور مصر میں پہلے سے رائج تھی اور عالمی ادارہ صحت سے منظور شدہ تھی۔ جس کے مطابق دوائیاں ٹریڈ نیم کی نجائے جینرک نیم سے فروخت کی جانی تھیں۔ اس پالیسی کی وجہ سے شیخ صاحب کا بہت مذاق اڑایا گیا۔ ان کی مختلف انداز میں تضحیک کی گئی۔ ان کی نام اور شکل پر بہت سے لطیفے بنائے گئے۔ اس سارے عمل میں فارماسیوٹیکل کمپنیاں اور ہمارے ڈاکٹر شامل تھے۔ مگر وہ بندہ خدا اپنی جگہ ڈٹا رہا۔ دوائیوں کی قیمتیں ایک دم سے نیچے آ گئیں جس سے عوام کو کافی سکون ملا۔

ہمارے ملک میں فارماسیوٹیکل کمپنیاں اپنی دوائیاں لکھ کر دینے کے عوض ڈاکٹروں کو بے تحاشا پیسہ دیتی ہیں۔ ہر ڈاکٹر کے کلینک کے باہر جتنے مریض ہوتے ہیں اتنے ہی ان کمپنیوں کے ایجنٹ ہوتے ہیں۔ رشوت کے طور پر ان کے کلینک کی تزئین نو کی جاتی ہے۔ ایئرکنڈیشنگ کی جاتی ہے۔ گاڑیاں لے کر دی جاتی ہیں۔ بیرونی ممالک کی سیر کروائی جاتی ہے۔ یہ تمام پیسہ جو یہ کمپنیاں ڈاکٹروں کو دیتی ہیں اپنی جیب سے بالکل نہیں دیتیں بلکہ یہ سب عوام کو لوٹ کر لیا جاتا ہے۔ اس کا کچھ حصہ ڈاکٹروں کو دیا جاتا ہے کچھ محکمہ صحت کو اور زیادہ حصہ اپنی جیب میں ڈالتے ہیں۔

شیخ صاحب کی ڈرگ پالیسی کی مسلسل مخالفت کی جاتی رہی اور اس میں ڈاکٹروں کی تنظیم (پی ایم اے ) نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس کے لیے بہت سی توجیہات اور بھونڈے دلائل تراشے گئے۔ پاکستان پر بیرونی دباؤ ڈالا گیا۔ دام بنائے کام آخر اس پالیسی کو ختم کروا کر ہی دم لیا۔ دوائیوں کی قیمتیں ایک دم سے پھر بڑھ گئیں۔ اب یہ سوچنے کی بات ہے کہ کیا یہ دباؤ بنگلہ دیش پر نہ ڈالا گیا ہو گا۔ مگر شاید ان کا ضمیر ہمارے مقابلے میں زندہ ہو گا۔

فارماسیوٹیکل کمپنیاں دوائی کے لیے بہت ریسرچ کرتی ہیں بہت سا پیسہ خرچ کرتی ہیں۔ اس لیے ان کی اس چیز کو کچھ عرصہ کے لیے سند حق تحفظ مل جاتا ہے۔ اور وہ اس عرصہ میں اپنی ریسرچ پر خرچ کیے گئے مال سے کہیں زیادہ کما لیتی ہیں۔ اس عرصہ کے بعد کچھ ممالک میں جینرک دوائیں بنانے والی کمپنیاں وہ دوائی بنانے لگتی ہیں۔ مگر پاکستان جیسے کمزور ملک کو اس کی اجازت نہیں ملتی کہ وہ یہ سستی ادویات باہر سے منگا کر اپنے ملک میں استعمال کرے۔ اس کے لیے وہ ہمارے ارباب اختیار کو خرید لیتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا جینرک دوائیاں ٹریڈ دوائیوں کے معیار کے مطابق ہوتی ہیں یا نہیں۔ تو جواب ہے بالکل اس کے معیار کے مطابق ہی تیار کی جاتی ہیں۔ ان دواؤں کے بنانے کا طریقہ کار عالمی ادارہ صحت کے متعین کردہ قوانین کے مطابق ہوتا ہے۔ اس میں کوالیٹی، سیفٹی، سٹرینتھ، ایکسپایئری اور ایکٹیو کیمیکل اصل کے مطابق ہوتے ہیں۔ بہت سے ممالک جینرک میڈیسن بنا رہے ہیں۔ بھارت اس میں سرفہرست ہے اور اس کام سے بہت سا زرمبادلہ کما رہا ہے۔

پاکستان میں فارما کمپنیاں ڈاکٹروں کو رشوت دے دے کر مال بنا رہی ہیں۔ ڈاکٹر اور ہمارے ارباب اختیار بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ گنگا لوگوں کی جیب سے بہہ رہی ہے یا مریضوں کے خون سے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).