نیوزی لینڈ انتخابات: جاسنڈا آرڈرن کی دوسری مرتبہ کامیابی کی وجوہات کیا رہیں؟


جاسنڈا
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جاسنڈا آرڈرن نے ملک کے عام انتخابات میں زبردست اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے لیکن ان کی اس تاريخی کامیابی کا سبب کیا ہے؟

تمام ووٹوں کی گنتی کے بعد آرڈرن کی سینٹر لیفٹ لیبر پارٹی نے 49.1 فیصد ووٹ حاصل کیے جس سے انھیں متوقع 64 نشستیں حاصل ہوتی ہیں جو کہ غیر معمولی پارلیمانی اکثریت ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ جاسنڈا آرڈرن نے گذشتہ سال نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مساجد پر ہونے والے حملوں کے بعد لوگوں کے ساتھ جس طرح رابطے قائم کیے، اس نے ان کی مقبولیت میں اضافہ کیا اور ان کی جیت کی بڑی وجہ ان کا ہمدردانہ اور شفیق رویہ رہا۔

یہ بھی پڑھیے

جاسنڈا آرڈرن: ’ہمدرد قیادت کی شبیہ‘

نیوزی لینڈ: خود کار ہتھیاروں پر پابندی کا اعلان

بی بی سی کی شائمہ خلیل بتاتی ہیں کہ ان کی جیت کے بارے میں ہر کوئی جانتا تھا اور اس کی وجہ ان کا ’سٹار والا کرشمہ‘ تھا جو مساجد پر حملے کے علاوہ قدرتی آفات اور کورونا کے وبائی مرض کے دوران نظر آیا۔

بہرحال سنیچر کو 120 نشستوں والی اسمبلی انتخابات کے نتائج میں سینٹر رائٹ نیشنل پارٹی محض 26.8 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی جس کا مطلب ہے کہ انھیں 35 نشستوں پر ہی اکتفا کرنا ہوگا۔ اس سے قبل اس پارٹی کو سب سے زیادہ نشستیں ملی تھیں۔

انتخابات کو ستمبر میں ہی ہونا تھا لیکن کووڈ 19 کی وبا کے دوبارہ سر ابھارنے کے بعد اسے ایک ماہ کے لیے ملتوی کردیا گیا تھا۔

سنیچر کو ہونے والی ووٹنگ سے قبل دس لاکھ سے زیادہ افراد نے ابتدائی رائے دہی میں ووٹ ڈالے تھے۔ یہ سہولت تین اکتوبر سے فراہم کی گئی تھی۔

نیوزی لینڈ کے عوام سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ وہ عام انتخابات کے ساتھ ساتھ دو ریفرنڈمز (عوامی رائے شماری) کے لیے بھی ووٹ ڈالیں۔

حملے کے بعد آرڈرن

جاسنڈا آرڈرن نے مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر حملوں کے بعد لوگوں سے جس خلوص اور ہمدردی کا مظاہرہ کیا اسے نیوزی لینڈ میں ہی نہیں ساری دنیا میں سراہا گیا

آرڈرن کی واضح اکثریت

الیکشن کمیشن کے حتمی نتائج میں اے سی ٹی نیوزی لینڈ کو آٹھ فیصد ووٹ (10 متوقع نشستیں) ملے جبکہ گرینز کو بھی تقریباً آٹھ فیصد ووٹ ملے (دس نشستیں)، ماوری پارٹی کو ایک فیصد ووٹ ملے جس کا مطلب ہے کہ اسے ایک نشست حاصل ہوگی۔ جبکہ باقیوں کے حصے میں مجموعی طور پر 7.7 فیصد ووٹ آئے لیکن انھیں کوئی نشست نہیں ملی۔

40 سالہ آرڈرن نے فتح کے بعد اپنے حامیوں سے کہا: ‘نیوزی لینڈ نے تقریباً 50 برسوں میں لیبر پارٹی کو اپنی سب سے بڑی حمایت دی ہے۔

’ہم آپ کی حمایت کو ہرگز نہیں بھولیں گے۔ اور میں آپ سے وعدہ کرسکتی ہوں کہ ہم مل کر ایسی پارٹی بنیں گے جو نیوزی لینڈ کے ہر ایک باشندے کے لیے حکومت کرے گی۔‘

نیشنل پارٹی (این اے ٹی) کی رہنما جوڈتھ کولنز نے آرڈرن کو مبارکباد پیش کی اور وعدہ کیا کہ ان کی پارٹی ایک ’مضبوط اپوزیشن‘ ہوگی۔

انھوں نے آئندہ ہونے والے انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’پلک جھپکتے ہوئے تین سال گزر جائیں گے۔ ہم واپس آئیں گے۔‘

نیشنل پارٹی کی امیدوار جوڈتھ کولنز نے اپنی شکست تسلیم کر لی ہے

نیشنل پارٹی کی امیدوار جوڈتھ کولنز نے اپنی شکست تسلیم کر لی ہے

نیوزی لینڈ میں کوئی بھی پارٹی سنہ 1996 سے واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے کیونکہ سنہ 1996 میں مخلوط ممبر تناسب (ایم ایم پی) نمائندگی کا نیا ووٹنگ نظام متعارف کرایا گیا تھا۔

آرڈرن نے حالیہ انتخابات کو ‘کووڈ الیکشن’ کا نام دیا تھا۔

انھوں نے ماحول دوست پالیسیوں کو مزید فروغ دینے، پسماندہ سکولوں کے لیے مالی معاونت بڑھانے اور زیادہ آمدنی والے افراد پر انکم ٹیکس بڑھانے کا عہد کیا ہے۔


سٹار پاور سے حاصل ہونے والی بڑی کامیابی

شائمہ خلیل ، بی بی سی نیوز

یہ الیکشن کسی صورت کانٹے کی ٹکر والا نہیں ہونے والا تھا۔

رائے عامہ کے جائزوں میں آرڈرن کو دوسری مدت کے لیے باآسانی کامیاب قرار دیا جا رہا تھا۔ نتائج نے صرف اس بات کی تصدیق کی ہے جو کہ ہر کوئی پہلے سے ہی جانتا تھا۔

اصل سوال یہ تھا کہ جاسنڈا آرڈرن اور ان کی پارٹی کتنی بڑی کامیابی حاصل کرنے جا رہی ہے اور کسی بھی اعتبار سے ان کی یہ جیت قابلِ ذکر جیت ہے۔

یہ اس پارٹی کے لیے ایک بہت بڑی فتح ہے جو اس نے اپنے قائد کی ’سٹار جیسی مقبولیت‘ کی صورت میں حاصل کی ہے۔ آرڈرن نے مہربانی اور رحم دلی کے ساتھ دہشت گردی کے حملے، قدرتی آفات اور عالمی وبائی مرض کے دوران نیوزی لینڈ کی قیادت کی۔

لیکن دوسری میعاد کے دوران معاملات مختلف ہوں گے۔ نیوزی لینڈ گذشتہ 11 سالوں میں پہلی مرتبہ کساد بازاری کا شکار ہے اور لیبرپارٹی کو کووڈ 19 کی بحالی کے لیے واضح منصوبہ نہ پیش کیے جانے کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

معیشت کو راہ پر لانے کے لیے بہت کام کرنے ہیں اور ابھی وبا کے خطرات سر پر منڈلا رہے ہیں۔ اس کام کو سر انجام دینے کے لیے آرڈرن کی مقبولیت اور کرشمے سے کہیں زیادہ کی ضرورت ہوگی۔


انھیں کیوں ووٹ ملے؟

اپنے پسندیدہ امیدوار اور پارٹی کا انتخاب کرنے کے علاوہ نیوزی لینڈ کے باشندوں سے دو ریفرنڈمز میں ووٹ ڈالنے کے لیے بھی کہا گیا تھا۔

ان میں ایک ’مریض کو آرام دہ موت کا حق‘ اور دوسرا ’بھنگ کو قانونی حیثیت دینا‘ تھے۔

پہلے کا مقصد طویل عرصے سے بیمار یا لاعلاج مریضوں کی جانب سے موت کی درخواست پر انھیں مرنے کا اختیار دیا جانا ہے۔ اس پر ووٹ ڈالنا لازمی تھا، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر 50 فیصد سے زیادہ لوگ ’ہاں‘ میں ووٹ ڈالتے ہیں تو یہ قانون بن جائے گا اور اس پر عمل در آمد شروع ہو جائے گا۔

دوسری بات یہ تھی کہ آیا بھنگ کو تفریح کے لیے استعمال کی اجازت دی جائے۔

تاہم یہ لازم نہیں تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر لوگوں کی اکثریت ‘ہاں’ پر ووٹ دیتی ہے تو بھی یہ فوری طور پر قانون نہیں بن سکتا ہے۔

اب یہ آنے والی حکومت پر منحصر ہوگا کہ اس کو قانونی حیثیت دینے کے لیے کوئی بل پیش کرے۔

دونوں ریفرنڈم کے ابتدائی نتائج کا اعلان 30 اکتوبر کو کیا جائے گا۔

نیوزی لینڈ کا پارلیمان

نیوزی لینڈ کا پارلیمان

نیوزی لینڈ کا ووٹنگ سسٹم کیسے کام کرتا ہے؟

نیوزی لینڈ میں ہر تین سال بعد عام انتخابات ہوتے ہیں۔

اس کے ایم ایم پی سسٹم کے تحت ووٹروں سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی پسند کی پارٹی اور اپنے انتخابی حلقے کے رکن اسمبلی کے لیے دو ووٹ دیں۔

کسی پارٹی کو پارلیمان میں داخل ہونے کے لیے پانچ فیصد سے زیادہ ’پارٹی ووٹ‘ حاصل کرنا ہوں گے یا پھر ایم پی کی کوئی نشست جیتنی ہوگی۔

اتحاد کی حکومت کے نتیجے میں جماعتوں کو عام طور پر مل کر کام کرنا پڑتا ہے۔

سنہ 2017 میں نیشنل پارٹی نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں لیکن وہ حکومت تشکیل نہیں دے سکی اور لیبر نے قوم پرست جماعت گرین اور نیوزی لینڈ فرسٹ کے ساتھ اتحاد قائم کر کے حکومت سازی کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp