نواز شریف کا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت بیانیہ؛ ‘ملک کسی نقصان کا متحمل نہیں ہو سکتا’


مبصرین کے مطابق ہر آدمی کی زندگی میں ایک ایسا وقت آتا ہے کہ جب وہ اپنی زندگی میں اپنی غلطیوں کا اعتراف اس طریقے سے کرتا ہے کہ وہ اپنے رویے میں تبدیلی لاتا ہے۔

پاکستان میں حکومت مخالف اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک الائنس (پی ڈی ایم) کے پنجاب کے شہر گجرانوالہ میں منعقد کیے جانے والے جلسے سے بذریعہ ویڈیو خطاب کے دوران پاکستان کے تین بار وزیرِ اعظم رہنے والے نواز شریف نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر اپنی حکومت کو رخصت کرنے اور وزیرِ اعظم عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جوڑ توڑ کرنے کے الزامات عائد کیے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما نواز شریف کی طرف سے وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت کے علاوہ اداروں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

اس سے پہلے بھی نواز شریف کا پی ڈی ایم کے تحت ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں کہنا تھا ان کا مقابلہ وزیرِ اعظم عمران خان سے نہیں ہے۔ ان کی جدوجہد عمران خان کو لانے والوں کے خلاف ہے۔

گزشتہ ماہ 30 ستمبر کو مسلم لیگ (ن) کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں نواز شریف کا کہنا تھا کہ 2014 میں تحریک انصاف کے دھرنے کے دوران اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل ظہیر الاسلام نے انہیں پیغام دیا کہ استعفی دے دیں۔ ورنہ ملک میں مارشل لا لگ سکتا ہے۔ تاہم انہوں نے مستعفی ہونے سے صاف انکار کردیا۔

بعد ازاں لیفٹننٹ جنرل ریٹائرد ظہیر الاسلام نے انگریزی اخبار ‘دی نیوز’ کو دیے گئے انٹرویو میں اس الزام کی تردید کی۔

ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے قریب ترین سمجھے جانے والے نواز شریف کے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف یوٹرن پر مبصرین کا کہنا ہے کہ ہر آدمی کی زندگی میں ایک ایسا وقت آتا ہے کہ جب وہ اپنی غلطیوں کا اعتراف اس طریقے سے کرتا ہے کہ وہ اپنے رویے میں تبدیلی لاتا ہے۔ جبکہ کئی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ جب نواز شریف نے دیکھا کہ انہیں حکومت سے این آر او نہیں مل رہا تو انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔

اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کی وجوہات

دفاعی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کا کہنا ہے کہ نواز شریف کے علاج کی غرض سے ملک سے باہر جانے کے بعد این آر او حاصل کرنے کا ٹاسک محمد زبیر اور شہباز شریف کو دیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی یہ کوشش تھی کہ بیک چینل کے ذریعے معافی نامہ یا این آر او حاصل ہو جائے اور آرمی چیف کو کسی طرح قائل کیا جائے۔ جو وزیرِ اعظم عمران خان کو این آر او کے لیے راضی کریں کہ ان کے خلاف کیس چھوڑ دیے جائیں اور مریم نواز بیرون ملک چلی جائیں۔

امجد شعیب کا مزید کہنا تھا کہ جب تک این آر او حاصل کرنے کی کوششیں جاری رہیں۔ نواز شریف خاموش رہے۔ لیکن جب یہ کوششیں ناکام ہوگئیں تو پھر یہ سوچا گیا کہ وہ کشتیاں جلا بیٹھیں ہیں اور پھر آئی ایس پی آر نے پبلک کر دیا کہ محمد زبیر آکر یہ کام کرتے رہے ہیں۔

ان کے بقول نواز شریف نے اپنی ناکامی کے بعد ایسے بیانات دیے۔

نواز شریف کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کے بارے میں سینئر صحافی افتخار احمد کا کہنا ہے کہ ہر آدمی کی زندگی میں ایک ایسا وقت آتا ہے کہ جب وہ اپنی زندگی میں اپنی غلطیوں کا اعتراف اس طریقے سے کرتا ہے کہ وہ اپنے رویے میں تبدیلی لاتا ہے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کا پی ڈی ایم کے تحت ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں کہنا تھا ان کا مقابلہ وزیراعظم عمران خان سے نہیں ہے۔ ان کی جدوجہد عمران خان کو لانے والوں کے خلاف ہے۔ (فائل فوٹو)

تجزیہ کار افتخار احمد کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کی وجہ مہنگائی، بے روز گاری اور گورننس کا نہ ہونا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر یہ مسائل پیدا نہ ہوتے تو شائد عمران خان کے مخالف اکٹھے نہ ہو پاتے۔

نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ

افتخار احمد کا کہنا تھا کہ آج عام لوگ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ وہ شخص جس کو جنرل جیلانی کی سفارش پر پنجاب کی سیاست میں لایا گیا اور انہیں وزارت دی گئی۔ وہ شخص اب کیسے بدل گیا۔ جب کہ اس آدمی (نواز شریف) کا ضیا الحق کے دور میں مؤقف یہ تھا کہ ان کی عمر بھی صدر ضیا الحق کو لگ جائے۔

افتخار احمد کا کہنا تھا کہ ماضی میں جب اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان پیپلز پارٹی سے چھٹکارا چاہیے تھا تو اس وقت اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کی ہر طرح سے حمایت کی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ نواز شریف اور آرمی چیف کے درمیان جو اختلافات تھے۔ ان اختلافات کو نواز شریف نے ایک نعرے کی شکل دے دی ہے اور وہ نعرہ یہ ہے کہ آپ ووٹ کا احترام کریں۔ جو لوگ ووٹ کے بل بوتے پر منتخب ہو کر آتے ہیں جو وزیر اعظم بنتے ہیں۔ باقی تمام ادارے ان کے ‘ماتحت’ ہیں۔

ان کے بقول ایک ادارہ ایسا ہے۔ جس میں آج سے نہیں بلکہ برسوں سے ایک سوچ ہے کہ وہ ‘ماتحت’ نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب آج تک طے نہیں ہوا۔

بذریعہ ویڈیو خطاب کے دوران تین بار وزیراعظم رہنے والے نواز شریف نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر اپنی حکومت کو رخصت کرنے اور وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو بر سر اقتدار لانے کے لیے جوڑ توڑ کرنے کے الزامات عائد کیے۔ (فائل فوٹو)

امجد شعیب کا نواز شریف کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کے بارے میں کہنا تھا کہ نواز شریف ایسی طاقت مانگتے ہیں جہاں کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ جب کہ ریاست اداروں کے ذریعے چلتی ہے اور اداروں کے اپنے قواعد و ضوابط ہوتے ہیں۔

پاکستان کے ایٹمی دھماکے کرنے کے بارے میں امجد شعیب کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے دوسرے دور میں آرمی نے یہ نوٹ کیا کہ ایٹمی دھماکے کرنے جیسا بڑا فیصلہ کرنے کے لیے کوئی ایسا فورم موجود نہیں تھا۔ چنانچہ اس وقت کے کور کمانڈرز نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو فورس کیا کہ وہ وزیرِ اعظم کو مشورہ دیں کہ نیشنل سیکیورٹی کونسل بنائی جائے۔

جنرل امجد شعیب کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی اس تجویز پر اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف راضی نہیں ہوئے اور کہا کہ اس طرح سے ان کے اختیارات کم ہو جائیں گے اور اس چیز پر آرمی چیف کا استعفیٰ لے لیا گیا۔

نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک بھجوانے میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار

افتخار احمد کا کہنا تھا کہ اگر وزیرِ اعظم عمران خان کی باتیں غور سے سنی جائیں اور جس دکھ اور افسوس کا اظہار وہ کرتے ہیں۔ اس سے لگتا ہے کہ اس مسئلے میں عمران خان اور عمران خان کو لانے والوں میں اختلاف رائے تھا۔

جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کا اس بارے میں کہنا تھا کہ اگر نواز شریف کو بیرون ملک بھجوانے میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار تھا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ عدالتیں اسٹیبلشمنٹ کے تابع ہیں۔

امجد شعیب کا کہنا تھا کہ ان کا کہنا تھا کہ مشرف کے بعد آرمی کی طرف سے غیر آئینی اقدام اٹھانے کا چانس ختم ہو گیا ہے۔ (فائل فوٹو)

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس معاملے میں اگر اسٹیبلشمنٹ ملوث ہوتی تو محمد زبیر والے معاملے کا پردہ چاک نہ کیا جاتا۔

اپوزیشن کے جلسوں سے حکومت گر سکتی ہے؟

امجد شعیب کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کوئی بھی غیر آئینی اقدام نہیں اٹھائے گی اور اسٹیبلشمنٹ حکومت سے کہے گی کہ وہ اس مسئلے کو سیاسی طور پر کاؤنٹر کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ مشرف کے بعد آرمی کی طرف سے غیر آئینی اقدام اٹھانے کا چانس ختم ہو گیا ہے۔

امجد شعیب کا کہنا تھا کہ وہ اکثر سوچتے ہیں کہ اگر کسی طرح حکومت گرا دی جاتی ہے اور نئے انتخابات کی طرف جاتے ہوئے قائم مقام حکومت آ جاتی ہے۔ تو اس صورت میں احتساب کیسے ہو گا جس کی اشد ضرورت ہے۔

ان کے بقول ایسی صورتِ حال میں کسی کو سپریم کورٹ میں جا کر کہنا چاہیے کہ قائم مقام حکومت کے جو تین مہینے ہیں۔ حالات دیکھتے ہوئے قائم مقام حکومت کو لمبا وقت دے دیا جائے اور اگر سپریم کورٹ راضی ہو جائے تو قائم مقام کرپشن کے سارے کیسز نمٹائے۔

دوسری طرف افتخار احمد کا کہنا تھا کہ دعا یہ کرنی چاہیے کہ معاملات خراب نہ ہو جائیں یا کوئی ایسا واقعہ نہ ہو جائے کہ معاملات خراب یا بکھر جائیں۔

ان کے بقول ملک کسی بھی مزید نقصان کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa