حزب اختلاف اتحاد کا اتوار کو کراچی میں جلسہ، بیانہ کیا ہوگا؟


bilawal bhutto
پاکستان پیپلز پارٹی کراچی جلسے کی میزبان ہے
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اتوار کو متحدہ اپوزیشن پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی جانب سے جلسہ عام منعقد کیا جا رہا ہے، اس جلسے کی میزبان تو پاکستان پیپلز پارٹی ہے لیکن مہمان خاص مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز ہیں جو پنجاب کے بعد پہلی بار سندھ میں اپنی سیاست کا آغاز کریں گی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی 18 اکتوبر سے جذباتی وابستگی ہے جس روز 13 سال قبل 8 سالہ خودساختہ جلاوطنی کے خاتمے کے بعد پارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو واپس وطن آئیں تھیں تو ان کے استقبالیہ جلوس پر خودکش حملہ کیا گیا تھا جس میں 200 کارکن اور ہمدرد ہلاک اور 500 کے قریب زخمی ہوگئے تھے، یہ دن اب پیپلز پارٹی کی تاریخ میں اہمیت حاصل کرچکا ہے۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے اس سے قبل 18 اکتوبر کا جلسہ کوئٹہ میں منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے میزبان پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی تھے لیکن پاکستان پیپلز پارٹی نے اس کی مخالفت کی اور اپوزیشن قیادت کو کراچی کے جلسے میں شرکت کی دعوت دی، اس جلسے کو بلاول بھٹو، مریم نواز، مولانا فضل الرحمان خطاب کریں گے۔

کراچی کے جلسے کا بیانیہ کیا ہوگا؟

گوجرانوالہ میں مسلم لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف، مریم نواز، بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمان نے اپنی تقاریر میں عمران خان کی حکومت اور فوجی اسٹیشبلمنٹ کو کھلے اور دبے الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنایا، اگلے روز وزیراعظم عمران خان نے ٹائیگرز فورس کے کنوینشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کا حملہ آرمی چیف پر نہیں بلکہ فوج پر ہے۔

گوجرانوالہ میں جو ااینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ اپنایا گیا کیا وہ تسلسل کراچی میں بھی جاری رہیگا، صحافی مبشر زیدی کا کہنا ہے کہ پنجاب کے علاوہ باقی دیگر صوبوں میں اسٹیشلمنٹ مخالف جذبات پہلے سے موجود ہیں، کراچی میں بھی یہ آواز اٹھ رہی ہے اس لیے جو بیانیہ گوجرانوالہ میں آیا ہے وہ جمود کا شکار نہیں ہوگا بلکہ آگے جائیگا۔

کراچی یونیورسٹی کے ریٹائرڈ استاد ڈاکٹر جعفر احمد کا کہنا ہے کہ کراچی میں جو جماعتیں اس وقت سرگرم ہیں یعنی تحریک انصاف اور ایم کیو ایم وہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہیں، پنجاب میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مہنگائی کو بھی ایشو بنایا گیا مہنگائی و دیگر یہ صورتحال کراچی میں بھی موجود ہے لیکن کسی جماعت نے اس کو اٹھایا نہیں ہے۔

اپوزیشن کے شہر میں اپوزیشن اتحاد کا جلسہ

گزشتہ انتخابات میں کراچی شہر سے سب سے زیادہ نشستیں تحریک انصاف اور اس کے بعد ایم کیو ایم نے حاصل کیں جو دونوں جماعتیں اس وقت وفاق میں دونوں اتحادی ہیں جبکہ سندھ میں یہ اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہیں۔

مریم نواز

مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز پہلی بار سندھ میں اپنی سیاست کا آغاز کریں گی

صحافی مبشر زیدی کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کا زوال ہوچکا ہے تحریک انصاف کی کارکردگی بھی متاثر کن نہیں رہی اور اس نے ووٹر کو مایوس کیا ہے اس صورتحال میں کراچی کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ موڈ پی ڈی ایم کے لیے مددگار ثابت ہوگا۔

اردو آبادی کی عدم شرکت

کراچی میں اردو بولنے والی آبادی میں اثر رسوخ رکھنے والی جماعت اسلامی نے خود کو اپوزیشن اتحاد سے دور رکھا ہے، جبکہ مصطفی کمال کی پی ایس پی، آفاق احمد کی ایم کیو ایم حقیقی اس اتحاد کا حصہ نہیں ہیں۔

تجزیہ نگار ڈاکٹر توصیف احمد کا کہنا ہے کہ جلسے کا بیانیہ تو اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہی رہے گا لیکن یہ کراچی شہر کا بیانیہ نہیں ہوگا، کراچی کی شہری آبادی کو پیپلز پارٹی حکومت نے مایوس کیا ہے اسی طرح ایم کیو ایم مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی دونوں سے فاصلے پر ہے شہر کی اردو آْبادی متاثر کن حد تک اس جلسے میں شریک نہیں ہوگی۔

’’کراچی کی اردو آبادی فاطمہ جناح کے لیے اسٹیبشلمنٹ کے ساتھ لڑی تھی اس کے بعد ایسی صورتحال نظر نہیں آئی۔"

مولانا فضل الرحمن

یاد رہے کہ ایوب خان کے علاوہ پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف پی این اے کی تحریک اور اس کے بعد آئی جی آئی میں جماعت اسلامی اور ایم کیوایم اپوزیشن اتحاد کا حصہ رہی ہیں۔

ڈاکٹر توصیف احمد کا ماننا ہے کہ یہ ایک بڑا اور کثیر الاقومی جلسہ ہوگا، پاکستان پیپلز پارٹی لیاری، ملیر، کراچی کے آس پاس کے اضلاع سے لوگ لانے میں کامیاب رہیگی جبکہ جمعیت علما اسلام اور عوامی نیشنل پارٹی پشتون آبادی سے شرکا لاسکتی ہے۔

یاد رہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ بھی کراچی میں مقبولیت رکھتی ہے لیکن گوجرانولہ میں اس کو دعوت نہیں دی گئی تھی، عوامی نیشنل پارٹی، بی این پی، نیشنل پارٹی اور پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کے برعکس سندھ کی کوئی بھی قوم پرست جماعت اس گیارہ جماعتیں اتحاد میں شامل نہیں ہے۔

مسلم لیگ نون کے خاموش ہمدرد

مسلم لیگ ن انیس سو نوے کی دہائی میں سندھ میں دو بار صوبائی حکومت بناچکی ہے، جبکہ گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں بھی اس نے کئی نشستیں حاصل کیں۔ پروفیسر توصیف احمد کا کہنا ہے کہ پنجابی اور ہزارہ وال آبادی میں مسلم لیگ نون کا ہمدرد تو موجود ہے لیکن اس کو متحرک نہیں کیا گیا وہ صرف الیکشن میں اپنی وابستگی کا اظہار کرتا ہے۔

ڈاکٹر جعفر احمد کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ اور ہمدرد مریم نواز کو سننے کے لیے جائیں لیکن اس کے لیے کوئی گراؤنڈ ورک نہیں کیا گیا ہے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما مشاہد اللہ خان کا کہنا ہے کہ جلسے کی تیاری مقامی طور پر کی گئی ہے پاکستان پیپلز پارٹی اس جلسے کی میزبان ہے اور ان کا مکمل ساتھ ہے۔

جے یو آئی اتحادی اور مخالف بھی

پی ڈی ایم اے کی اہم اتحادی جماعت جمعیت علما اسلام سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کی مخالف ہے اور لاڑکانہ کے ضمنی انتخابات میں اس کا اظہار کرچکی ہے، جے یو آئی کے رہنما راشد محمود سومرو کا کہنا ہے کہ سیاسی اتحاد الگ اور انتخابی اتحاد الگ چیزیں ہیں۔ پی ڈی ایم میں ایک نکتے پر اتحاد ہوا ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف نااہل ہیں انہیں گھر جانا چاہیے۔

پی ڈی ایم اے کا جلسہ ایک ایسے وقت میں بھی ہو رہا ہے جب شہر میں فرقہ وارنہ کشیدگی بھی موجود ہے، دیوبند مسلک کے عالم ڈاکٹر عادل کے قتل میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لیے دو روز قبل شہر میں جزوی ہڑتال اور مظاہرے بھی کیے گئے اس سے قبل مسلکی مذہبی جماعتیں ریلیاں بھی نکال چکی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp