چھاتی کا سرطان: ’جب میں 28 ہفتے کی حاملہ تھی مجھے چھاتی میں گلٹی محسوس ہوئی‘


انتیس سالہ ایمی کا تعلق برطانیہ کے علاقے سومرسیٹ سے ہے اور وہ پیشے کے اعتبار سے میک اپ آرٹسٹ اور معالج ہیں۔ حمل کے دوران ان میں چھاتی کے سرطان کی تشخیص ہوئی تھی اور وہ تب سے اپنے اس مشکل سفر کی تفصیل سوشل میڈیا کے ذریعے دوسرے لوگوں تک اس امید کے ساتھ پہنچاتی رہی ہیں کہ وہ ان جوان ماؤں کی مدد کر سکیں جنھیں بچے کی پیدائش کے ساتھ ساتھ اس بیماری کا مقابلہ کرنا پڑ جاتا ہے۔

’کل رات جب میں اپنا سر دھو رہی تھی تو بار بار میری انگلیوں میں بالوں کے گچھے آ رہے تھے۔ اب میرے سر کے بال تقریباً ختم ہو چکے ہیں۔ اور آخری دو مرتبہ جب میں کیموتھراپی کے لیے گئی تو میری بھوئیں اور پلکیں بھی جھڑ گئیں۔ یہ تجربہ بہت تلخ تھا کیونکہ آپ خود کو اس قسم کی صورت حال کے لیے کبھی تیار نہیں کر سکتے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’جب میں آئینے کے سامنے کھڑی ہوئی تو بڑی عجیب کیفیت تھی کیونکہ آئینے میں جو انسان نظر آ رہا تھا، میں اسے پہچان نہیں پا رہی تھی۔‘

’میں ایک میک اپ آرٹسٹ ہوں اور کچھ ہی عرصہ پہلے تک ایک بیوٹی سیلون چلاتی تھی۔ مجھے اپنا سیلون بند کرنا پڑا کیونکہ اسے سنبھالنا بہت مشکل ہو گیا تھا۔‘

’لیکن مجھے جنون کی حد تک شوق ہے کہ میں لوگوں کو قدرت کی طرف سے دی ہوئی جلد کے اندر رہتے ہوئے جتنا ممکن ہو خوش رہنا سکھا سکوں۔ تو میں بتا رہی تھی کہ میرے لیے بالوں اور پلکوں کا جھڑ جانا کتنا مشکل مرحلہ تھا۔ آپ کی بھوئیں آپ کے چہرے کی پوری ساخت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور اور پلکیں ہی آپ کے چہرے کو اجاگر کرتی ہیں۔‘

’اب مجھے زیادہ میک اپ کرنا پڑتا ہے تاکہ میں نارمل انسان نظر آؤں۔‘

یہ بھی پڑھیے

’40 سالہ خواتین جلد ٹیسٹنگ کے ذریعے چھاتی کے سرطان سے بچ سکتی ہیں‘

بریسٹ کینسر: علامات، تشخیص اور طریقہ علاج

چھاتی کا کینسر علاج کے 15 سال بعد بھی لوٹ سکتا ہے

میں حال ہی میں ماں بنی ہوں اور کوشش کر رہی ہوں کہ کسی طرح میں وہی چیزیں کرنے کی کوشش کروں، وہی بننے کی کوشش کروں جو میں حمل سے پہلے تھی۔ لیکن اب میری زندگی میں بہت سی چیزیں بدل گئی ہیں۔ مجھے شدت سے محسوس ہوتا ہے کہ میری شناخت کھو گئی ہے۔

’مجھے پہلی مرتبہ چھاتی کے اندر ایک ڈھیلے یا گِلٹی کا پتہ مئی میں اس وقت چلا جب میں نہا رہی تھی۔ ایک روز تو یہ گلٹی سارا دن موجود رہی۔ میں بالکل حیران رہ گئی۔‘

چند ہی دنوں میں، میں نے فیصلہ کر لیا کہ ہسپتال جا کر دکھانا چاہیے۔ لیکن بدقسمتی سے ان دنوں کورونا وائرس کی وبا عروج پر تھی، جن خاتون سے میں معائنہ کراتی تھی انھوں نے پورا حفاظتی لباس پہن رکھا تھا اور انھوں نے مجھے دیکھنے سے بالکل انکار کر دیا۔

انھوں نے کہا کہ حمل کے دوران جسم میں اس قسم کی تبدیلیاں معمول کی بات ہے، اس لیے گھر جاؤ اور اپنی چھاتی پر بند گوبھی کے ٹھنڈے پتّے رکھو۔ میں نے ان پر اعتبار کیا اور واپس گھر آ گئی۔ صاف ظاہر ہے ہم سب یہی کرتے ہیں۔ آپ سوچتے ہیں کہ ماہرین جو بات کر رہے ہیں وہ ٹھیک ہے۔

اور پھر اگلے چار پانچ ہفتوں میں یہ گلٹی بڑی ہو گئی اور میرے پستان کے اوپر والے سارے حصے پر پھیل گئی۔

گلٹی پھیلتی ہی جا رہی تھی اور مجھے لگا کہ مجھے فوری طور پر دوبارہ کسی کو دکھانا چاہیے۔ میں نے اپنے کلینک کو فون کیا اور انھوں نے اگلے ہی دن مجھے چھاتی کے امراض کے خصوصی بریسٹ کلینک آنے کے لیے کہا۔

برسٹ کلینک والوں کو معلوم ہو گیا کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔ چنانچہ انھوں نے اسی وقت بائیوآپسی کی اور میری بغل کا سکین یعنی مشین کے ذریعے معائنہ بھی کیا۔

یہ حمل کا 35واں ہفتہ تھا جب مجھے سرکاری طور معلوم ہوا کہ یہ ٹرپل نیگیٹِو کینسر کا معاملہ ہے یعنی مجھے چھاتی کا سرطان ہے۔

میں یہ سن کر سکتے میں آ گئی۔ مجھے لگا جیسے میرے پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچ لی گئی ہے۔

جب آپ حاملہ ہوتے ہیں تو آپ کو عجیب سا احساس ہوتا ہے کہ اب کوئی چیز آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی، کوئی چیز آپ اور آپ کے بچے کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ یہ سوچنا کہ جب مجھے چھاتی کا سرطان ہوا تو میں حاملہ تھی، میں نے پوری زندگی اس کا سنا تک نہیں تھا۔

یہ ایک شدید خوف کا احساس تھا۔

خود تشخیصی

Science Photo Library

کیسنر آپ کی مرضی چھین لیتا ہے'

میری بیٹی، براڈی رے، متوقع تاریخ سے تین ہفتے پہلے آپریشن کے ذریعے پیدا ہوئی تھی اور میں صرف ایک ہی مرتبہ اسے اپنا دودھ پلا سکی۔

حمل کے دوران کیسنر کے جس گرداب سے میں گزری ہوں، اس میں میرے لیے سب سے زیادہ خوبصورت اور فطری لمحہ وہی تھا جب میں بیٹی کو دودھ پلا رہی تھی۔

لیکن اگلے ہی دن ڈاکٹروں نے مجھے کوئی ایسی دوا دے دی تھی جس سے چھاتی میں دودھ آنا بند ہو جاتا ہے۔ اسی لیے میں اس کے بعد بیٹی کو دودھ نہیں پلاسکی۔

میں نے اپنی آخری کیمو تھراپی حال ہی میں کرائی ہے۔ میں گھر پر ہی رہتی ہوں اور جتنا ممکن ہو سکے آرام کرتی ہوں۔ میں اپنے علاج کا ایک تہائی حصہ مکمل کر چکی ہوں اور آئندہ چار ہفتوں میں میرا آپریشن بھی ہونا ہے۔

میں تھکاوٹ سے چور ہوں چکی ہوں کیونکہ کیسنر اپنا اثر دکھاتا ہے۔

چھاتی کے سرطان کا مطلب یہ ہے کہ اب میں ہر چیز میں اپنی مرضی نہیں کر سکتی اور کئی فیصلے میں خود نہیں کر سکتی۔

خاتون

ڈاکٹروں نے مجھے بتا دیا تھا کہ علاج کے مراحل کیا ہوں گے اور یہ بھی بتا دیا تھا کہ جب بچہ پیدا ہو گا تو میں اسے اپنا دودھ نہیں پلا سکوں گی۔ اس کے علاوہ مجھے مینوپاز کی دوائیں بھی دے دی گئی تھیں تاکہ میری بچہ دانی کو کیموتھراپی سے محفوظ رکھا جا سکے۔

کیموتھراپی ختم ہونے کے بعد اب اگر میری بیضہ دانیاں دوبارہ سے کام نہیں کرتیں تو شاید میری دوبارہ ماں بننے کی صلاحیت ختم ہو جائے۔ یہ ایک اور ایسی چیز ہے جو کینسر نے مجھ سے چھین لی ہے۔

آج کل میں آئینہ نہیں دیکھتی۔ یہ ایک ایسا کام ہے جو میں چاہتی ہوں کہ نہ کیا کروں۔ تاہم میں مصنوعی مقناطیسی پلکیں لگا لیتی ہوں، حالانکہ یہ خاصی عجیب لگتی ہیں۔ میں یہ پلکیں اسی وقت لگاتی ہوں جب میں واقعی تیار ہوتی ہوں اور گھر سے باہر، کہیں دور جا رہی ہوتی ہوں۔

میں نے ایک بڑی زبردست میک اپ والی پینسل بھی تلاش کر لی ہے جس سے آپ سر پر بال بھی بنا سکتے ہیں۔ میں نے اس سفر میں جو کچھ کھویا ہے، اس قسم کی چھوٹی چھوٹی مصنوعات نے مجھے ان میں سے کچھ کو بحال کرنے میں بڑی مدد کی ہے۔

اور میرے حمل کے تمام عرصے میں مجھے کئی زبردست تنظیموں اور گروپس کی مدد حاصل رہی ہے، جن میں ٹِرپل نیگیٹِو بریسٹ کینسر فاؤنڈیشن اور ممًیز سٹار شامل ہیں۔

میں خود کو نہایت خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ میں زندہ ہوں اور میری ایک بیٹی بھی ہے۔

مجھے کچھ پتہ نہیں تھا کہ ماں بننے کے بعد میں کیسا محسوس کروں گی، لیکن یہ خواب میں بہت طویل عرصے سے دیکھ رہی تھی۔ اسی لیے مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ مجھے کینسر ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جو میری زندگی کا سب سے خوبصورت ہونا چاہیے تھا۔

میں کافی دنوں تک یہی سوچتی رہی کہ کیا میں بچی تھی جس کے ساتھ یہ ہونا تھا۔

لیکن جب میں ہر روز اپنی بیٹی کو دیکھتی ہوں تو مجھے احساس ہوتا کہ میں کتنی خوش قسمت ہوں۔ اگر وہ آج میرے پاس نہ ہوتی تو شاید میرا کوئی بچہ نہ ہوتا۔ مجھے لگتا ہے میں دنیا کی سب سے زیادہ خوش قسمت عورت ہوں۔ زندگی کے اس اندھیرے میں میرے لیے میری بچی ہی سب سے بڑی روشنی ہے۔

اور مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ کینسر نے ہمارے رشتے کو ایک اور بھی گہرا کر دیا ہے کیونکہ وہ جب بڑی ہو گی تو اسے احساس ہو گا کہ وہ کتنی خاص اور اہم ہے۔

میری بیٹی ہر وقت خوش رہنے والی ننھی پری ہے جو بس مسکراتی رہتی ہے۔ مجھے لگتا ہے اس نے اپنے وقت سے بہت پہلے مسکرانا شروع کر دیا ہے۔ اس کا وجود مجھے تکمیل بخشتا ہے۔

میں تمام جوان ماؤں کو ترغیب دوں گی کہ اس وبا کے دوران بھی اپنے ڈاکٹروں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ ان کا معائنہ کرتے رہیں۔

جب مجھے پہلی دفعہ ہسپتال سے واپس بھیج دیا گیا تھا تو مجھے لگا تھا کہ انھوں نے ٹھیک سے میری بات نہیں سنی۔ اس لیے ضروری ہے کہ اب جبکہ برطانیہ میں کووڈ کی وجہ سے پابندیاں سخت ہو رہی ہیں، آپ اپنی چھٹی حس پر اعتبار کریں اور دل کی مانیں۔

مریض

میرا کینسر ایسا ہے جو بہت تیزی سی بڑھتا ہے۔ کون جانتا ہے کہ اگر میں اُس وقت یہ نہ سوچتی کہ کوئی گڑ بڑ ہے، تو آج کس حال میں ہوتی۔

یہ مہینہ چھاتی کے کینسر سے متعلق آگاہی پھیلنے کا مہینہ ہے، لیکن میں نہیں چاہتی ہے کہ اس مرض کو بڑے رنگین و ملائم انداز میں پیش کیا جائے۔ ایسا ویسا کچھ نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جو جوان عورتوں کو ہلاک کر رہی ہے۔

اس لیے یہ بات اہم ہے کہ ہم اپنی چھاتیوں پر نظر رکھیں اور ہر ماہ خود کو یاد کرائیں کہ آپ نے خود کو چیک کرنا ہے کیونکہ اس مرض کا جلد پتہ لگانا اہم چیز ہے۔

کینسر ایک ایسی خوفناک شے ہے جو کسی کو کبھی بھی نہیں ہونی چاہیے۔ کبھی بھی نہیں۔ اسی لیے میں انسٹاگرام پر اپنی کہانی شیئر کرتی رہی ہوں تا کہ لوگوں کو اس کے بارے میں بتا سکوں اور ان کی مدد کر سکوں۔

بہت سی خواتین نے مجھ سے رابطہ کر کے بتایا کہ ان میں بھی کینسر کی تشخیص ہوئی ہے اور اس کی وجہ میری کہانی بنی کیونکہ اس کے بعد سے انھوں نے اپنی چھاتیوں پر نظر رکھنا شروع کر دیا تھا۔ یہی میں چاہتی تھی۔

جب بی بی سی نے مقامی کلینک سے رابطہ کیا تو ان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ وہ مذکورہ معاملے کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکتے، لیکن ان کا کہنا تھا کہ ’جن واقعات کا ذکر آپ نے کیا ہے، ہم ان پر معذرت چاہتے ہیں اور ہم نے اس معاملے سے جو سبق سیکھا ہے ہم آئندہ ان باتوں کا مکمل خیال رکھیں گے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp