بینظیر بھٹو: کارساز حملے کے 13 سال، جب کارکن بینظیر بھٹو کے گرد ڈھال بن گئے


بینظیر بھٹو
سنہ 2007 میں نو سالہ خود ساختہ جلاوطنی ترک کرنے کے بعد سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کراچی پہنچی تھیں۔ 18 اکتوبر کو کراچی پہنچنے کے بعد ٹرک پر سوار بینظیر نے بی بی سی کو بتایا تھا ’ہم جمہوریت کے لیے اور ترقی کے لیے کھڑے ہیں۔ یہ (استقبالیہ) مجمع اُس مجمے سے کئی گنا بڑا ہے جب میں (اسی کی دہائی میں) ملک لوٹی تھی، حالانکہ ملک میں خطرات اب پہلے سے بھی زیادہ ہیں۔‘

18 اکتوبر کا سورج غروب ہو چکا تھا اور کراچی کی سڑکوں پر بینظیر بھٹو کا استقبالیہ کارواں رواں دواں تھا۔ وہ ہاتھ ہلا ہلا کر کارکنوں کے نعروں کا جواب دے رہی تھیں۔

کیمرہ مین سلمان رند اس ریلی کی کوریج کا کام مکمل کرنے کے بعد دفتر جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ اس ریلی کا رُخ صدر کی طرف آتے ہوئے بائیں جانب تھا لیکن کارساز کے مقام پر اس کو داہنے ہاتھ کی سڑک پر موڑ دیا گیا اور اس دوران اچانک سٹریٹ لائٹس بند ہوگئیں۔

اور پھر ایک زوردار دھماکہ ہوا۔

’کچھ نہیں ٹائر پھٹا ہے‘

سلمان رند سندھی نیوز چینل ’سندھ ٹی وی‘ سے منسلک ہیں اور وہ اس روز شاہراہ فیصل پر ڈیوٹی پر تھے۔ ریلی میں ہونے والے اس دھماکے میں سلمان سمیت درجنوں افراد افراد زخمی ہوئے تھے۔

سلمان رند نے بی بی سی کو بتایا کہ دھماکے کی آواز سے ایسا لگا جیسے گیس سلینڈر، ٹائر یا بم پھٹا ہے۔ ’میں نے اپنا کیمرہ آن کیا تو سامنے ایک شخص آیا جس نے پیپلز پارٹی کے جھنڈے کے رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے۔ اس نے بھی کہا کہ کچھ نہیں کچھ نہیں صرف ٹائر پھٹا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

بینظیر قتل: کیا دوسرا بمبار زندہ ہے؟

دس سالہ معمہ: بینظیر بھٹو کا قاتل کون؟

بینظیر بھٹو کے قتل سے متعلق اہم سوالات

’حواس کچھ بحال ہوئے تو میں نے زمین پر دیکھا جہاں لوگ گرے ہوئے تھے۔ وہ زخمی تھے یا ہلاک ہو چکے تھے اندھیرے میں کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔ میں نے جیسے ہی کیمرے کا رُخ اس ٹرک کی طرف کیا جس پر بینظیر بھٹو سوار تھیں تو ایک اور دھماکہ ہوا۔ یہ منظر کیمرے نے محفوظ کر لیا اور اس کے بعد میں کیمرے سمیت نیچے گر گیا۔‘

بینظیر

ریلی سے قبل نامعلوم افراد نے کارساز پُل خالی کرایا

کیمرہ مین عابد شاہ بھی اس حملے میں شدید زخمی ہوئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ کارساز پل سے کوریج کر رہے تھے اور ابھی ریلی وہاں پہنچی نہیں تھی کہ چند لوگوں کا ٹولہ آیا اور انھوں نے وہاں سے لوگوں کو ہٹانا شروع کر دیا اور کہا کہ یہاں سے ہٹ جائیں اور پل کے نیچے جا کر کھڑے ہوں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’میں نے ان کی فوٹیج بھی بنائی تھی۔ مجھے ویسے ہی شک ہوا کہ ہمیں یہ کیوں ہٹا رہے ہیں اور یہ کون لوگ ہیں۔‘ یاد رہے کہ اسی کارساز پل کے دوسرے طرف بعد میں دو دھماکے ہوئے۔

ایمبولینس میں بم کی افواہ

عابد شاہ بتاتے ہیں کہ جب دوسرا دھماکہ ہوا تو اس کا دباؤ اس قدر تھا کہ وہ زمین سے تقریبا تین فٹ اوپر اچھل کر زمین پر گر گئے اور جب اٹھے تو کانوں میں سیٹیوں کی آوازیں گونج رہی تھیں۔

’میں جب چلنے لگا تو دیکھا کہ میرا بہت زیادہ خون بہہ رہا تھا، مگر میں چلتا رہا اور ایک ایمبولینس کے قریب پہنچ گیا۔ اس میں پہلےسے ہی دس، بارہ زخمی لوگ موجود تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ ایمولینس میں مزید زخمیوں کی گنجائش نہیں ہے اور یہ کہ دوسری ایمبولینس میں آنا مگر میں زبردستی اندر لیٹ گیا۔‘

عابد شاہ نے بتایا کہ گاڑی تھوڑا آگے چلی تو ایمبولینس میں سے ٹک ٹک کی آواز آنے لگی، اندر سے ایک بندہ چیخنے لگا کہ یہ بم کی آواز ہے۔ ’ڈرائیور نے گاڑی روک لی اور اس گاڑی میں موجود زخمی نکل کے بھاگ نکلے، اب مجھ میں تو ہمت ہی نہیں تھی تو میں سوچا اب تو گھر والوں کو میری لاش بھی نہیں ملے گی کیونکہ ایمبولینس میں بھی بم ہے۔‘

تھوڑی دیر کے بعد ڈرائیور واپس آیا اس نےگاڑی کو چیک کیا اور کہا کہ یہ تو انڈیکیٹر کے لائیٹ کی آواز ہے۔

عابد شاہ کو لیاقت نیشنل ہسپتال میں لے جا کر چھوڑ دیا گیا، وہ بتاتے ہیں کہ انھیں لاشوں کے ساتھ رکھ دیا گیا اور شاید کسی چینل نے اُن کی ہلاکت کی خبر بھی چلا دی، بعد میں ان کے بہنوئی آئے اور انھوں نے انھیں سٹریچر سمیت باہر نکالا اور آغا خان لے گئے جہاں علاج کیا گیا۔

بینظیر

کارکن بینظیر بھٹو کے گرد ڈھال بن گئے

18 اکتوبر کے دو دھماکوں میں ایک صحافی عارف خان ہلاک ہوئے جبکہ متعدد صحافی زخمی ہوئے۔ اس دوران بنائی گئی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیمرہ مین زخمیوں کو کندھوں پر ڈال کر ایمبولینس میں ڈال رہے ہیں۔

کیمرہ مین سہیل فرید کا کہنا ہے کہ دو دھماکے ہو چکے تھے جب وہ اس ٹرک تک پہنچے جس پر بینظیر سوار تھیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے یہ منظر دیکھا کہ شیری رحمان اور عابدہ حسین ٹرک سے نکلیں جس کے بعد ایک سفید رنگ کی کار ٹرک کے نزدیک آ کر رُکی اور بہت سے جیالے اس کے گرد ایک ڈھال بن کر کھڑے ہو گئے، پھر بینظیر بھٹو ٹرک سے باہر نکلیں، گاڑی میں بیٹھیں اور وہ گاڑی بہت تیزی کے ساتھ وہاں سے نکل گئی۔

تیسری بار وزیر اعظم بننے پر پابندی

سنہ 1997 کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کو شکست ہوئی تھی اور بینظیر بھٹو اگلے ہی سال یعنی 1998 میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرتے ہوئے باہر چلی گئیں تھیں۔

جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت کے اختتام پر سنہ 2007 میں بینظیر بھٹو نے وطن واپسی کا اعلان کیا۔

سینیئر سیاست دان شیخ رشید احمد نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’لال حویلی سے اقوام متحدہ تک: فرزند پاکستان شیخ رشید احمد کے پچاس سال‘ میں لکھتے ہیں کہ متحدہ عرب امارات کے محل میں بینظیر بھٹو کے ساتھ مذاکرات میں طارق عزیز اور لیفٹیننٹ جنرل حامد شریک تھے جنرل کیانی کی تصدیق نہیں ہوئی لیکن بینظیر بھٹو کی خواہش تھی کہ وہ شامل ہوں۔

پرویز

’طارق عزیز ایک ایسی حکومت بنانا چاہتے تھے جس میں صدر پرویز مشرف اور وزیر اعظم بینظیر بھٹو ہوں۔ بینظیر کی وطن واپسی میں طارق عزیز نے کلیدی کردار ادا کیا۔ این آر او طے ہو چکا تھا اور بینظیر بھٹو کے خلاف تمام مقدمات واپس لے لیے گئے تھے۔‘

شیخ رشید کے مطابق چوہدری (شجاعت اور پرویز الٰہی) این آر او کے حامی نہیں تھے لیکن وہ صدر مشرف اور طارق عزیز کے سامنے بول نہیں سکتے تھے۔ بعد میں یہ ثابت ہوا کہ چوہدری شجاعت درست کہتے تھے کہ طارق عزیز کا فیصلہ درست نہیں تھا۔

تاہم پیپلز پارٹی کے رہنما اور صوبائی وزیر سعید غنی کا کہنا ہے کہ جنرل مشرف نے کوشش کی کہ وہ بینظیر بھٹو کو روکیں کہ وہ پاکستان واپس نہ آئیں، اس وقت جو بات چیت ہوئی تھی اس میں چوہدری شجاعت کا یہ کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو نے دو باتیں رکھیں تھیں یا تو آپ تیسری بار وزیر اعظم بننے کی پابندی ہٹائیں اور جو سیاسی بنیادوں پر مقدمات بنائے گئے ہیں انھیں ختم کریں۔

’چوہدری شجاعت نے مشرف کو کہا تھا کہ اگر آپ نے تیسری بار وزیر اعظم بننے کی پابندی ختم کی تو بینظیر وزیر اعظم بن کر لینڈ کریں گی اور وہی وزیر اعظم ہوں گی کیونکہ وہ انتخابات جیت جائیں گی، یہ شرط تسلیم نہیں ہونی چاہیے، اس قدر خوفزدہ تھی اس وقت کی حکومت۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ جنرل مشرف نے بینظیر بھٹو کو دھمکایا بھی تھا۔‘

سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ بینظیر بھٹو نے جب واپس آنے کا اعلان کیا تو وہ دراصل این آر او کے خاتمے کا اعلان تھا کیونکہ این آر او کے تحت تو انھیں واپس نہیں آنا تھا، چونکہ نواز شریف کی بھی غیر یقینی صورتحال تھی تو بینظیر واحد اہم خطرہ نظر آ رہی تھیں۔

تحقیقاتی ٹرائبیونل کا قیام اور معطلی

کراچی میں استقبالیہ جلوس پر خودکش بم حملے کے چند روز کے بعد بینظیر بھٹو نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ خودکش حملے کا الزام حکومت پر عائد نہیں کر رہیں اور نہ وہ اس مرحلے پر حکومت کو خود پر قاتلانہ حملے کا مورد الزام ٹھراتی ہیں، اس وقت تک جب تک یہ تحقیقات نہ ہو جائیں کہ سٹریٹ لائٹس کیوں بند کی گئیں۔

’میرے وائس چیئرمین نے قومی سلامتی کے مشیر طارق عزیز سے رابطہ کی کوشش کی اور کہا کہ ہمارے سکیورٹی گارڈز کو مشکلات ہو رہی ہے خودکش بمباروں، سنائپرز اور مسلح افراد کی شناخت میں۔ کیونکہ انھیں کچھ نظر نہیں آ رہا۔‘

اس دھماکے میں کم از کم 200 افراد ہلاک اور 500 کے قریب زخمی ہوگئے تھے۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم نے ہائیکورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس غوث محمد پر مشتمل ٹربیونل بنایا تھا جس نے کچھ بیانات بھی قلمبند کیے لیکن اس وقت کہ صوبائی وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے اس ٹربیونل پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک نیا ٹربیونل بنایا جائے گا جو تاحال نہیں بن سکا ہے۔

حملے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے عدالت سے رجوع کیا اور عدالت نے ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت کی، جس فیصلے کو اس وقت کے وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم نے ہائی کورٹ میں چیلینج کر دیا۔

پیپلز پارٹی نے اقتدار میں آنے کے بعد ایف آئی آر سے دستبردار ہوگئی اور چوہدری پرویز الٰہی، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل، آئی بی کے سربراہ برگیڈیئر اعجاز شاہ کے خلاف مقدمہ درج کرایا اور اس میں بینظیر بھٹو کے خط کا حوالہ دیا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ان کی زندگی کو کچھ نقصان پہنچا تو یہ لوگ ذمہ دار ہوں گے تاہم بعد میں تحقیقاتی اداروں کو کوئی ثبوت نہیں ملا اور ان کے نام خارج کر دیے گئے۔

صوبائی وزیر سعید غنی کا کہنا ہے کہ یہ بلکل ٹھیک بات ہے کہ بینظیر بھٹو نے ایک خط لکھا تھا جس میں انھوں نے کچھ لوگوں کا ذکر کیا تھا کہ اگر انھیں کچھ نقصان پہنچے تو یہ لوگ ذمے دار ہوسکتے ہیں۔

’ایسا نہیں ہے کہ ان لوگوں سے پھر تحقیقات نہیں ہوئی اس خط کی روشنی میں جن افراد کا نام تھا اور بینظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد جو مختلف تحقیقات ہوئیں تمام کمشنز اور کمیٹیوں نے ان کی تحقیقات کیں۔‘

’اگر تحقیقات کے بعد ان پر کوئی براہ راست چیز نہیں آئی تو میں نہیں سمجھتا کہ بلاوجہ کی دشمنی بنا کر انھیں شامل کرنا چاہیے، باقی جن کا نام آیا اور جن پر کچھ چیزیں ثابت ہوئیں جو کمیشن کے سامنے پیش نہیں ہوئے وہ آج بھی اس کیس میں مفرور ہیں۔‘

بینظیر

گذشتہ تین ادوار سے پیپلز پارٹی حکومت میں اور تحقیقات

سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ’18 اکتوبر واقعے کے بعد کچھ لوگ پکڑے گئے، پھر چھوڑ دیے گئے تحقیقات آگے بڑھیں ہی نہیں۔ بینظیر کے خط کو اہمیت نہیں دی گئی جن کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا گیا تھا بعد میں وہ اتحادی حکومت کا حصہ رہے۔‘

’اس سے ظاہر یہ ہوتا ہےکہ بینظیر کو کچھ لوگوں کے حوالے سے تحفظات تھے وہ شاید درست نہیں تھے، اس حوالے سے آپ نے کہا کہ مشرف کو ہٹا کر جمہوریت بحال کر دی ہے یہ کرنے کے بعد آپ کیسے یہ مطالبہ کر سکتے ہیں کہ مشرف کے خلاف بینظیر کے قتل کا مقدمہ چلایا جائے جب آپ کے پاس موقعہ تھا تو آپ نے محفوظ راستہ فراہم کر دیا تھا۔‘

27 دسمبر کا حملہ 18 اکتوبر کا ہی تسلسل تھا۔ گذشتہ تین ادوار سے پیپلزپارٹی حکومت میں ہے وہ بتائے اس نے تحقیقات میں کیا کیا ہے۔’

پولیس نے سنہ 2008 میں حرکت الجہاد الاسلامی کے رہنما قاری سیف اللہ کو گرفتار کیا تھا اور انسداد دہشت گردی کی عدالت کو آگاہ کیا کہ بینظیر بھٹو نے اپنی کتاب ‘اسلام، جمہوریت اور مفاہمت’ میں لکھا تھا کہ قاری سیف اللہ نے ان کے خلاف سازش کی ہے اور وہ حملے میں ملوث ہیں لیکن ثبوتوں کی عدم دستیابی پر انھیں دس روز کے بعد بعد رہا کر دیا گیا۔

اس کیس میں پولیس کے تفتیشی افسر ڈی ایس پی نواز رانجھا ایک حملے میں ہلاک ہوگئے جبکہ 18 اکتوبر اور بعد میں 27 دسمبر حملوں کے دو چشم دید گواہ خالد شہنشاہ اور بلال شیخ کی بھی الگ الگ واقعات میں ہلاکت ہوگئی۔

سنہ 2017 کو برسی کے موقع پر وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اعلان کیا تھا کہ 18 اکتوبر واقعے کی ازسر نو تحقیقات کی جائیں گی اور اس کے لیے ڈی آئی جی ثنااللہ عباسی کو ذمہ داری دی گی لیکن اس میں بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp