امریکہ میں سنہ 1953 کے بعد پہلی بار ایک خاتون کو وفاقی سطح پر سزائے موت کا سامنا


لیزا مونٹگمری کو 8 دسمبر کو امریکا کی ریاست انڈیانا میں مہلک انجیکشن دیا جائے گا
8 دسمبر کو لیزا مونٹگمری کو امریکی ریاست انڈیانا میں مہلک انجیکشن دیا جائے گا
امریکہ کے محکمۂ انصاف نے بتایا ہے کہ تقریباً 70 برس میں ملک میں پہلی بار ایک خاتون کو وفاقی سطح پر سزائے موت دی جائے گی۔

لیزا مونٹگمری نے سنہ 2004 میں امریکی ریاست مسوری میں ایک حاملہ خاتون کا گلا گھونٹ کر انھیں قتل کیا تھا اور ان کا پیٹ کاٹ کر بچے کو اغوا کر لیا تھا۔

انھیں 8 دسمبر کو ریاست انڈیانا میں مہلک انجیکشن دیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے

سزائے موت کے قیدیوں نے آخری بار کیا کھانے کی خواہش کی؟

امریکہ:وفاقی سطح پر 17 برس میں پہلی سزائے موت

انڈیا میں نیا قانون: بچیوں کے ساتھ ریپ کی سزا موت

امریکی تنظیم ’ڈیتھ پینلٹی انفارمیشن سینٹر‘ کے مطابق امریکی حکومت کی جانب سے سزائے موت پانے والی آخری خاتون بونی ہیڈی تھیں۔ انھیں 1953 میں مسوری میں گیس کے چیمبر میں ہلاک کیا گیا تھا۔

برانڈن برنارڈ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ 1999 میں دو نوجوان پادریوں کا قتل کیا تھا۔ انھیں بھی دسمبر میں سزائے موت دی جائے گی۔

امریکی اٹارنی جنرل ولیم بار نے کہا کہ یہ جرائم ’گھناؤنے قتل‘ تھے۔

گذشتہ سال ٹرمپ انتظامیہ نے کہا تھا کہ وہ وفاقی سطح پر سزائے موت پر دوبارہ عمل درآمد کریں گے۔

لیزا مونٹگمری کون ہیں؟

محکمۂ انصاف کی ایک پریس ریلیز کے مطابق دسمبر 2004 میں لیزا مونٹگمری کینساس سے مسوری سفر کرتے ہوئے بوبی جو سٹینٹ کے گھر ایک کتے کی خریداری کے ارادے سے گئیں۔

اس ریلیز کے مطابق ’رہائش گاہ کے اندر داخل ہونے کے بعد مونٹگمری نے آٹھ ماہ کی حاملہ پر حملہ کر کے ان کا گلا دبا دیا اور انھیں بے ہوش کر دیا۔‘

’اس کے بعد مونٹگمری نے باورچی خانے کے چاقو سے خاتون کا پیٹ کاٹ دیا جس سے وہ پھر سے ہوش میں آ گئیں۔ دونوں کے بیچ ایک جدوجہد شروع ہوگئی اور مونٹگمری نے سٹینٹ کو گلا گھونٹ کر مار دیا۔

’مونٹگمری نے اس کے بعد سٹینٹ کے جسم سے بچے کو نکالا اور اسے اپنے ساتھ لے گئی اور اسے اپنا بتانے کی کوشش کی۔‘

سنہ 2007 میں ایک عدالت کی جیوری نے مونٹگمری کو اغوا کے نتیجے میں موت کا قصور وار قرار دیا اور متفقہ طور پر انھیں سزائے موت دینے کی سفارش کی۔

لیکن مونٹگمری کے وکیلوں کا کہنا ہے کہ بچپن میں مار پیٹ سے ان کے دماغ کو نقصان پہنچا ہے اور وہ ذہنی طور پر ٹھیک نہیں ہیں، لہذا انھیں سزائے موت نہ دی جائے۔

وفاقی اور ریاستی سزائے موت میں فرق

امریکہ کے عدالتی نظام کے تحت جرائم کی سماعت قومی سطح پر وفاقی عدالتوں میں یا علاقائی سطح پر ریاستی عدالتوں میں کی جا سکتی ہے۔

جعلی کرنسی یا ڈاک کی چوری جیسے کچھ جرائم خود بخود وفاقی سطح کی عدالت میں جاتے ہیں کیونکہ ایسے معاملات میں ملک خود ایک فریق ہوتا ہے۔ ایسا ان جرائم میں بھی ہوتا ہے جن میں آئین کی خلاف ورزی کی گئی ہو۔ دوسرے مقدمات بھی جرائم کی شدت کی بنیاد پر وفاقی عدالتوں میں جاسکتے ہیں۔

ٹیکساس

سنہ 1972 میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے بعد سزائے موت کو ریاستی اور وفاقی سطح پر غیر قانونی قرار دیا گیا تھا جس کے وجہ سے سزائے موت کے اس وقت کے تمام قوانین منسوخ ہو گئے تھے۔

سنہ 1976 میں سپریم کورٹ نے ریاستوں کو سزائے موت کی بحالی کی اجازت دی اور سنہ 1988 میں حکومت نے ایک قانون کے ذریعے اسے وفاقی سطح پر بھی دوبارہ بحال کردیا۔

ڈیتھ پینلٹی انفارمیشن سینٹر کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں سنہ 1988 سے 2018 تک وفاقی مقدمات میں 78 افراد کو سزائے موت سنائی گئی لیکن صرف تین کو یہ سزا مل پائی۔

لیزا آٹھویں اور برنارڈ نویں اشخاص ہوں گے جنھیں رواں سال وفاقی سطح پر سزائے موت دی جا رہی ہے۔

سزائے موت کے قواعد میں تبدیلی کیوں؟

ٹرمپ انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ گذشتہ سال طویل وقفے کے بعد وفاقی سطح پر سزائے موت کے قوانین پر عمل درآمد شروع کریں گے۔

اس وقت ایک بیان میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’[سیاسی] فریقین کے زیرِ انتظام محکمۂ انصاف نے بدترین مجرموں کے خلاف سزائے موت کا مطالبہ کیا ہے۔‘

’محکمۂ انصاف کا کام قانونی حکمرانی کو برقرار رکھنا ہے اور ہم متاثرین اور ان کے اہل خانہ کے قرض دار ہیں کہ ہم انصاف کے نظام کے ذریعے عائد سزا کو لاگو کریں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp