پہلے پاکستانی فوجی صدر کا امریکہ میں فقیدالمثال استقبال کیوں ہوا؟


جب پاکستان کے پہلے فوجی صدر جنرل محمد ایوب خان 11 جولائی سنہ 1961 کو امریکہ کے آٹھ روزہ سرکاری دورے پر امریکی ریاست میری لینڈ کے اینڈریو ایئر فورس بیس پر اترے تو ان کا فقیدالمثال استقبال ہوا تھا۔

نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد کسی اور پاکستانی سربراہ کا اس جیسا استقبال ہوا۔ صدر ایوب خان کا امریکی فضائیہ کے ہوائی اڈے پر خود اس وقت کے امریکی صدر جان کینیڈی، امریکہ کی خاتونِ اول جیکلین کینیڈی، وزیرِ خارجہ ڈین رسک اور امریکی افواج کے سربراہ نے خود کیا۔

جب صدر ایوب خان پی آئی اے کے طیارے سے ایئرپورٹ پر اترے تو سیڑھیوں پر ایک قدم چڑھ کر صدر کینیڈی نے گرمجوشی کے ساتھ مصافحہ کیا۔ پاکستان کے صدر اپنی بیٹی بیگم نسیم اورنگزیب، وزیرِ خارجہ منظور قادر، وزیرِ خزانہ محمد شعیب کے ہمراہ تھے۔

ایئرپورٹ پر امریکی فضائیہ اور امریکی بحریہ کے دستوں نے ان کی آمد پر سلامی پیش کی۔ سلامی کے وقت صدر کینیڈی اور امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ امریکی افواج کے سربراہ، جنرل لائیمین لمنِٹزر بھی سٹیج پر موجود تھے۔

اس تقریب کے دوران صدر ایوب خان اور صدر جان کینیڈی نے امریکی فوجی دستوں کا معائنہ بھی کیا۔ اور صدر کینیڈی نے استقبالیہ فی البدیہہ تقریر کی اور جواباً جنرل ایوب نے بھی اپنی خوش آئند توقعات کا ذکر ایک مختصر سی فی البدیہہ تقریر میں کیا۔

صدر ایوب خان امریکی صدر کینیڈی کے ہمراہ ایئرپورٹ سے واشنگٹن ڈی سی پہنچے جہاں سڑکوں پر عوامی ہجوم اُمڈ آیا تھا۔ دونوں صدور ایک کنورٹیبل لنکن کار میں کھڑے ہو کر استقبال کرنے والوں کی تالیوں کا ہاتھ ہلا ہلا کر جواب دیتے رہے۔

سرکاری مہمان

صدر ایوب خان وائٹ ہاؤس کے ساؤتھ لان میں فوجی دستوں کا معائنہ کر رہے ہیں

صدر ایوب کو واشنگٹن ڈی سی میں امریکی عمارت، بلئیر ہاؤس میں سرکاری مہمان کے طور پر ٹھہرایا گیا تھا۔

اُسی شام صدر کینیڈی اور خاتونِ اول جیکلین کینیڈی نے ماؤنٹ ورنن جہاں امریکہ کے پہلے صدر جارج واشنگٹن کا آبائی گھر ہے، مہمان صدر کے اعزاز میں سرکاری عشائیہ دیا جس میں امریکی دارالحکومت میں مقیم اعلیٰ عہدیداروں کے علاوہ کئی ملکوں کے سفارت کاروں نے بھی شرکت کی۔


ایوب خان سے متعلق

1965 کی پاکستان انڈیا جنگ اور ایوب خان کا خفیہ دورۂِ چین

ایوب خان کا دور ترقی کی علامت یا ناہمواری کی نشانی؟

پاکستانی تاریخ کی ’تاریک ترین‘ رات

فیلڈ مارشل کی ڈائری

’میرے والد نے جنرل ایوب خان کی طرف سے میری آزادی کی پیشکش رد کر دی تھی‘


اس موقع پر ‘ملٹری پیجنٹ’ کا مظاہرہ ہوا، امریکی فوجی بینڈ نے صدر ایوب کو محظوظ کرنے کے لیے مختلف کرتب دکھائے۔ کہا جاتا ہے کہ ماؤنٹ ورنن میں اس سے پہلے کسی بھی مہمان کے لیے اس قسم کے عشائیے کا اہتمام نہیں کیا گیا تھا۔

امریکی کانگریس سے خطاب

اس سے پہلے وزیرِاعظم لیاقت علی خان نے سنہ 1950 میں امریکہ کا سرکاری دورہ کیا تھا، اس کے بعد پاکستان کے گورنر جنرل غلام محمد اپنے علاج کی غرض سے امریکہ گئے تھے، پھر سنہ 1954 میں محمد علی بوگرا اور سنہ 1957 میں وزیراعظم حسین شہید شہروردی سرکاری دورے پر امریکہ گئے تھے۔

لیکن ان میں کسی کو وہ اعزاز نہیں ملا جو پاکستان کے فوجی صدر ایوب خان کو دیا گیا۔ فوجی صدر کو امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس (جوائنٹ میٹنگ آف دی کانگریس) سے خطاب کی دعوت دی گئی جو انھوں نے بخُوشی قبول کی۔

صدر ایوب خان کا کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں پُرتپاک استقبال کیا گیا جہاں انھوں نے تقریر میں امریکیوں سے کہا کہ ‘پاکستان کو ترقی کرنے کے لیے جدید تعلیم اور زرعی نظام کی ضرورت ہے۔’

صدر ایوب نے زور دے کر کہا کہ اس وقت امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے: ‘جہاں تک امداد کا مسئلہ ہے، آپ کو ہمیں یہ تو دینا ہوگی، کیونکہ اس سے دنیا بھر کا اور آپ کا مستقبل جڑا ہوا ہے۔’

صدر ایوب کے بعد دوسری پاکستانی رہنما بے نظر بھٹو تھیں جنہیں سنہ 1989 میں امریکی کانگریس کی جوائنٹ میٹنگ سے خطاب کی دعوت دی گئی تھی۔ ایوب خان سرد جنگ کے امریکی اتحادی تھے، جبکہ بے نظیر بھٹو مسلم دنیا کی پہلی خاتون سربراہِ حکومت تھیں۔

امریکہ میں دیگر سرگرمیاں

ایوب خان کی جانب سے جوابی عشائیے میں امریکی صدر جان کینیڈی کے علاوہ سابق امریکی صدر آئزن ہاور نے بھی شرکت کی

ایوب خان کی جانب سے جوابی عشائیے میں امریکی صدر جان کینیڈی کے علاوہ سابق امریکی صدر آئزن ہاور نے بھی شرکت کی

واشنگٹن ڈی سی میں قیام کے دوران صدر ایوب خان نے مقامی مسجد کا بھی دورہ کیا۔ یہ مسجد ترکی اور مصر کے تعاون سے تعمیر کی گئی تھی۔ اس کا ڈیزائن سپین میں الحمراء کی ایک مسجد کے مطابق تھا۔ اس مسجد کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمود حب اللہ نے صدر ایوب خان کو مسجد کا دورا کرایا تھا۔

واشنگٹن میں صدر ایوب نے نیشنل پریس کلب سے خطاب بھی کیا تھا۔ ان کے ‘سادہ اندازِ تکلم’ کی امریکی صحافیوں نے اسی طرح سے تعریف کی جس طرح چار دہائیوں کے بعد ایک اور پاکستانی فوجی صدر پرویز مشرف کے اندازِ تکلم کی تعریف کی گئی۔

واشنگٹن ڈی سی میں پاکستان کے سفارت خانے میں جب صدر ایوب خان نے ایک جوابی عشائیہ دیا تو امریکی صدر جان کینیڈی، خاتونِ اول جیکلین کینیڈی کے علاوہ سابق امریکی صدر آئزن ہاور نے بھی شرکت کی۔

نیویارک میں عوام میں گھل مل گئے

ایوب خان

ایوب خان امریکی خاتون اول جیکی کینیڈی کے ساتھ۔ ان کے گھوڑے کا نام ’سردار‘ تھا جو انھیں ایوب خان نے تحفتاً دیا تھا

صدر ایوب واشنگٹن سے نیو یارک گئے جہاں ان کا بہت ہی عوامی قسم کا استقبال ہوا۔ نیویارک سٹی کا عوامی طرز کا ایک جلوس جسے ’ٹریکر ٹیپ‘ کہا جاتا ہے اور اس میں جشن کے طور پر رنگین کاغذ کی لیریاں پھینکی جاتی ہیں، اس میں صدر ایوب نے شرکت کی۔ اس طرح وہ اپنے ملک میں نہ سہی، امریکہ کی عوام میں گُھل مل گئے۔

نیویارک کے میئر نے صدر ایوب کے اعزاز میں ایک ظہرانہ دیا جس میں مقامی افراد کے علاوہ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد نے بھی حصہ لیا۔ اس موقع پر روایتی تکلفات کے بجائے ہر مہمان کو خود جا کر اپنی مرضی کا کھانا اپنی پلیٹ میں ڈال کر کھانا تھا۔

نیویارک ہی میں انہوں نے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر کا بھی دورہ کیا جہاں اس وقت کے سیکریٹری جنرل ڈاگ ہمرشولڈ نے صدر ایوب کے اعزاز میں عشائیہ دیا۔ اس موقع پر اس وقت پاکستان کے اقوام متحدہ میں مستقل مندوب سعید حسن سمیت تقریباً ہر مغربی ملک کے سُفراء موجود تھے۔

صدر ایوب خان ٹیکساس میں نائب صدر جانسن کے رینچ میں ان کے ذاتی مہمان بنے جہاں انھوں نے امریکہ میں زیرِ تعلیم پاکستانی طلباء سے بھی ملاقات کی۔ پھر روڈز، سینٹ اینٹونیو اور باقی جگہوں کی سیر کرتے ہوئے وہ واپس نیو یارک پہنچے جہاں سے وہ پاکستان روانہ ہو گئے۔

سرد جنگ کا امریکی اتحادی

اگر جائزہ لیا جائے تو ساٹھ کی دہائی میں صدر ایوب خان کا امریکہ میں زبردست استقبال دراصل امریکہ کی اس خطے میں سرد جنگ کی پالیسی کا حصہ تھا جس میں چاہے کوئی فوجی آمر ہو یا مطلق العنان بادشاہ، اگر وہ کمیونزم کے خلاف ہے تو وہ امریکی اتحادی ہوگا۔

اُن کے فقیدالمثال استقبال کی بنیادی وجہ اس وقت پاکستان کا سرد جنگ کے عروج میں امریکہ کا خاص اتحادی ہونا تھا۔ اس سے قبل پاکستان انڈیا کی طرح کسی بھی عالمی طاقت کے کیمپ میں شامل ہوئے بغیر غیر جانبدار خارجہ پالیسی پر کاربند تھا۔

لیکن سنہ 1954 میں پاکستان اس وقت تک سوشلسٹ بلاک کے خلاف امریکی فوجی معاہدوں، سیٹو (ساؤتھ ایسٹ ایشیا ٹریٹی آرگنائیزیشن) اور سینٹو (سینٹرل ٹریٹی آرگنائیزیشن) میں شامل ہو چکا تھا۔ ان سب فوجی معاہدوں میں پاکستان کے شریک ہونے میں جنرل ایوب کا ہاتھ تھا۔

بائیں بازو کے دانشور اور مورخ، حمزہ علوی لکھتے ہیں کہ پاکستان میں امریکہ کی دلچسپی سنہ 1951 میں ایران میں ڈاکٹر محمد مصدق کی اینگلو ایرانین آئل کمپنی کے قومیانے کے بعد پیدا ہوئی۔ اسی برس لیاقت علی خان کا قتل ہوا تھا۔

اور ایک برس بعد، سنہ 1952 میں مصر میں فوجی انقلاب کے بعد جمال عبدالناصر نے مغرب نواز بادشاہت کے خاتمے کا اعلان کیا۔ اس پس منظر میں اس پورے خطے میں سویت یونین کا اثر و نفوذ بڑھتا ہوا نظر آیا۔ اب امریکہ کو مضبوط اتحادیوں کی ضرورت تھی۔

جو بقول حمزہ علوی، پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی صورت میں نظر آیا۔ اس اسٹیبلشمنٹ میں نہ صرف برطانیہ کے تربیت یافتہ سول سرونٹس تھے بلکہ برطانوی تربیت یافتہ فوج بھی تھی۔ اور انھوں نے کمیونزم سے اپنی نفرت کا کئی بار اظہار کیا تھا۔

حادثاتی فوجی سربراہ

فرائیڈے ٹائمز کے 27 دسمبر 2019 کے شمارے میں میجر جنرل سید علی حامد لکھتے ہیں کہ جنرل افتخار کو قابلیت کی وجہ سے ترقی دے کر لاہور کے دسویں ڈویژن کی کمانڈ دے دی گئی تھی۔

اس وجہ سے انہی کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ پاکستان کی فوج کے اگلے سربراہ ہوں گے۔ میجر جنرل ایوب خان کے بارے میں رائے یہ تھی کہ جنرل ایوب کو جنگ میں کمانڈ کا کوئی تجربہ نہیں تھا اس لیے جنرل افتخار کو ترقی دی گئی تھی۔

جنرل افتخار خان جنگ شاہی کے قریب 13 دسمبر سنہ 1949 کو ایک ہوائی حادثے میں ہلاک ہوگئے۔ اور پھر ستمبر 1950 میں جنرل ایوب خان کی اگلے فوجی سربراہ کے طور پر نامزدگی ہوئی جو غیر متوقع تھی کیونکہ وہ نہ سینیئر ترین تھے نہ ہی زبردست۔ جنوری سنہ 1951 میں جنرل گریسی کی ریٹائرمنٹ پر انھیں کمانڈر اِن چیف بنا دیا جاتا ہے۔

جنرل ایوب کے کمانڈر ان چیف بننے کے بعد کشمیر میں سنہ 1947 میں فوجی آپریشن کرنے والے میجر جنرل اکبر خان پر فروری سنہ 1951 میں الزام لگتا ہے کہ انھوں نے کالعدم کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سجاد ظہیر اور فیض احمد فیض کے ساتھ مل کر فوجی انقلاب کا منصوبہ بنایا۔

وزیرِاعظم لیاقت علی خان کے زمانے میں ایک ٹرائبیونل بنا، جس نے ان کے قتل کے بعد اسی برس اس مبینہ سازش میں ملوث افراد کو قید کی سزائیں سنا دیں۔ اسے راولپنڈی سازش کیس کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ بعض مورخین اسے جنرل ایوب کی سازش بھی کہتے ہیں جنہوں نے جنرل اکبر کو ‘ینگ ٹرکس’ کہا تھا۔

راولپنڈی سازش کیس میں کتنی حقیقت تھی یا کتنا فسانہ اس پر بعد میں بحث ہوئی ہے، لیکن اس کیس سے جنرل ایوب خان کو اپنے دو مخالف جرنیلوں، میجر جنرل اکبر خان اور میجر جنرل نذیر احمد کو، جو اُن سے سینیئر تھے، راستے سے ہٹانے کا موقع مل گیا تھا۔

اس مبینہ ناکام فوجی انقلاب کے فوراً بعد اس وقت کے ڈیفینس سیکریٹری سکندر مرزا نے فوراً امریکیوں کو مطلع کیا کے ناکام بغاوت کے ارکان پاکستان کو سویت یونین کے حوالے کرنا چاہتے تھے اور یہ کہ ‘اکبر خان سو فیصد کمیونسٹ تھا۔’

اس پس منظر میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات سنہ 1953 سے تیزی سے بہتر ہونا شروع ہوتے ہیں۔ جہاں سنہ اکاون تک پاکستان کو چند کروڑ ڈالرز امریکی امداد ملتی تھی، سنہ 1953 میں پچاس کروڑ سالانہ سے زیادہ ہوئی، سنہ 1955 تک دو ارب ڈالرز اور سنہ 1963 میں تین ارب ڈالرز کے قریب تھی۔

جب جنرل ایوب کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی تو انھوں نے امریکی سی آئی اے کے ایک خفیہ منصوبے میں شمولیت اختیار کر لی۔ یہ یو-2 جاسوس جہازوں کی پروازیں تھیں جن کا مقصد سویت یونین سے فوجی معلومات جمع کرنا تھا۔

پاکستان سے یو-2 کی پروازیں سنہ 1956 سے سنہ 1960 تک اڑتی رہیں حتیٰ کے ایک پرواز پکڑی گئی اور امریکی پائیلٹ کو روس نے گرا لیا تھا۔ یو-2 کی پروازیں ترکی، ناروے اور پاکستان سے اُڑائی جاتی رہی تھیں۔ لیکن گرایا جانے والا یو-2 پشاور سے اڑا تھا۔

سویت لیڈر خروشچیف نے پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ پشاور اب میزائلوں کے ہدف کی زد میں ہے۔

سیاسی عدم استحکام اور سیٹو، سینٹو

ایوب خان

جب سنہ 1954 میں پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی کو گورنر جرنل غلام محمد تحلیل کرتے ہیں، پاکستان باہمی دفاعی (میوچیول ڈیفینس ایگریمینٹ) کرتا ہے اور اُسی برس مشرق بعید میں امریکی فوجی اتحاد سیٹو (ساؤتھ ایسٹ ایشیا ٹریٹی آرگنائزیشن) میں شامل ہوجاتا ہے۔

اگلے برس پاکستان معاہدہِ بغداد میں شامل ہوتا ہے، لیکن بغداد میں فوجی انقلاب کے بعد عراق امریکی فوجی اتحاد سے علیحدہ ہو جاتا ہے اس لیے معاہدہِ بغداد کو نیا نام یعنی سینٹو (سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن) دیا جاتا ہے۔

ان تمام معاہدوں میں پاکستان کی جانب سے فیصلہ کن کردار ادا کرنے میں جنرل ایوب خان جو اس دوران نہ صرف پاکستانی فوج کے سربراہ بن چکے تھے، بلکہ سنہ 1954 سے وزیرِ دفاع کے طور پر کابینہ کے اجلاس میں بھی شرکت کرتے تھے۔

1955 میں گورنر غلام محمد پارلیمان کو بحال کرتے ہیں مگر نئے انتخابات کروائے جاتے ہیں۔ اسی دوران خرابیِ صحت کی بنا پر غلام محمد کو ہٹا کر اسکندر مرزا گورنر جنرل بن جاتے ہیں۔ نئی اسمبلی سنہ 1956 میں انہی کو صدر منتخب کر لیتی ہے۔

تاہم جب ملک میں نئے آئین کے تحت انتخابات منعقد کرانے کا مطالبہ زور پکڑتا ہے تو سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ ایک مرتبہ پھر سے اسمبلی تحلیل کرتی ہے اور ملک میں 7 اکتوبر سنہ 1958 کو مارشل لا نافذ کر دیا جاتا ہے۔

یہ وہ وقت تھا جب صدر اسکندر مرزا تھے لیکن چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان تھے۔ امریکہ کے لیے بہتر یہی تھا کہ پاکستان میں امریکہ کی حامی ایک جمہوری طور پر منتخب حکومت قائم ہو۔ اسی لیے ایک امریکی اہلکار سی بی مارشل نے مارشل لا سے ناراضی کا اظہار بھی کیا۔

لیکن منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد جب فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تو اس کے دو ہفتوں کے بعد 21 اکتوبر کو امریکہ کے اس وقت کے وزیرِ دفاع نیل میک الروئے ایک اعلیٰ اختیاراتی فوجی وفد لے کر پاکستان پہنچے۔

ثمینہ احمد اپنی تحقیقی کتاب ‘دی ملٹری اینڈ فارن پالیسی اِن پاکستان’ میں لکھتی ہیں کہ امریکی وزیر دفاع نیل میک الروئے جب پاکستان آئے تو انھوں نے صدر اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان دونوں سے ملاقاتیں کیں۔

وہ 26 اکتوبر کو واپس امریکہ روانہ ہوئے اور 27 اکتوبر کو جنرل ایوب نے اقتدار پر قبضہ کیا اور آئین معطل کردیا۔ ثمینہ احمد کے مطابق، اس وقت کے پاکستانی فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل اصغر خان نے بعد میں کہا:

‘سکندر مرزا اور ایوب خان دونوں کے امریکہ اور برطانیہ کی جانب جھکاؤ دیکھتے ہوئے میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ فوجی انقلاب اگر ان دونوں ملکوں کے ایما پر نہیں لایا گیا تو کم از کم وہ اس کے بارے میں آگاہ ضرور تھے۔’

تاہم بائیں بازو کے دانشور حمزہ علوی بغیر لگی لپٹی کہتے ہیں کہ ‘انھوں (امریکی وزیر دفاع) نے اسکندر مرزا کو برطرف کیا’ اور ایوب خان کو صدر بننے کا مشورہ دیا اور ‘ایوب خان کو ملک کا نجات دہندہ بنا کر پیش کیا گیا۔’

ایوب خان کا امریکہ کا کامیاب دورہ؟

دیکھنا یہ ہے کہ ایوب خان نے اس دورے سے پہلے جو اہداف طے کیے تھے کیا وہ انہیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے؟ یہ ان کے دورے میں گرمجوشی کے اظہار سے تو نہیں پرکھا جاسکتا ہے۔

امریکہ جانے سے پہلے انہوں نے کہا تھا کہ وہ انڈیا کی امداد رکوانے یا کم کروانے جا رہے ہیں اور اس کے علاوہ وہ کشمیر کا تنازع طے کرانے کے لیے امریکہ کا مؤثر کردار چاہتے ہیں۔ لیکن جب وہ دورے سے واپس آئے تو نہ وہ انڈیا کی امداد رکوا پائے اور نہ کشمیر کے لیے مدد حاصل کرسکے۔

صدر جان کینیڈی اور خاتونِ اول نے جنرل ایوب کو امریکہ آنے کی دعوت خود دی تھی اور فقیدالمثال استقبال بھی کیا لیکن زمینی حقیقت یہ تھی کہ اس وقت امریکہ چین کے خلاف بڑا گھیرا بنانا چا رہا تھا اِس کے لیے اُسے پاکستان کی ضرورت تو تھی لیکن انڈیا کی ضرورت زیادہ تھی۔


ایوب خان سے متعلق

1965 کی پاکستان انڈیا جنگ اور ایوب خان کا خفیہ دورۂِ چین

ایوب خان کا دور ترقی کی علامت یا ناہمواری کی نشانی؟

پاکستانی تاریخ کی ’تاریک ترین‘ رات

فیلڈ مارشل کی ڈائری

’میرے والد نے جنرل ایوب خان کی طرف سے میری آزادی کی پیشکش رد کر دی تھی‘


فوجی حکومت اور امریکی امداد

اگرچہ باہمی فوجی دفاع کے معاہدے سے کچھ عرصہ پہلے سے ہی پاکستان کے لیے امریکی امداد میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا تھا، لیکن جنرل ایوب خان کے زمانے میں تو امریکی فوجی اور مالی امداد کی ریل پیل ہو گئی تھی۔

اور یہی امریکی امداد کا انداز پاکستان کے ہر فوجی حکمران کے زمانے میں نظر آتا ہے۔ چاہے وہ جنرل ضیاالحق کا زمانہ ہو یا جنرل پرویز مشرف کا، امریکی فوجی امداد اوسطاً سویلین حکمرانوں کی نسبت دوگنی رہی ہے۔

پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک پاکستان کے اٹھارہ صدور یا وزرائے اعظم نے سرکاری یا نجی حیثیت میں امریکہ کے 42 دورے کیے ہیں۔ سب سے زیادہ دورے یعنی نو دورے، فوجی صدر پرویزمشرف نے کیے، نواز شریف نے چھ دورے کیے۔

اس کے بعد صدر آصف زرداری پانچ مرتبہ امریکہ گئے، جنرل ایوب خان نے تین دورے کیے، جنرل ضیاالحق نے امریکہ کے تین دورے کیے، ذوالفقار علی بھٹو نے وزیر اعظم کی حیثیت میں امریکہ کے دو دورے کیے، وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو بھی دو مرتبہ امریکہ کے دورے پر گئیں۔

دیگر پاکستانی صدور اور وزرائے اعظم ایک ایک مرتبہ امریکی دورے پر گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp