نواز شریف نے باجوہ صاحب کے ساتھ اچھا نہیں کیا


مولانا حکومت سے اس لیے باہر ہیں کہ ان کو اس بار کشمیر کمیٹی کی چیئر مین شپ نہیں ملی۔ منسٹر کالونی میں بنگلہ نہیں ملا۔ وہ الیکشن ہار گئے، انہیں جتوا دیتے تو وہ اس حکومت کی حمایت کر رہے ہوتے۔ آپ نے کہی ہم نے مانی۔ بس رولا اک ہے۔ مولانا کی داڑھی سفید ہو چکی۔

جہاں مولانا کے مکتب فکر کا اثر ہے۔ وہاں نوجوانوں کو پہلی صف میں کھڑے ہونے سے اکثر یہ کہہ کر روک دیا جاتا ہے۔ وہ پیچھے ایک سفید ریش ( سفید داڑھی والا آ رہا ہے ) اس کو آگے کھڑا ہونے دو۔ اس کی توجیح ہم نے اکثر یہ سنی کہ نماز خدا کے ساتھ جرگہ ہے، اپنی درخواستوں التجاؤں کا۔ خدا سفید داڑھی والوں کا لحاظ کرتا ہے۔ مولانا جب جوان تھے تب بھی وہ ضیا مارشل لا کے مقابل کھڑے رہے تھے ، یہ اکثر جانتے ہی نہیں کہ تب پیدا نہیں ہوئے تھے ۔

ہم نے مولانا کی داڑھی اور دستار سے کھیلنے کو پی ٹی آئی کے لونڈے چھوڑ دیے۔ اب ہم خود کو گمراہ کرتے رہیں کہ رولا اک سیٹ کا ہے اک چیئرمین شپ اور اک بنگلے کا ہے۔ وزارت اعلی دے کر دیکھیں بنگلوں کی قطار حوالے کریں۔ مان جائیں تو سورج اس دن طلوع ہی نہیں ہو گا۔

آصف زرداری پر ہر چوری ہر ڈاکے ہر گندے کام کا الزام لگائیں۔ سب مان جائیں گے۔ ہم نے اس پر خود کو اتنا پکا کر لیا ہے کہ شاید ہر نئے الزام پر زرداری صاحب خود بھی پوچھتے ہوں کہ وہ غریب آباد میں جو رات سائکل چوری ہوئی تھی۔ اس کے پیسوں سے میرے لیے آدھ کلو بھنڈیاں لے آنا۔

آصف زرداری نے کیا کیا نہیں کیا۔ بلوچستان حکومت گرائی۔ سینیٹ الیکشن چرایا یا اڑایا۔ چیئر مین سینیٹ بنوایا۔ الیکشن کے بعد ساری اپوزیشن کو گھیر گھار کر اسمبلی میں لا بٹھایا کہ نہ بائیکاٹ نہ کرنا۔ جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے۔ حاصل وصول کیا ہوا؟ گھر کی خواتین پر پرچے؟ بہن کو جیل؟ ایف اے ٹی ایف کی منی لانڈرنگ کے الزام؟ یہ آصف زرداری بھول جائیں گے؟

دو ہزار دو کے الیکشن میں مولانا فضل الرحمن کو آصف زرداری وزیر اعظم بنا رہے تھے۔ پی پی کے اپنے لوگوں نے کان بھر کے یہ کوشش ناکام کی۔ پیٹریاٹ اس کے بعد بنے اور ظفر اللہ جمالی وزیر اعظم بن سکے۔ یہ تو سب کو معلوم ہے۔ لیکن یہ ذکر شاید ہی کبھی ہوتا ہو کہ آصف زرداری مولانا کو وزیر اعظم نہ بنانے دینے پر اپنی ہی پارٹی کے لوگوں سے کتنا عرصہ ناراض رہے۔

ناراض کس کے لیے ہوئے تھے مولانا فضل الرحمن کے لیے۔ دونوں کی دوستی ہے۔ دونوں اک دوسرے کو سپیس دیتے ہیں۔ لیکن اسی دوستی کو سیاست متاثر نہیں کرتی۔ مولانا کو ہرانے پر فیصل کریم کنڈی ڈپٹی سپیکر بنتے ہیں۔ آصف زرداری پی پی کا ایج برقرار رکھتے ہیں۔ اور مولانا سے تعلق بھی۔

ہم سیاست کو بس اتنا ہی جانتے ہیں کہ اس میں وعدے قرآن حدیث نہیں ہوتے۔ اسی سیاست میں دیے گئے ساتھ۔ اک دوسرے کی ہوئی مدد، اک دوسرے کو بچانے کے لیے بڑھتا ہاتھ، یہ کوئی نہیں دیکھتا۔ بشیر بلور وزیر اعلی سرحد ہوتے اگر اسفندیار ولی خان کی مدد کو آصف زرداری نہ آتے۔ نصرت جاوید کے ہاتھ پیغام بھجوا کر ان کی مشکل آسان نہ کرتے کہ بلوروں کی وزارت اعلی کے پی کے جیالوں کو منظور نہیں۔

اب کہا جا رہا ہے کہ آصف زرداری ڈیل کر لیں گے۔ اس پر کوئی نہیں سوچتا کہ میاں نواز شریف نے اے پی سی میں اپنے لئے دعوت نامہ کہہ کر زرداری صاحب سے منگوایا۔ نواز شریف کو سیاست کے افق پر ری لانچ کرنے لیے سب کو جمع آصف زرداری نے کیا۔ پی پی حکومت سے ڈیل کر لے گی۔ کر سکتی ہے یہ ہمیں آپ کو معلوم ہے لیکن نواز شریف اور مولانا کو اس بات کا علم نہیں، انہیں سیاست نہیں آتی اور وہ بچے ہیں؟

محترمہ بے نظیر بھٹو کا جنرل مشرف سے معاہدہ ہوا تو فائدہ کسے ہوا تھا۔ نواز شریف سعودیہ سے واپس پاکستان نہیں پہنچ گئے تھے؟ پی پی حکومت میں جا بیٹھے گی اور مسلم لیگ نون اور مولانا فضل الرحمن کے لیے نقصان کی بات ہو گی یا فائدے کی؟ اس کا حساب خود لگا لیں۔

نواز شریف نے جنرل باجوہ کے خلاف ایک زور دار تقریر کر دی ہے۔ اب منمناتا سا سوال فائر ہو رہا کہ پھر ایکسٹنشن کیوں دی تھی؟ اس سوال کا جواب مولانا فضل الرحمن رائے ونڈ میں مریم نواز کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں دے چکے۔ میڈیا میں یہ جواب ان چیک ہی گیا۔ اگر کسی کا دل چاہتا ہے کہ وہ گھبرائے تو جواب سن لیں، یا انتظار کریں کے مولانا کسی جلسے میں جواب کی سینگوں والی تشریح کریں۔

مولانا نے مریم نواز سے پوچھے گئے سوال کا جواب خود دیا تھا اور کہا تھا کہ ایکسٹنشن پر ہماری مدد کا صاف مطلب یہ تھا کہ یہ مسئلہ ہماری طرف نہیں تھا۔ ہمت کریں اس کی کریں تشریح ایکسٹنشن سیاستدانوں کا مسئلہ نہیں تھا تو کس کا تھا؟ کدھر پیدا ہوا، کہاں پروان چڑھا تھا؟ عدالت میں، کیسے؟

نواز شریف نے حکومت کی بلائیں لیتے ہوئے لوگوں کی ہر پریشانی کے لیے باجوہ صاحب کو اک ذمہ دار بتا دیا ہے۔ کشمیر گیا ذمہ دار باجوہ صاحب، دوائی نہیں ملتی ذمہ دار وہی، روزگار گیا تو ذمہ دار یہ، مہنگائی تو ذمہ داری ان کی، آٹا غائب یا چینی مہنگی ذمہ دار سر جی۔ بس ساتھ ہاتھ اٹھا کر دعا نہیں کی کہ آگے تیرا بھاگ۔

دیس کی ساری خرابیاں گنوا کر دیسیوں سے کہہ دیا ہے کہ وہ کھڑا تمھارا چاہنے والا، میرا کام بس دھیان ڈلوانا تھا۔ بات بہت ہی سیریس ہو گئی ،چلیں  چھوڑیں۔ ویسے سر جی نواز شریف نے تو آپ کے ساتھ اچھا نہیں کیا لیکن وہ تھا کون جس نے آپ کو کپتان کی سیاسی برات کے ساتھ روانہ کیا تھا۔ اسے لمبا لٹا لیں۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi