’آذربائیجان نے جنگ بندی لاگو ہونے کے چار منٹ بعد خلاف ورزی کی‘، آرمینیا کا الزام


A man removes debris from shelling in the Nagorno-Karabakh capital, Stepanakert
A man removes debris in the Nagorno-Karabakh capital, Stepanakert
آرمینیا نے آذربائیجان پر الزام عائد کیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان انسانی ہمدردی کی بنیاد پر طے پانے والی دوسرے جنگ بندی کے لاگو ہونے کے چند منٹوں بعد ہی انھوں نے اس کی خلاف ورزی کی ہے۔

آرمینیا اور آذربائیجان کے مابین کئی دہائیوں سے جاری ناگورنو قرہباخ تنازع کئی دہائیوں سے جاری ہے اور حالیہ ہفتوں میں اس تنازع میں پھر سے شدت آئی ہے۔

آرمینا اور آذربائیجان کے درمیان جنگ بندی سنیچر کی رات مقامی وقت کے مطابق رات بارہ بجے شروع ہونا تھی۔

تاہم آرمینیا کی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ آذربائیجان نے چار منٹ بعد ہی جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گولے اور راکٹ برسائے ہیں۔

آذربائیجان نے اب تک ان الزامات کا جواب نہیں دیا ہے۔

حالیہ کشیدگی کے دوران جنگ بندی کا فیصلہ دوسری مرتبہ کیا جا رہا ہے۔ ایک ہفتے قبل بھی ایسے ہی فیصلہ پر اتفاق کیا گیا تھا تاہم جھڑپیں پھر بھی جاری رہی تھیں۔

آذربائیجان کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ناگورنو قرہباخ کو آذربائیجان کا ایک حصہ تسلیم کیا گیا ہے اور اس کا کنٹرول واپس حاصل کرنا ادھورے کام کو پورا کرنے جیسا ہے۔ جبکہ آرمینیا کا موقف ہے کہ نوگورنو قرہباخ تاریخی طور پر آرمینیائی نسل کا باشندوں کا مسکن اور صدیوں سے آرمینیا کا حصہ ہے۔

روس کی ثالثی کی کوششوں کے باوجود دونوں ممالک سنہ 1990 کی دہائی سے اب تک اس علاقے کے کنٹرول کے لیے برسرِپیکار ہیں۔ گذشتہ چھ سال میں حالیہ کشیدگی اس تنازع کے سلسلے میں بدترین کشیدگی ہے۔

Rescue workers at the scene of damage in the Azerbaijani city of Ganja

بی بی سی کے نامہ نگار اورلا گورین اور سٹیو روزنبرگ نے کشیدگی کا شکار علاقے میں دونوں ممالک کے شہریوں میں موجود تلخی اور حب الوطنی کا جذبہ دیکھا ہے۔


اورلاگورین

بی بی سی نیوز، آذربائیجان

آذربائیجان کے دوسرے بڑے شہر گنیجی کی مرکزی سڑک کے دونوں جانب درخت لگے ہیں جن کے اوپری حصے صبح کی دھوپ میں نہا رہے ہیں۔ سٹرک پر ٹوٹے ہوئے شیشوں کے ٹکڑے بکھرے ہوئے ہیں گویا سٹرک پر شیشے کے قالین بچھے ہوں۔ اس سٹرک کے عقب میں بہت سی رہائشی اور کمرشل عمارتیں ہیں جو پھٹے ہوئے ٹِن کے ڈبے کی طرح نظر آ رہی ہیں۔

گنیجی شہر نوگورنو قرہباخ کے محاذ سے 100 کلومیٹر (62 میل) کے فاصلے پر واقع ہے۔ گذشتہ اتوار کا دن پہلا ایسا دن تھا جو غیریقنی جنگ بندی کا ایک مکمل دن تھا۔

آذربائیجان نے آرمینیا پر گنیجی شہر کے رہائشی حصے پر بلیسٹک میزائل فائر کرنے کا الزام عائد کیا ہے جبکہ آرمینیا نے آذربائیجان پر اُس کے شہری علاقوں پر گولہ باری کا الزام عائد کیا ہے۔

ہماری ملاقات 60 سالہ نوشابہ حیدرووا سے ہوئی جنھوں نے سرپر سکارف لے رکھا تھا۔ اُن کے بازو صدمے سے شل تھے۔

نوشابہ

نوشابہ حیدرووا

انھوں نے بتایا ’اسی حالت میں ہم بھاگے، جن کپڑوں میں تھے انھی میں بھاگے۔ ہم بال بال بچے۔ یہ سب خوفزدہ کر دینے والا تھا۔‘

ہم نے اُن کے ملبے کا ڈھیر بنے گھر میں اپنا راستہ بنایا اور اُن کے بیڈ روم تک پہنچے جہاں اُن کے پوتے محو خواب تھے۔ بچوں کو معمولی چوٹیں آئی تھیں۔ اب دونوں اطراف کی ایک نئی نسل کئی دہائیوں سے جاری اس تنازع کا شکار ہے۔

انھوں نے کہا: ’آرمینیا کو پُرامن طریقے سے یہاں سے چلے جانا چاہیے۔ ہم جنگ نہیں چاہتے۔ ہم صرف اپنے وطن کو آزاد کروانا چاہتے ہیں۔‘

یہاں کے لوگ ناگورنو قرہباخ کو اپنے ملک کا ایک گمشدہ ٹکڑا سمجھتے ہیں۔ یہ جہاں ان کے عقائد کا ایک حصہ ہے وہیں قومی بیانیے کے طور پر انھیں یہ بات بہت اچھی طرح ذہن نشین کرائی گئی ہے اور اُن کے اس خیال کو عالمی برادری کی حمایت حاصل ہے۔

آذربائیجان کے ہی 22 سالہ احتیار رسولوف نے ناگورنو قرہباخ خطے میں کبھی قدم نہیں رکھا ہے لیکن اس نوجوان کا کہنا ہے کہ وہ اس خطے کو واپس حاصل کرنے کے لیے جان دینے کو تیار ہیں۔

جب ہم آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں ان سے ملے تھے تو اس وقت انھوں نے تازہ تازہ جنگ میں شرکت کے لیے اپنا نام لکھوایا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

کھنڈر نما عمارتیں اور بندوق بردار دادیاں، ناگورنو قرہباخ کی تازہ ترین صورتحال

بمباری، جنگ اور خوف: ناگورنو قرہباخ تنازع کا آنکھوں دیکھا حال

ناگورنو قرہباخ: پیر کو بھی ’شدید شیلنگ‘، شہریوں کی اموات میں اضافے کے خدشات

انھوں نے خلوص دل کے ساتھ کہا کہ ’میں اپنی جان اور اپنے خون سے اپنی قوم اور اپنی مادر وطن کے لیے لڑنے کو تیار ہوں۔ میرے والد، میری والدہ اور میرے نانا دادا ان علاقوں میں رہتے تھے۔ میرا بھائی ابھی جاری جنگ میں آذربائیجان کی جانب سے لڑ رہا ہے۔‘

احتیار ایک ایسے ہاؤسنگ کمپلیکس میں رہتے ہیں جہاں ناگورنو قرہباخ اور آس پاس کے علاقوں سے فرار ہونے والے خاندان پناہ لیے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ سنہ 1990 کی دہائی کے اوائل میں ہونے والی جنگ کے نتیجے میں وہاں سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے تھے۔ ان کی پرورش کھوئی ہوئی زمین، آرمینیا سے تاریخی دشمنی اور ان کے مظالم کی لوک روایات پر ہوئی ہے۔ یہ اُن کی گھٹی میں شامل ہے اور یہی بات یہاں کے بیشتر لوگوں پر ثابت آتی ہے۔

نقشہ

انھوں نے کہا کہ ’قرہباخ آذربائیجان ہے۔ آرمینیائی وہاں آئے اور انھوں نے ہماری قوم کے ساتھ بہت بُرا سلوک کیا۔ بے شک میں نے بذات خود اس کا مشاہدہ نہیں کیا ہے، لیکن میں نے اس کے بارے میں بہت سُنا ہے۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ آذربائیجان کے صدر الہام علییف کی باتوں سے وہ اتفاق کرتے ہیں۔ سختی کے ساتھ کنٹرول کیے جانے والے ممالک میں جہاں صدارت کا عہدہ باپ سے بیٹے تک منتقل ہوتا ہے وہاں اس قسم کی بات عام طور پر سننے کو ملتی ہے۔

احتیار کا ایک پڑوسی دوڑتا ہوئے مجھے اپنا پرانا فوجی شناختی کارڈ دکھانے آئے۔ اس سے قبل ہونے والی نوگورنو قرہباخ کی جنگ میں آصف حق وردییف نے شرکت کی تھی۔ اب ان کے سر کے بال نہیں ہیں لیکن وہ اب بھی پُرجوش اور پھرتیلے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’میں ابھی 51 سال کا ہوں اور میں اب بھی اپنے ملک کے لیے لڑنے اور مرنے کے لیے تیار ہوں۔‘

گنچا شہر

’میں نے اپنے بیٹے کو جنگ میں لڑنے بھیجا ہے۔ وہ سرحد پر برسرِپیکار ہے۔ اگر میرے اہلخانہ کی موت بھی ہو جاتی ہے اور سبھی مر جاتے ہیں تو بھی ہم اپنی زمین کا ایک انچ بھی دینے کو تیار نہیں ہیں۔‘

ہمیں محاذ والے شہر تارتار سے ایک دادی کا بھی یہی پیغام موصول ہوا۔ دونوں جانب سے مسلسل گولہ باری کے باوجود آئیبینیز جافراوا نے اپنا گھر بار چھوڑنے سے انکار کر دیا ہے اور اب وہ اپنے گھر کے زیر زمین حصے میں رہتی ہیں۔

ہم نے اُن سے اُن کے کئی رشتہ داروں کے ساتھ ایک عارضی پناہ گاہ میں ملاقات کی۔ ان میں ان کا چھ ماہ کا پوتا فارز بھی شامل ہے جسے انھوں نے اپنی بانھوں میں اٹھا رکھا تھا اور جھولا جھولا رہی تھیں۔

ملگجی روشنی میں مسکراتے ہوئے انھوں نے مجھے بتایا کہ ’ہم 28 سال سے اس کا انتظار کر رہے ہیں۔‘

’جو کچھ ہو رہا ہے اس سے ہم بہت پُرجوش ہیں۔ میرا بیٹا اور بیٹی محاذ پر لڑ رہے ہیں۔ ہم فتح کے دن کا انتظار کر رہے ہیں اور اپنی سرزمین پر نقل مکانی کرنے کے لیے عارضی پناہ گاہ میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔‘

یہاں کسی کو بھی روس کی ثالثی کے تحت ہونے والی جنگ بندی کے قائم رہنے کی توقع نہیں ہے اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگ جنگ بندی چاہتے ہی نہیں ہیں۔ ان کی فوجوں نے پہلے ہی ناگورنو قرہباخ کے کچھ علاقوں کو واپس حاصل کر لیا ہے۔ وہ میدان جنگ میں فتح چاہتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ ان کے صدر اپنے موقف پر قائم رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp