گوجرانوالہ میں اپوزیشن کا پاور شو


ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے، آئے تو سہی برسر الزام ہی آئے جیسا شہرہ آفاق شعر پی ڈی ایم کے گوجرانوالہ کے جلسہ میں مسلم لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف کی طرف سے کی جانے والی تقریر کی بھرپور عکاسی کر رہا ہے۔ وہ بات جس کو زیرلب کہتے ہوئے بھی سیاسی قیادت تذبذب کا شکار رہتی تھی وہی بات کل برسر عام ہوئی ہزاروں لاکھوں کے مجمع کے سامنے ہوئی ببانگ دہل ہوئی۔ پہلی بار ملک کے سرونگ چیف کی کارکردگی پر سوال اٹھائے گئے ان سے جواب طلب کیا گیا۔ پہلی بار عمران خان کی حکومت کی سرپرستی کا الزام لگا کر ملکی حالات کی ابتری کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ پی ڈی ایم قائدین کے لہجوں کی تلخی میں اضافہ اس بات کی تصدیق کر رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں لہجے زیادہ تلخ اور کڑوے ہوں گے۔

گوجرانوالہ میں اپوزیشن کا پاور شو خوب رہا۔ اپوزیشن جماعتوں نے مکمل تیاری کے ساتھ اس میں شرکت کی اور عوام نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ بلاول بھٹو زرداری کی لالا موسٰی سے ریلی کے ساتھ روانگی اور مریم نواز کی جاتی عمرہ اور مولانا فضل الرحمن کی لاہور سے ریلیوں کے ساتھ گوجرانوالہ روانگی کے بعد لاہور تا جہلم جی ٹی روڈ جلسہ گاہ کا منظر پیش کر رہی تھی۔ ان ریلیوں نے خوب رنگ جمایا اور اپوزیشن جماعتوں کے ورکرز نے دل کھول کر شرکت کی۔ قطع نظر اس کے کہ جلسہ میں شرکا کی تعداد کتنی تھی یہ بات زیادہ اہم ہے کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے پنجاب میں کم بیک کیا ہے اور ورکرز کو نکالنے میں کامیاب رہی ہیں۔ یہ بات ان جماعتوں کے لیے حوصلہ افزا ہے۔

اے پی سی میں جہاں پی ڈی ایم کی داغ بیل ڈالی گئی تھی میں بھی نواز شریف کی تقریر ٹرمپ کارڈ ثابت ہوئی تھی۔ اس تقریر کے بعد نواز شریف کے سیاسی مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا تھا کہ ان کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا۔ مگر گوجرانوالہ اسٹیڈیم میں پی ڈی ایم کے جلسہ میں نواز شریف نے ایک بار پھر نیازی الیون کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ہر بال باؤنڈری کے باہر پھینکی۔ یہی نہیں بلکہ اسی بیانیے کے ساتھ بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمن نے بھی جا رہا نہ بیٹنگ کرتے ہوئے خوبصورت اسٹروک کھیلے۔ بلاول بھٹو زرداری نے مقبوضہ کشمیر کو خاص طور پر فوکس کیا اور ایک بار پھر کشمیر کا مقدمہ خوبصورت انداز میں پیش کر کے پاکستانیوں اور کشمیریوں کے دل جیت لیے۔ مولانا فضل الرحمن نے عوام کے حق حکمرانی پر کسی قسم کے سمجھوتے کو رد کرتے ہوئے سول سپرمیسی اور رول آف لا کے حق میں خوب بولے۔

18 اکتوبر کو کراچی میں پی ڈی ایم کا دوسرا پاور شو ہوگا۔ پہلے شو کے بعد یہ اندازہ لگانا اب مشکل نہیں کہ یہ دوسرا شو بھی کامیاب ہوگا۔ کراچی کے ہوم گراؤنڈ اور ہوم کراؤڈ پر بلاول بھٹو کی بیٹنگ دیکھنے لائق ہوگی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم جس بیانیے کے ساتھ نکلی ہے کیا یہ ملک اور اس کا نظام اس بیانیے کا متحمل ہو سکتا ہے۔ اداروں کو ان کے آئینی کردار تک محدود کرنے کی بات مقتدر حلقوں کے لیے کس قدر قابل قبول ہوگی۔

سول سپرمیسی کے جس ایجنڈے کو لے کر اپوزیشن نکلی ہے کیا وہ شرمندہ تعبیر ہوگا۔ رول آف لا اور عوام کے حکمرانی کو کون کیسے اور کیوں کر تسلیم کرے گا۔ بالفرض محال اگر طاقت اور اختیار عوام کے ہاتھ میں آ بھی گیا تو ملک کا سیاسی منظر نامہ کیا ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ان سوالات کے مدلل جواب تلاش کیے جائیں۔ غصہ اور ناراضگی کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے ہمیں مل بیٹھ کر اس موضوع پر بات کرنی ہوگی۔ زمینی حقائق اور دلائل کی بنیاد پر نیا بیانیہ تشکیل دینا ہوگا ایک ایسا بیانیہ جس پر پوری قوم کا اتفاق ہو۔

کوئی نواز شریف کی تقریر سے اتفاق کرے یا اختلاف کرے مگر یہ سوال تو بنتا ہے کہ پاکستان کی گزشتہ سات دہائیوں میں صرف سیاست دان ہی کیوں غدار قرار دیے گئے۔ کیا وقت نہیں آ گیا کہ غداری کے لفظ کی دوبارہ سے تشریح کی جائے اور اس کے معنی کی وضاحت کی جائے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ شیخ مجیب الرحمن، حسین شہید سہروردی، فضل حق، باچا خان، نواز شریف، محترمہ بے نظیر بھٹو، نواب اکبر بگٹی سمیت مری، مینگل اور بزنجو ملک دشمن اور سکیورٹی رسک قرار پائے۔ کیا اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونا ملک دشمن ہونے کے مترادف ہے۔ اگر اس کا جواب ہاں ہے تو پھر ملک کے آئین کا کیا کیا جائے اور اگر جواب نہیں ہے تو پھر ماضی میں یہ سب کچھ کیوں ہوا اور اس کا ذمہ دار کون ہے۔

بات اگر حساب کتاب کی چل نکلی ہے تو پھر یاد رہے کہ یہ بات بہت دور تلک جائے گی۔ بہت سے حقائق سامنے آئیں گے اور بہت کچھ عوام کو پہلی بار معلوم ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے بعد عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہوں کہ ملک کے 14 وزرائے اعظم کیوں برطرف ہوئے۔ ملک کے چار وزرائے اعظم کی لاشیں، تین دہائیوں پر محیط مارشل لا آئے روز غداری کے الزامات کے تحت سیاسی قیادت کی تذلیل کا الزام کس پر دھرا جائے اور کس سے جواب طلب کیا جائے۔

اب تک کچھ بھی تو ٹھیک نہیں ہوا محض ذاتی پسند نا پسند کی بنیاد پر حکومتوں کو گرایا اور بنایا گیا۔ طاقت اور اختیار کا یہ گھناؤنا کھیل دہائیوں سے جاری ہے کیا وقت نہیں آ گیا کہ اس سلسلے کو اب رک جانا چاہیے۔ ہمیں بالآخر اپنی سیاسی سمت کا تعین کرنا ہوگا۔ آج نہیں تو کل ہمارے مقتدر حلقوں کو عوام کے حق حکمرانی کو تسلیم کرنا ہوگا۔ آئینی حدود کی پاسداری کرنی ہوگی۔ صرف اور صرف عوام کی فلاح و بہبود سے متعلق سوچنا ہوگا۔

بلاول بھٹو کے مطابق شہزادوں کی گاڑی ڈرائیو کرنے سے خارجہ پالیسی نہیں بنتی ہمیں نئے سرے سے دنیا کے ساتھ روابط کے لیے اپنی ترجیحات کا ازسر نو تعین کرنا ہوگا۔ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے پاکستانیوں کی بہتر زندگی کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی۔ اور یہ سب کچھ کون کرے گا تو عرض ہے کہ یہ صرف اور صرف عوام کے منتخب نمائندے کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).