وعدہ تو کیا ہوتا


میں شراب پیتا تھا، یہی ایک خرابی تھی مجھ میں۔ ہمارے گھر میں کوئی بھی نہیں پیتا تھا بلکہ اٹھتے بیٹھتے سگریٹ اور شراب کے خلاف ہی بات کی جاتی تھی۔ شاید میں بھی نہیں پیتا اگر کراچی یونیورسٹی میں میری ملاقات شبیر سے نہیں ہوتی۔ ہم دونوں نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے کیا تھا۔ کراچی یونیورسٹی کے ہاسٹل میں شراب سے ہمارا تعارف ہوا تھا۔ میں اور شبیر دونوں ہی ہاسٹل میں سلیم سے ملنے گئے تھے۔ سلیم کے کمرے کے ساتھ ہی اگالا وکابی کا کمرہ تھا۔

وکابی نیروبی سے پڑھنے کراچی آیا تھا۔ سلیم کی سارے غیر ملکی طالب علموں سے دوستی تھی۔ وہاں پر ایک شام وکابی اور سوڈان کے لڑکے سلیم کے ساتھ بیٹھے شراب پی رہے تھے۔ سلیم نے شبیر کو بھی ایک گلاس پکڑا دیا۔ ہم دونوں نے چاہتے نہ چاہتے ہوئے آہستہ آہستہ گھونٹ لینے شروع کیے تھے۔ سچی بات یہ ہے کہ مزا خراب ہونے کے باوجود مجھے اچھا لگا پھر ہم لوگ یونیورسٹی کی اس خفیہ جماعت میں شامل ہو گئے تھے۔ کبھی کبھار ہاسٹل آنا اور آ کر پینا ایک معمول سا بن گیا تھا۔ ایسا معمول کہ شراب کو ہم برا سمجھتے ہی نہیں تھے۔

غیر ملکی طالب علموں میں بھی دو گروپ تھے۔ ایک گروپ مذہبی قسم کے طالب علموں کا تھا جو اسلامی جمعیت طلبا کے حامی تھے۔ دوسرا گروپ آزاد خیال قسم کا تھا جو اپنے آپ میں مست رہتے تھے۔ کبھی پروگریسو کی حمایت کردی، کبھی نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کو ووٹ دے دیا۔ ہم دونوں کا تعلق کسی بھی قسم کی سیاست سے تو تھا نہیں، تھوڑا بہت پڑھائی کے بعد آزاد خیال غیر ملکیوں کے ساتھ گھومتے رہتے تھے۔

بھٹو صاحب نے شراب پر جو پابندی عائد کی، اس کے بعد شراب بند تو نہیں ہوئی تھی مہنگی ضرور ہو گئی تھی۔ ہاسٹل میں لڑکوں نے شراب کشید کرنا شروع کر دیا تھا۔ کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ کشمش، خمیر، شکر اور پانی ملا کر بڑی بڑی بوتلوں میں رکھ دی جاتی تھی اور ان کو اس طرح سے بند کیا جاتا تھا کہ اندر کی گیس تو باہر نکل سکتی تھی مگر باہر کی ہوا اندر نہیں جا سکتی تھی۔ ایک عربی لڑکے نے ایک دفعہ بوتل پوری کی پوری مکمل طور پر سیل کردی تھی۔ تھوڑے دنوں کے بعد بوتل کی تہہ میں سے بلبلے نکلنے لگے تھے اور شاید دسویں یا گیارہویں دن بوتل ایک دھماکے سے پھٹ گئی، پھر شراب بنانے والوں کی سمجھ میں آیا تھا کہ غلطی کہاں ہوئی تھی۔

وہ یونیورسٹی کے اچھے دن تھے، میں نے اور شبیر نے تو بڑی بھرپور زندگی گزاری۔

ایم اے کرنے کے بعد شبیر کو پی آئی اے میں نوکری مل گئی تھی اور میں بھی تھوڑے دن بے روزگار رہنے کے بعد ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں ملازم ہو گیا۔ میری زندگی کے اوائل میں ہی جب میں نے کام کرنا شروع کیا تھا تو میں نے اس ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں بہت کچھ سیکھا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ میری ٹریننگ ہی یہاں پر ہوئی تھی۔ مجھے ایک اسسٹنٹ کے طور پر لیا گیا تھا۔ ملک کی کئی قومی اور بین الاقوامی کمپنیوں نے ہماری ایجنسی کی خدمات حاصل کی ہوئی تھیں۔

ہماری ایجنسی کے مالک بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ ان کے کلاس فیلو، ان کے آشنا، ان کے والد کے دوست، ان کے بھائی کے جاننے والے، ان کی بیوی کے قدردان اور ان کے سسرال کی رشتہ داریاں سب نے مل کر ایجنسی کو چار چاند لگا دیے تھے۔ پارٹیاں ایک معمول سا تھیں۔ وہ خود بھی بڑی محنت کرتے تھے اور ہم سب بھی ایک طرح سے ان کی شخصیت کے جال میں الجھے ہوئے تھے۔ ان کی خاص بات یہ تھی کہ کوئی بھی ان سے ’نہ‘ نہیں کر سکتا تھا۔ ان میں کام لینے کی زبردست صلاحیت تھی۔

انہوں نے میری ٹریننگ میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ میں نے کوشش کی تھی کہ ان کی ساری اچھی باتیں سیکھ لوں اور میں نے سیکھی بھی تھیں۔ صرف شراب ان کی ایسی برائی تھی جس کو پہلے دن سے میں نے اپنا لیا تھا۔ پانچ سال میں نے اس ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں کام کیا۔ اس کے بعد ایک امریکن کمپنی میں ایک اچھی جگہ مل گئی اور میں نے وہ کمپنی جوائن کرلی تھی۔ یہ لوگ پاکستان میں تیل اور گیس تلاش کر رہے تھے۔ کچھ جگہوں پر تیل کی تلاش میں کامیابی کے بعد کھدائی بھی شروع ہو چکی تھی۔ اسی کمپنی کا ایک دوسرا حصہ تھا جو پاکستان میں غربت کے خلاف اور ماحول کو آلودگی سے بچانے کے لیے کام کر رہا تھا۔ مجھے اس دوسرے حصے کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے رکھا گیا تھا۔

شبنم بھی یہیں کام کرتی تھی۔ اس نے لاہور کے لمز (LUMS) سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ڈگری لی تھی اور اس کمپنی میں ملازم ہو گئی تھی۔ دوسرے ہفتے میری اس سے ملاقات ہوئی تھی۔ بہت ہی جاذب نظر تھا چہرہ اس کا۔ اس کو گورا نہیں کہا جاسکتا تھا مگر کوئی بات تھی اس میں۔ لانبے اور گھنے بال، درمیانہ قد، کتابی چہرہ اور بہت بڑی بڑی سیاہ آنکھیں۔ اس کے چہرے پر نظر نہیں رکتی تھی، اس کی آنکھوں پر نظر رکتی تھی اور پورے وجود میں جیسے گھنٹیاں سی بجنے لگتی تھیں، ٹن ٹن ٹن۔

اس دن یہ گھنٹیاں ہی بجی تھیں اور میں بے اختیار ہو کر اس کی طرف متوجہ ہو گیا تھا۔ نہ ہمارا کوئی جھگڑا ہوا تھا، نہ اس نے مجھ سے کوئی بدتمیزی کی تھی، نہ میں نے اس کو خوش آمدید کہا تھا، ہم نئے تھے اور نہ جانے کیوں ایک دوسرے کو پسند آ گئے تھے۔ وہ مجھے اچھی لگی تھی اور میں بھی اسے اچھا لگا تھا اور ایک معصوم سی دوستی کا یکایک آغاز ہو گیا تھا۔

پھر تو ہم روز ہی ملتے تھے۔ کبھی وہ کافی پینے میرے کیبن آجاتی تھی، کبھی میں چائے پینے اس کے کمرے میں چلا جاتا تھا اور لنچ توہم لوگ تقریباً روز ہی ساتھ کیا کرتے تھے۔ وہ اندر سے بھی بڑی خوبصورت تھی۔ بہت ذہین اور بے انتہا سمجھ دار۔

ہماری دوستی آہستہ آہستہ چاہت میں بدلتی گئی تھی۔ مجھے وہ بہت اچھی لگی تھی، خاص طور پر اس کا آزاد رویہ، اس کا اپنے پر بلا کا اعتماد۔ وہ نارتھ ناظم آباد سے روزانہ اپنی ٹویوٹا اسٹارلٹ پر میکلوڈ روڈ آتی تھی اور کراچی کے اس جنگل میں جہاں لڑکیوں کو لوگ عجیب عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں، وہ بلا کی خود اعتمادی کے ساتھ خود ہی ڈرائیو کرتی تھی۔

ایک دن مجھے وہ سخت غصے میں ملی۔ میں نے پوچھا ”ارے بھائی اتنی لال بھبوکا کیوں بنی ہوئی ہو؟“ وہ غصے کے باوجود مسکرا دی تھی۔ ”نہیں کوئی بات نہیں ہے، بس غصہ آتا ہے۔ کس شہر میں پیدا ہو گئی ہوں۔ کہنے کو مسلمان ہیں مگر سارے کمینے ہیں اندر سے۔“

مجھے اس کی بات سے کوئی خاص اختلاف تو نہیں تھا لیکن پھر بھی میں پوچھ بیٹھا ”ارے کیا ہو گیا ہے، آخر بات کیا ہوئی ہے؟“

”ارے بات کیا ہوئی ہے روز کا چکر ہے۔ آج پھر گاڑی ٹریفک میں پھنس گئی تھی اور کوئی بھی راستہ دینے کو تیار نہیں تھا۔ یہاں تک کہ پیدل چلنے والے لوگ بھی میرے سامنے آرہے تھے اور کم بخت دیکھتے تو ایسے ہیں جیسے کھا جائیں گے۔ لڑکی کا گاڑی چلانا تو عذاب ہی ہے۔ اگر بس چلے تو شیشے توڑ کر مجھے اغوا ہی کر لیں، کچھ اور تو کر نہیں سکتے ہیں ہر گزرتے ہوئے گاڑی پر ہی اس طرح سے ہاتھ پھیرتا ہے جیسے میں اس کے قابو میں آ گئی ہوں۔“

مجھے بے اختیار ہنسی آ گئی۔ ”ارے، تم ہنس رہے ہو، یہ ہنسنے کی بات ہے۔ یہ شرم کی بات ہے۔“ بات تو شرم کی ہی تھی مگر روڈ پر چلنے والے ان بے شمار لوگوں کو کیا کہا جاسکتا تھا۔ سارا شہر فرسٹریشن کا شکار تھا۔ ہر قسم کی فرسٹریشن تھی لوگوں کو اور ہر کوئی اپنے طریقے سے اس فرسٹریشن کو مٹا رہا تھا۔ کوئی دیواروں پر الٹے سیدھے نعرے لکھتا ہے، کوئی بسوں کو جلاتا ہے، کوئی سڑکوں کی روشنیوں کو توڑتا ہے، کوئی گاڑی چلانے والی لڑکی کی گاڑی پر ہاتھ پھیرتا ہے، میں نے اسے سمجھایا تھا۔

تھوڑی دیر میں اس کا غصہ ختم ہو گیا تھا مگر ہم دونوں ہی سوچ رہے تھے، بہت کچھ۔ وہ ایک لڑکی ہونے کے ناتے اور میں ایک مرد ہونے کے حوالے سے۔

ایک دن اس کی گاڑی کے چاروں پہیوں کی ہوا کسی نے نکال دی تھی، حالانکہ گاڑی محفوظ جگہ پر کھڑی ہوتی تھی مگر نہ جانے کیوں کسی نے یہ شرارت کی تھی۔ وہ تو یہ کہیے کہ میکلوڈ روڈ پر ہمارے آفس کے قریب میں ہی پنکچر والے کی دکان تھی، اسے میں نے بلا لیا تھا، اس نے جیک لگا کر چاروں پہیے ایک ساتھ اتار لیے تھے اور اپنی دکان سے ہوا بھر دی۔ ایک گھنٹے کے اندر اندر سب کچھ ٹھیک ہو گیا تھا مگر وہ بے انتہا ٹینشن کا شکار ہو گئی تھی۔ شاید کچھ خوفزدہ بھی۔ میں نے کہا تھا، گاڑی آفس میں ہی چھوڑ دو میں تمہیں چھوڑ آتا ہوں۔ کل صبح تمہیں تمہارے گھر سے لیتا ہوا آ جاؤں گا، گلشن سے فاصلہ ہی کتنا ہے۔ اس نے شدید غصے میں کہا تھا۔ ”ٹھیک ہے، شاید غصے میں کوئی حادثہ ہی کر بیٹھوں گی۔“

اس دن میں نارتھ ناظم آباد میں فائیو اسٹار ہوٹل کے پاس اس کے گھر گیا تھا جہاں اس کے ابو، امی اور بھائی سے ملاقات ہوئی تھی۔ وہ لوگ بڑے سلیقے کے لوگ تھے۔ اس کے ابو حبیب بینک میں منیجر تھے، ماں ایک اسکول میں پڑھاتی تھیں اور بھائی این ای ڈی میں انجینئرنگ پڑھ رہا تھا۔ میں بہت دیر تک ان کے گھر بیٹھا گپ شپ لگاتا رہا تھا۔ مجھے ایسا ہی لگا تھا جیسے میں اپنے ہی گھر میں بیٹھا ہوا ہوں۔

اس رات میں نے اپنی امی کو کہہ دیا تھا کہ میں نے لڑکی تلاش کرلی ہے اب عنقریب آپ کو ان کے گھر جانا ہوگا۔ ہمارے گھر میں بھی خوشی کی لہر سی دوڑ گئی تھی۔

پھر دسمبر کا مہینہ آ گیا۔ نئے سال کی پارٹیوں کا آغاز ہو گیا تھا۔ ہمارے آفس کے کنٹری منیجر نے اپنے گھر پر ایک دعوت رکھی تھی جہاں آفس کے ہم کچھ لوگ مدعو تھے۔ کافی اچھی دعوت تھی۔ میں اور شبنم ساتھ ہی پہنچے تھے۔ اس نے بہت ہی خوبصورت، نئے انداز کے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور اپنی بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں کے ساتھ بہت اچھی لگ رہی تھی۔ دعوت میں شراب بھی مل رہی تھی اور میں نے بھی اپنی پسند کی بیئر پی لی تھی۔ خوبصورت پارٹی، خوبصورت انداز سے شروع ہو کر خوبصورت انداز سے ہی ختم ہو گئی تھی۔

زندگی گزر رہی تھی، آفس کا روزانہ کا کام، ماحول کی بڑھتی ہوئی آلودگی کے بارے میں شہریوں کی بے حسی، اس بے حسی کو دور کرنے کی ہماری ناکام کوششیں۔ غربت کو دور کرنے کے لیے حکومت کے مختلف اداروں کو دیے جانے والے ہمارے مشورے اور فنڈ جو حکومت کے افسران اپنی امیری کو بڑھانے میں صرف کر رہے تھے۔ شہر کی بگڑتی ہوئی حالت، ابلتے ہوئے گٹر اور روزانہ بجلی کے چلے جانے کا عمل، اس میں سوائے ڈپریشن کے اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ اس بے رنگ تصویر میں صرف شبنم کی رنگینی تھی، اس کی فلسفیانہ باتیں، اس کا عورتوں کے حقوق کے لیے جہاد، زندگی میں ہونے والے حادثات پر اس کا ردعمل، اس کے ساتھ گزرے ہوئے لمحے، وقت خوب گزرتا تھا مزے سے۔ ساتھ ساتھ وہ اب میری کمزوری بھی بن گئی تھی۔

پھر ایک دن میں نے اس سے پوچھ ہی لیا تھا کہ ”کیا ارادے ہیں، مجھ سے شادی کرو گی یا بغیر شادی کے اس طرح سے بور کرتی رہو گی۔“ وہ یکایک ہنسی تھی پھر سنجیدہ ہو گئی تھی۔

”ہاں کر سکتی ہوں، مگر ایک شرط ہے۔“
”شرط ہے، کیسی شرط، ہمالیہ پہاڑ سے جا کر سونے کے انڈے لانے کو مت کہنا۔“
”نہیں، اس سے بھی آسان ہے۔“ اس نے ہنس کر کہا تھا۔ اگر مانو گے تو بولوں گی۔ ”
”جب پتا ہی نہ ہو تو ماننے کا کیسے وعدہ کر سکتا ہوں۔ بڑی بے وقوفی کی بات کر رہی ہو۔“ میں ہنس دیا تھا۔

نہیں حامی تو بھرو۔ پھر میں ایسی کون سی شرط رکھوں گی کہ تم مان نہیں سکتے ہو۔ ”اس نے پھر ہنستے ہوئے کہا تھا۔

”اچھا بابا! بولو۔ ماننے والی بات ہوئی تو مان لوں گا۔ تمہارے لی بہت کچھ کر سکتا ہوں۔“ میں نے سنجیدگی سے کہا تھا۔

”وعدہ؟“
”وعدہ۔“
”اچھا تو پھر شراب پینا چھوڑ دو۔“ اس نے رک رک کر بہت سنجیدگی سے کہا تھا۔
”ارے، میں روز تھوڑی پیتا ہوں، یہ کیا شرط ہوئی۔“ میں نے احتجاج کیا تھا۔

”مجھے پتا ہے تم روز نہیں پیتے ہو مگر میں چاہتی ہوں کہ تم کبھی بھی نہ پیو۔“ اس نے پھر اسی لہجے میں کہا تھا۔

”مگر یہ میری ذاتی آزادی میں تمہاری دخل اندازی ہے۔ تم یہ کیسی شرط رکھ رہی ہو۔“ میں نے پھر احتجاج کیا تھا۔

”دیکھو یہ تو ہمارے مذہب میں بھی منع ہے اور ایسی کون سی بڑی بات ہے۔“ اس نے کہا۔
”لیکن میں مذہبی نہیں ہوں، تمہیں پتا ہے، اچھی طرح سے معلوم ہے۔“ میں نے بھی ذرا سختی سے کہا تھا۔
”تم خدا کو مانتے ہو؟“ اس نے پوچھا تھا۔
”ہاں مانتا ہوں۔“ میں نے تھوڑا غصے سے کہا تھا۔
”رسول کو مانتے ہو؟“ اس نے پھر پوچھا تھا۔
”ہاں مانتا ہوں۔ مگر یہ کیا سوال ہے؟“ میں نے احتجاج کیا تھا۔
”تم نماز پڑھتے ہو؟“ اس نے پھر پوچھا تھا۔
”عید، بقرعید پر پڑھ لیتا ہوں۔“ میں نے جواب دیا تھا۔

”پڑھتے تو ہو نا؟ یہ کافی ہے۔“ اس نے اسی لہجے میں کہا تھا۔ ”خدا کو مانتے ہو، رسول کو مانتے ہو، نماز پڑھتے ہو تو شراب بھی چھوڑ دو۔“

مجھے غصے کے باوجود ہنسی آ گئی تھی۔ ”کیسی بے وقوفی کی بات کر رہی ہو۔ تمہیں پتا ہے میں کتنا مسلمان ہوں اور جتنا ہوں اتنا ہی رہنا چاہتا ہوں۔ ہمارے تعلقات میں ان چیزوں کو نہ لاؤ تو بہتر ہے۔“ میں نے سمجھانے کے انداز میں کہا تھا۔

”تم میرے لیے ایک چھوٹا سا وعدہ بھی نہیں کر سکتے ہو؟“ اس نے بڑے عجیب انداز سے مجھ سے پوچھا تھا۔ کچھ التجا تھی، کچھ شکوہ تھا، کچھ نصیحت سی تھی اور کچھ حکم تھا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میرے پاس جواب دینے کے لیے الفاظ ہی نہ ہوں مگر پھر میں بولا تھا ”دیکھو اگر میں وعدہ کرلوں گا تو پھر مجھے زندگی میں کبھی بھی نہیں پینی ہوگی اور شاید میں ایسا نہیں کر سکوں۔ مجھے شراب اچھی لگتی ہے، کبھی کبھی مجھے پینا اچھا لگتا ہے، کبھی کبھار مہینے دو مہینے میں ایک بار دوستوں میں بیٹھ کر تھوڑی سی پی لیتا ہوں۔ تھوڑا سا ہنس لیتا ہوں تو ایسی کون سی برائی ہے۔ میں شرابی نہیں ہوں، کبھی کبھار پی لیتا ہوں اور شاید پیتا رہوں گا۔ آج اگر میں تم سے وعدہ کر لیتا ہوں اور پھر وعدہ نہیں نبھا سکا تو پھر تم سے جھوٹ بولوں گا۔ مجھے یہ جھوٹ بولنا منظور نہیں ہے۔ تم مجھ سے یہ وعدہ نہ لو بہتر ہے بلکہ اس چکر میں ہی نہ پڑو۔“

اس نے فوراً ہی مجھ سے پوچھا تھا ”تو کیا تمہاری ماں کو پتا ہے کہ تم شراب پیتے ہو؟“
”نہیں شاید نہیں پتا۔“ میں نے جواب دیا تھا
”کیوں نہیں پتا ہے۔ تم نے ان سے جھوٹ بولا ہے ناں؟“ اس نے مسکرا کر پوچھا تھا۔

”نہیں، میں نے جھوٹ نہیں بولا ہے۔ میں نے یہ ڈسکشن کی ہی نہیں ہے، اس موضوع کو چھیڑا ہی نہیں۔ وہ ایک چیز سے لاعلم ہیں، انہیں لاعلم ہی رکھوں گا، اگر کبھی کسی نہ کسی وجہ سے شراب کا ذکر آیا بھی تو ٹال دوں گا۔ میں جھوٹ اور سچ بولے بغیر بھی رہ سکتا ہوں۔ خدا کے لیے اس چیز کو درمیان میں مت لاؤ۔“

وہ مجھے دیکھتی رہی، پھر بولی ”نہیں اقبال تمہیں وعدہ کرنا پڑے گا۔ تمہیں شراب چھوڑنی ہوگی۔ جب تم یہ وعدہ کرو گے تو پھر بات آگے بڑھے گی۔ تم سوچو، خوب سوچو اور سوچ کر مجھے بتانا۔ تمہارے فیصلے کے بعد میں کوئی فیصلہ کروں گی۔“

یہ اس کا ایک دوسرا رخ تھا۔ میں نے سمجھنے کی کوشش کی تھی، نہیں سمجھ سکا تھا۔ میری ماں کی نسل اور تھی، ہماری نسل اور ہے۔ میں اپنی ماں سے شاید جھوٹ بول کر مطمئن رہ سکتا تھا مگر اس سے جھوٹ نہیں بول سکتا تھا۔ ایک نسل کا فاصلہ تھا۔ میری ماں سہگل اور ملکہ پکھراج کے گانے سنتی تھی ہم لوگ وہٹنی ہیومٹن، ڈبوڈبوری پروس، اسپرنگ، میڈونا اور ایلٹن جان سنتے تھے۔ ہماری دلچسپیاں مختلف تھیں، ہم مختلف ادوار میں تھے، میں سوچ سوچ کر بھی نہیں سمجھ سکا تھا کہ ہماری چاہت کے اس رشتہ میں شراب کہاں سے آ جائے گی۔

معمولی سی بات بڑھتی چلی گئی۔ مجھے پتا تھا کہ وہ بھی مجھے اتنا ہی چاہتی ہے جتنا میں چاہتا ہوں مگراس ایک شرط نے ہمیں ایک دوسرے سے دور کر دیا۔ میں جھوٹا وعدہ کرنے پر راضی نہیں تھا اور وہ اپنی بات پر اڑ گئی تھی۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے یکایک بہت دور ہو گئے تھے۔

میرے لیے اس جگہ کام کرنا مشکل ہو گیا تھا اور مجھے جلد ہی ایک اور امریکن کمپنی میں نوکری مل گئی تھی۔ پھر مجھے شبنم کی شادی کا کارڈ ملا، کسی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ سے اس کی شادی ہو رہی تھی۔ میں نے بڑے کرب کے ساتھ اس کی شادی میں شرکت کی تھی۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکرائی تھی۔ اسد اس کے شوہر کا نام تھا۔ اسٹیج پر وہ دونوں اچھے لگ رہے تھے۔

میری بھی شادی حنا سے ہو گئی، میری ماں نے ہی اسے پسند کیا تھا۔ شبنم کے بعد میری پسند ناپسند ختم ہو گئی تھی۔ حنا ایک خوبصورت لڑکی تھی، عام بیویوں کی طرح سے شوہر کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار۔ وہ کافی مذہبی لڑکی تھی مگر اس نے مجھ سے میرے بارے میں نہ کوئی سوال کیا تھا اور نہ میں نے اپنی طرف سے ان سوالوں کا جواب دیا تھا جو پوچھے ہی نہیں گئے تھے۔

مجھے پتا لگا تھا کہ شبنم نے نوکری چھوڑ دی ہے بلکہ شوہر نے چھڑوا دی ہے۔ مجھے یقین نہیں آیا تھا کیوں کہ اسے تو ہمیشہ کام کرنے کا شوق تھا۔ مجھے پھر بعد میں پتا لگا تھا کہ وہ اسد کے ساتھ سعودی عرب چلی گئی ہے۔ اس کا بھی مجھے افسوس ہوا تھا کیوں کہ وہ اکثر باتوں میں کہتی تھی کہ سعودی عرب عمرہ حج کے لیے صحیح ہے، میں کبھی وہاں کام نہیں کروں گی۔ یہ کوئی بات ہے کہ عورت گاڑی تک تو نہیں چلا سکتی وہاں۔

میں زندگی کے چکروں میں الجھا رہا تھا مگر گاہے بہ گاہے کبھی کبھار اس کی یاد آجاتی تھی۔ میں حنا کے ساتھ خوش تھا مگر وہ میری زندگی کا ہی ایک حصہ رہی تھی۔ بہت سی باتیں کی تھیں ہم نے۔ کچھ وعدے کیے تھے اور کچھ وعدے نہیں کیے تھے۔ کئی سال اسی طرح سے گزر گئے پھر ایک دن وہ نظر آئی تھی۔

میں شاہراہ فیصل کے عوامی مرکز میں حنا کے ساتھ کچھ خریداری کرنے گیا تھا۔ وہ اندر کچھ سامان اکٹھا کر رہی تھی کہ سفید برقعے میں ملبوس ایک عورت مجھے نظر آئی تھی۔ سرتاپا جسم کا ہر حصہ چھپا ہوا تھا اس نے ہاتھوں پر بھی دستانے پہنے ہوئے تھے، صرف آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ وہ مجھے ہی دیکھ رہی تھی۔ وہی بڑی بڑی سیاہ سوچنے والی شریر آنکھیں۔ میں پہچان گیا تھا، شبنم تھی وہ۔ وہ بھی آہستہ آہستہ میرے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی تھی۔

”اقبال کیسے ہو؟“ اس نے اسی لہجے میں، اسی پیار سے پوچھا تھا۔ میں ٹھیک ہوں، بالکل ٹھیک، یہ تم نے کیا کر لیا ہے اپنے ساتھ۔ ٹھیک تو ہو ناں خوش تو ہو ناں؟ ”میں نے بے اختیار ہو کر سوال کر لیا تھا جو شاید مجھے نہیں کرنا چاہیے تھا۔

”تم اگر ایک جھوٹا وعدہ کرلیتے تو تمہارا کیا جاتا، کیا بگڑتا، ایک چھوٹی سی بات تھی، ختم ہوجاتی۔ اچھا نہیں کیا تم نے۔“ یہ کہہ کر وہ بڑی تیزی سے میرے سامنے سے چلی گئی۔ میں بے تاب ہو کر اس کی طرف بڑھا کہ اسے روکوں اور کچھ اور بات کروں کہ سامنے سے حنا آ گئی۔ ”میں یہاں ہوں آپ ادھر کہاں جا رہے ہیں؟“ اس نے زور سے آواز دے کر کہا تھا۔

اب بھی کبھی کبھی راتوں کو میری آنکھ کھل جاتی ہے اور وہ بڑی بڑی سیاہ اور شریر، سوچنے والی اداس آنکھیں مجھے بے قرار کر جاتی ہیں۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).