گھبراہٹ اور خوف کیوں؟


گھبراہٹ ایک عام انسانی احساس ہے۔ ہم سب کو اس کا تجربہ اس وقت ہوتا ہے، جب ہم کسی مشکل یا کڑے وقت سے گزرتے ہیں۔ خطرات سے بچاؤ، چوکنا ہونے اور مسائل کا سامنا کرنے میں عام طور پر خوف اور گھبراہٹ مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ تاہم یہ احساسات شدید ہو جائیں یا بہت عرصے تک رہیں، تو ہمیں ان کاموں سے روک سکتے ہیں، جو ہم کرنا چاہتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہماری زندگی تکلیف دہ ہو سکتی ہے۔

فوبیا کسی ایسی مخصوص صورت احوال یا چیز کا خوف ہے، جو خطرناک نہیں ہوتی اور نا ہی عام طور پر لوگوں کے لیے پریشان کن ہوتی ہے۔ گھبراہٹ کی ذہنی علامات میں ہر وقت پریشانی، تھکن، چڑچڑے پن کا احساس، توجہ مرکوز نہ کر پانا اور نیند کے مسائل شامل ہیں۔

جسمانی علامات میں دل کی دھڑکن محسوس ہونا، زیادہ پسینہ آنا، پٹھوں میں کھنچاؤ اور درد ہونا، سانس کا تیزی سے چلنا، سر چکرانا، بے ہوش ہو جانے کا ڈر، بد ہضمی، اسہال شامل ہے۔ گھبراہٹ کا شکار افراد ان علامات کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ انہیں کوئی شدید جسمانی بیماری ہو گئی ہے، ایسے میں ان علامات میں مزید زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ گھبراہٹ کے غیر متوقع دورے ”پینک“ کہلاتے ہیں۔ اکثر گھبراہٹ اور پینک کے ساتھ ڈپریشن بھی ہوتا ہے۔ جب ہم اداس ہوتے ہیں، تو ہماری بھوک ختم ہو جاتی ہے اور مستقبل تاریک اور مایوس کن نظر آنے لگتا ہے۔

ایک ایسا شخص جسے فوبیا ہو اس میں اوپر بیان کی گئی گھبراہٹ کی شدید علامات پائی جاتی ہیں۔ لیکن یہ اس وقت ظاہر ہوتی ہیں، جب وہ کسی ایسی خاص صورت احوال میں ہوں، جس میں انہیں شدید گھبراہٹ ہوتی ہو۔ دیگر اوقات میں انہیں گھبراہٹ نہیں ہوتی۔ اگر آپ کو کتوں کا خوف ہو، تو آپ اس وقت بالکل ٹھیک ہوں گے، جب کتے آس پاس نہ ہوں۔ اگر آپ کو بلندی کا خوف ہے، تو زمین پر آپ ٹھیک رہیں گے۔ اگر ہجوم کا سامنا نہیں کر سکتے ہیں، تو اکیلے میں آپ آرام سے رہیں گے۔

فوبیا میں مبتلا شخص ایسی ہر صورت احوال سے بچنے کی کوشش کرتا ہے، جو اسے گھبراہٹ میں مبتلا کر سکتی ہے لیکن اصل میں اس طرح وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ فوبیا شدید ہو جاتا ہے۔ اس کا یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ متاثرہ شخص کی زندگی ان احتیاطی تدابیر کی محتاج ہو جائے، جو اسے ان صورت احوال سے بچنے کے لیے اختیار کرنا پڑتی ہیں۔

اس بیماری سے متاثرہ افراد کو معلوم ہوتا ہے کہ ایسا کوئی حقیقی خطرہ نہیں ہے، انھیں اپنے خوف بے وقوفانہ لگتے ہیں، لیکن اس کے با وجود، وہ انھیں کنٹرول نہیں کر سکتے۔ وہ فوبیا جو کسی پریشان کن واقعے یا حادثے کے نتیجے میں شروع ہوا ہو، اس کے ختم ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

اکثر بچے کبھی نہ کبھی کسی وجہ سے ڈر جاتے ہیں۔ مثلاً: چھوٹے بچے اپنی دیکھ بھال کرنے والے افراد سے مانوس ہوتے ہیں اور اگر کسی وجہ سے وہ ان سے الگ ہو جائیں، تو بہت پریشان ہو جاتے ہیں اور گھبرا جاتے ہیں۔ بہت سے بچے اندھیرے یا فرضی وجود (جن بھوتوں) سے ڈرتے ہیں۔ یہ خوف عام طور پر بڑے ہونے کے بعد ختم ہو جاتے ہیں اور بچوں کی زندگی یا ان کی نشو و نما کو متاثر نہیں کرتے ہیں۔ زیادہ تر بچے سکول کے پہلے دن جیسے اہم واقعات کے بارے میں خوف زدہ ہوتے ہیں لیکن بعد میں یہ خوف ختم ہو جاتا ہے اور وہ اس نئی صورت احوال کے عادی ہو کر اس سے لطف اندوز ہونے لگتے ہیں۔

نو جوانوں کا مزاج اکثر بدلتا رہتا ہے۔ ان کی پریشانیوں کی وجوہ مختلف ہو سکتی ہیں، مثلاً: وہ کیسے لگ رہے ہیں، دوسرے لوگ ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، عموماً لوگوں سے ان کے تعلقات کیسے ہوتے ہیں اور خصوصاً صنف مخالف کے ساتھ تعلقات کیسے ہیں۔ ان پریشانیوں کے بارے میں بات چیت کر کے ان پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

اگر یہ پریشانیاں بہت بڑھ جائیں تو اور لوگ اس بات کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ وہ سکول میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے، ان کا رویہ بدل گیا ہے یا وہ جسمانی طور پر ٹھیک نہیں ہیں۔

اگر کوئی بچہ یا نو جوان یہ محسوس کرے کہ پریشانی، گھبراہٹ یا خوف اس کی زندگی تباہ کر رہے ہیں، تو اسے فیملی ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیے۔ یہ اس صورت میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے، جب مسئلہ فوری نوعیت کا ہو۔ مثلاً: شریک حیات سے علیحدگی۔ بچے کی بیماری یا نوکری کا چھوٹ جانا۔ کس سے بات کی جائے؟ ایسے دوست یا رشتے داروں سے بات کریں، جن پر آپ اعتماد کرتے ہوں۔ جن کی رائے کو اہمیت دیتے ہوں اور جو آپ کی بات اچھی طرح سنتے ہوں۔ شاید وہ بھی ایسے مسائل سے گزر چکے ہوں یا ایسے کسی شخص کو جانتے ہوں، جو ان حالات کا شکار رہا ہو۔ بات کرنے کے موقع کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی پتا چل سکتا ہے کہ دوسرے لوگوں نے ایسے مسائل کا سامنا کس طرح کیا تھا۔

پر سکون رہنے کا کوئی مخصوص طریقہ سیکھنا، گھبراہٹ اور پریشانی پر قابو پانے میں مفید ہو سکتا ہے۔ پریشانی کو خود پر سوار کرنے سے یہ مزید بڑھتی ہے، کم نہیں ہوتی، اس لیے کوشش کی جائے کہ کسی اور موضوع پر توجہ دیں یا کوئی مختلف کام شروع کر دیں، جس سے وقتی طور پر توجہ اس مسئلے سے ہٹ جائے۔ گروپ کی صورت میں کسی سرگرمی میں شریک ہونے کی کوشش کریں۔ وہ عبادت بھی ہو سکتی، سماجی فلاحی کام یا پھر کوئی احتجاج بھی ہو سکتا ہے۔ اس عمل سے اس وقت صحیح فائدہ ہوتا ہے، جب اسے با قاعدگی سے کیا جائے۔ بجائے اس کے کہ صرف اس وقت کیا جائے، جب انسان کسی مسئلے کا شکار ہو۔

یہ بات چیت کا ایک زیادہ جامع طریقہ ہے، جس سے ہمیں گھبراہٹ کی ان وجوہ کو جاننے میں مدد مل سکتی ہے، جنھیں ہم اب تک پہچان نہیں پائے۔ اس طریقے پر عمل انفرادی یا گروپ کی صورت میں کیا جاسکتا ہے اور عام طور پر یہ ہفتہ وار بنیادوں پر کئی ہفتوں یا مہینوں تک کیا جاتا ہے۔ سائیکو تھراپسٹ ڈاکٹر بھی ہو سکتے ہیں اور نہیں بھی۔ گھبراہٹ کو ختم کرنے میں ادویات بہت موثر ثابت ہوتی ہیں۔ تاہم اس بات کا خیال رہے کہ صرف چار ہفتوں کے با قاعدہ استعمال سے انسان ان کا عادی بن سکتا ہے اور جب لوگ انھیں چھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں، تو انھیں نا خوش گوار علامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو بہت عرصے جاری رہ سکتی ہیں۔ گھبراہٹ کے لمبے عرصے علاج کے لیے ان ادویہ کا استعمال مناسب نہیں۔

سب سے بہتر اور موثر طریقہ یہ ہے کہ انسان خود کو حالات کے مطابق ڈھال لے اور اس کے مقابلے کے لئے تیار رہے۔ ایک بات طے شدہ ہے، پریشانی اور گھبرانے سے نہ مسائل حل ہوتے ہیں، نہ اس صورت احوال سے نکلا جا سکتا ہے۔ البتہ اسے اپنے آپ پر سوار کرنے سے ذہنی حالت زیادہ ابتر ہو جاتی ہے، جس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا بلکہ انسان نقصان سے دو چار بھی ہو سکتا ہے، اور ساتھ میں کسی بیماری کا شکار بھی۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar