مری غلیل کے پتھر کا کارنامہ تھا


یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں تیسری یا چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا۔ یعنی یہ میرا وہ ”احوال“ ہے، جو اب ماضی بن چکا۔ مگر اس احوال کی فرحت ناکی سے آج بھی میرا دماغ معطر ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ماں باپ اپنے بچے کے بارے خوف زدہ نہیں ہوتے تھے کہ نہ جانے کب اسے کوئی درندہ اچک لے اور اس کی نوچی ہوئی لاش کسی قریبی کھیتوں یا کچرا کنڈی میں ورثا کی منتظر ہو۔ یہ اس دور کی کہانی ہے، جب بچوں کے ساتھ ساتھ نو جوان بھی مٹی کے ساتھ کھیلتے تھے۔

تمام بچوں کے بچپن کی شرارتیں، شوق اور کھیل عموماً ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ ویسے ہی مجھے بھی تمام کھیلوں کے ساتھ ساتھ دو چیزوں کا زیادہ شوق تھا۔ ایک اپنے محلے کی مسجد کے بڑے اور گہرے کنویں سے چرخی چلا کہ پانی کے ڈول نکالنا اور دوسرا غلیل کو ساتھ رکھنا۔ یاد رکھیں بچپن میں میری دہشت گردی بھی افغانستان میں جاری جنگ کی طرح موسم بہار میں عروج پر آ جاتی تھی۔ جیسا کہ افغانستان کی ہر بہار امریکا اور اس کے پجاریوں کے لیے ایک نئی آفت لے کر آتی ہے۔

عین اسی طرح ماموں عبد اللہ یزدانی (شاعر) کی حویلی میں موجود بیری کا پیڑ بھی موسم بہار میں اپنے پورے جوبن پر آ جاتا اور چڑیاں اور دوسرے معصوم پرندے بھی بہار آنے پر خوشی منانے اور چہکنے اس بیری کے پیڑ پر پڑاؤ ڈالتے۔ سکول سے واپسی پر غلیل اٹھا کر مجھ جیسا معصوم دہشت گرد اپنی کارروائی ڈالنے، ان کی حویلی پہنچ جاتا اور بیری پر موجود پرندوں کا ماہر نشانہ باز کی طرح نشانہ بناتا۔ مگر پتا نہیں کہ کیوں مجھے دور سے دیکھ کر کوے ”کائیں کائیں“ شروع کر دیتے، چڑیاں اور پرندے فوراً اڑ جاتے۔ آناً فاناً فضا میں کوے ہی کوے نظر آتے۔

آج بھی میرے محلے کے سن رسیدہ کوے مجھے جانتے ہیں اور مجھے دیکھ کر شور مچا دیتے ہیں اور اپنی نئی نسل کو بھی بتاتے ہیں کہ یہ رہا ہمارا دشمن۔ مگر خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ نئی نسل ان کے شور پر کوئی خاص توجہ نہیں دیتی۔ اسی وجہ سے میری غلیل سے نکلے وٹے یا پتھر سے کبھی کوئی پرندہ شکار نہ ہو سکا۔ بس ہر وٹے کے ساتھ تین چار بیر زمین پر ضرور گرتے، جن کو چن کر مزے سے کھاتا۔ ماموں کی حویلی سے بغیر شکار کیے گھر آ کر اپنا غصہ دیواروں پر موجود چھپکلیوں پر نکالتا۔ نشانے میں اتنا طاق تھا کہ چھپکلی مرتی یا نہ مرتی گھر میں موجود کوئی نہ کوئی بلب یا شیشہ ضرور ٹوٹ جاتا۔ اس غلیل کے شوق کے ساتھ کچھ دل فگار حادثات اور واقعات بھی ہوئے، جن کی ناگوار یادیں غلیل کا پتھر بن کر کبھی کبھی میرے ماتھے سے ٹکراتی رہتی ہیں۔

ویسے تو غلیل تقریباً ہر جگہ سے مل جاتی لیکن رحیم بازار میں بخت گل نسوار والے کی دکان سے رنگین اور بہترین غلیلیں بہت سستے داموں مل جاتی تھیں۔ شوقین نوجوان تو اپنی پسند کا خوبصورت اور مختلف رنگوں کی چترائی والا غلیل کا دستہ آرڈر پر بھی بنواتے۔ غلیل کی شکل انگریزی زبان کے حرف وائی کے جیسی ہوتی ہے۔ سائیکل کی ٹیوب کاٹ کر اس کی دو پٹیاں بنا کر لکڑی کے دستے سے مضبوطی سے باندھ دی جاتیں اور درمیان میں تقریباً دو انچ کا چمڑے کا ٹکڑا لگا ہوتا جس میں پتھر یا وٹا رکھ کر نشانہ لگایا جاتا۔ اس غلیل سے ماضی میں بچے اور نوجوان پرندوں کا شکار کرتے یا نشانہ بازی کرتے نظر آتے تھے۔ بچوں کے لیے کھلونا یا اہم ہتھیار سمجھی جانے والی غلیل ڈیرہ میں تقریباً اب قصہ پارینہ بن چکی ہے۔

نسل در نسل پوست کی کاشت کے عادی لوگوں نے شہر میں منشیات کی لعنت کو عام کیا بلکہ قلم اور کتاب کلچر کو ملیامیٹ کر کے اسلحہ اور کلاشنکوف کلچر کو متعارف کرایا اور وہ سارا زہر جو ان کی جہالت کی سرشت میں شامل تھا، کا انجکشن مفت میں بانٹنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے شہر میں ہزاروں معصوم بچوں اور نو جوانوں کو ہیروئن اور دیگر منشیات کا عادی بنا دیا۔ جب یہ عادی ہوئے تو ان تباہ حال افراد کو اپنے عزائم کے لیے خوب استعمال بھی کیا۔ اس گھناؤنے دھندے نے معاشرے کو اس حد تک متاثر کر کے رکھ دیا کہ اسلحے کا استعمال اتنا عام ہوا، جیسے شہر کے بچے اور جوان ماضی میں کھیلنے کے لیے غلیل استعمال کرتے تھے۔

عشق کی داغ بیل ڈالوں گا
میں ہوس کو نکیل ڈالوں گا
لوٹ جاؤں گا اپنے جنگل کو
اور گلے میں غلیل ڈالوں گا
(افراسیاب کامل)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).