کامیابی کا راز


آپ سب نے کچھوے اور خرگوش کی کہانی سن رکھی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ خرگوش راستے میں سو جاتا ہے اور کچھوا ریس جیت جاتا ہے۔

مگر ٹھہریئے۔ یہیں رک جائیے۔ غور کیجئے۔ تخیل کے گھوڑے کو واپس لے آئیے۔ ذرا ریس شروع ہونے سے پہلے، خط آغاز پر واپس آئیے۔ ابھی ریس شروع نہیں ہوئی۔ کسی کو معلوم نہیں کہ خرگوش راستے میں سو جائے گا۔ کچھوا اور خرگوش لکیر سے پیچھے کھڑے ہیں۔ آپ سب کچھوے اور خرگوش کی چال سے واقف ہیں۔ غور کیجئے اور اپنی امانت داری کے ساتھ فیصلہ کیجئے، کیا پورے جنگل کا کوئی ایک جانور بھی کچھوے کے جیتنے پر امید لگا سکتا ہے؟ ایسی بھی کوئی دنیا، کوئی کائنات ہے جہاں کچھوا چیت سکے؟

خود کچھوے سے پوچھ لیجیے، کیا کوئی ایک بھی ایسا راستہ ممکن ہے کہ جس پر چل کر کچھوا بازی لے جائے؟
ہمارا مسئلہ ہی یہی ہے۔ ہم ہمیشہ کہانی کے انجام پر کہانی کے کردار کو پرکھتے ہیں۔

ہم بدر کی جیت کا جشن سب کو سناتے ہیں۔ مگر بدر کی جنگ سے ایک رات پیچھے آئیے۔ غور کیجئے۔ ایک طرف تین سو تیرہ ایسے افراد ہیں جن کے پاس تلواریں بھی تین سو تیرہ نہیں۔ دوسری طرف ایک ہزار طاقت زدہ، ہتھیاروں سے لیس افراد ہیں۔ کوئی ہے ذی شعور جو اس معرکے میں مسلمانوں کی فتح کا امکان بھی بتا سکتا ہو؟

آپ کربلا کو دیکھ لیجیے۔ ایک آدمی بیوی بچوں سمیت بھی سو افراد سے کم کا قافلہ لیے چل رہا ہے۔ مقابلے پر ہزاروں یزید کھڑے ہیں۔ کوئی ہے جو حق پر کھڑا رہنے کا مشورہ دے؟ کوئی ہے جو کہے کہ اپنی بات پر اڑ جانا یہاں مناسب فیصلہ ہے؟ کوئی ہے جو بچ جانے کی امید بھی دلا سکتا ہو؟

مگر دیکھیے، بازی کچھوا لے جاتا ہے۔ فتح مسلمانوں کا مقدر بنتی ہے۔ اور زندہ و جاوید حسین کو ٹھہرایا جاتا ہے۔

آپ کسی بھی عظیم آدمی کی کہانی اٹھا دیکھیے، اصل کہانی جیت کے بعد نہیں، جنگ سے پہلے ہے۔ اصل ایڈونچر ہوتا ہی کہانی کے آغاز میں ہے۔ جب ساری دنیا، ساری کائنات آپ کو بتا رہی ہوتی ہے کہ آپ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے، لہٰذا بھاگنا چھوڑ دیجئے، حالات کے مقابلے میں وقت ضائع مت کیجئے، اور آپ اس وقت صرف اس لیے اپنے قدم جمائے کھڑے رہتے ہیں کہ حق پر کھڑا ہونا ہی آپ کا اصولی فیصلہ ہے۔ آپ میدان میں جیتنے کے بجائے، فقط حق کا ساتھ دینے کے لیے، محض حق کی آواز بننے کے لیے، علم اٹھائے، جاں لٹانے آ جاتے ہیں۔

آپ ہمیشہ فتح مکہ کے بعد کے اسلام کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ مسلمانوں کی شان و شوکت پر نظمیں کہتے ہیں۔ عمارتوں میں امارت تلاش کرتے ہیں۔ بابا، ذرا ہجرت سے پہلے کے دس سال تو دیکھیے۔ ایک سو لوگ بھی ساتھ چلنے کو تیار نہیں۔ ہزاروں لوگ جان کے دشمن ہیں۔ بیوی بچوں کو لے کر تین سال ریگستان میں پتے کھا کر گزارا کرنا خالہ جی کا گھر نہیں ہے۔ کہنا سننا آسان ہے، پر پتھر کھانا، اور اتنے پتھر کے لہو سے جوتے پاؤں میں جم جائیں، سارا زمانہ مخالف ہو، لوگ ہنسی اڑاتے ہوں، دیوانگی کا طعنہ دیتے ہوں، پھر بھی آپ اپنے جواز پر، حواس قائم کیے رکھیں، یہ ہے وہ ایڈونچر جس سے ہم سب کو محروم رکھا جاتا ہے۔ ہمیں صرف جیت کے بعد کی کہانی سنا کر فقط اتنا بتا دیا جاتا ہے کہ ان سب کو جیت کا یقین تھا۔ یوں ہمیں یہ بھی بتا دیا جاتا ہے کہ جب تک جیت کا یقین نہ ہو، حق کے لیے اٹھنے کی جسارت بھی نہیں کرنی چاہیے۔

آپ کہیں گے کہ یہ سب تو خیالی کہانیاں یا مذہبی واقعات ہیں۔ حقیقی زندگی اس سے کہیں دور ہے۔ منڈیلا کی بات سنیے۔ یہ پرانی یا خیالی کہانی نہیں ہے۔ ایک آدمی نے ستائیس سال جیل میں گزارے ہیں۔ پچاس سال پہلے پوری دنیا میں ایسا کوئی ایک بھی فرد نہیں تھا جو منڈیلا کی جیت کی امید بھی بتا سکتا تھا۔ پچاس سال پہلے خود مینڈیلا بھی اس گمان سے بہت دور تھا کہ کبھی اس کی تحریک کامیاب بھی ہو سکتی ہے۔ مگر پچاس سال پہلے اس نہ فیصلہ کیا کہ حق کے ساتھ حق کی آواز اور حق کی علامت بن کر کھڑے ہونا ہے، اور کھڑے رہنا ہے۔

خدا آپ سے جیتنے کا فن نہیں چاہتا۔ وہ تو برملا کہتا ہے جیت ہار میرے ہاتھ ہے۔ آپ سے فقط اتنا سا تقاضا ہے کہ حق کی طرف سے کھڑے ہونے کی ہمت دکھائیے۔ یہ سوچے بغیر کہ اس فیصلے کا مقدر فتح مکہ ہے یا شہادت کربلا۔ آپ کا خدا آپ سے صرف حق کے لیے آواز چاہتا ہے۔ اور یہی کامیابی کا اصل راز ہے۔

حق والے جنگ جیتیں یا مار دیے جائیں، تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ یہی کامیابی کا اصل راز ہے۔ چین کی مثالیں دینے والوں کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ چین پچاس سال پہلے بھی انہی اصولوں پر کاربند تھا جن پر آج ہے، حالانکہ پچاس سال پہلے مغرب کی طاقتیں چین کو ملک سمجھنے کے لیے بھی تیار نہ تھیں۔

طاقتور کا کمزور کے خلاف حق کہنا کوئی کمال نہیں۔ کمال تو یہ ہے کہ کمزور ہونے کے باوجود آپ طاقتور کے خلاف کلمۂ حق بلند کریں۔ جب ساری کائنات آپ کی ناکامی کی پیشن گوئی کرتی ہو، آپ اس وقت اپنے حواس میں رہیں، حق پر ڈٹے رہیں، خواب دیکھیں، انھیں پورا کرنے کی سعی کریں، یہاں تک کہ خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے۔ یہ ہے کامیابی کا اصلی راز۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).