بھارتی کشمیر: کیا عسکری تنظیمیں اپنے ٹھکانے تبدیل کر رہی ہیں؟



بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں حکام کا کہنا ہے کہ عسکریت پسند تنظیمیں سیکیورٹی فورسز کے مستقل دباؤ کی وجہ سے اپنے ٹھکانوں کو وسطی اور شمالی کشمیر منتقل کر رہی ہیں۔

تجزیہ کاروں کے بقول جنوبی کشمیر کے چار اضلاع پلوامہ، شوپیاں، کولگام اور اننت ناگ جولائی 2016 میں عسکری کمانڈر برہان مظفر وانی کی بھارتی فوج کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد شورش کا مرکز ہیں اور جنوبی کشمیر عسکریت پسندوں کا گڑھ بن گیا ہے۔

سیکیورٹی فورسز کے افسران بار ہا یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ برہان وانی کی ہلاکت سیکڑوں کشمیری نوجوانوں کو عسکریت پسندوں میں شامل ہونے کا باعث بنی۔ ان نوجوانوں میں سے بیشتر کا تعلق جنوبی کشمیر سے تھا۔ خود برہان وانی بھی جنوبی کشمیر کے ترال علاقے کے باشندے تھے۔

بائیس سالہ برہان وانی جو سوشل میڈیا پر خاصے سرگرم ہونے کی وجہ سے ذرائع ابلاغ میں سب سے بڑی مقامی عسکری تنظیم ‘حزب المجاہدین’ کے ٰ پوسٹر بوائےٰ کے طور پر مشہور ہوگئے تھے۔ اُن کی ہلاکت وادی کشمیر کے ساتھ ساتھ ریاست کے جموں خطے کی مسلم اکثریتی چناب وادی میں بڑے پیمانے پر تشدد اور بد امنی کا موجب بنی تھی۔ جس کے دوران 80 سے زائد شہری ہلاک ہوئے تھے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ برہان وانی کی ہلاکت کے بعد بھارت سے آزادی حاصل کرنے کے لیے جاری مسلح جدوجہد کو تقویت ملی۔

سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر کے شعبہ قانون اور بین الاقوامی تعلقات کے سابق پروفیسر ڈاکڑ شیخ شوکت حسین کا کہنا ہے کہ بھارتی فورسز کے لیے مردہ برہان وانی، زندہ برہان وانی سے زیادہ خطرناک ثابت ہوا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ برہان وانی کی ہلاکت کے بعد بھارت سے آزادی حاصل کرنے کے لیے جاری مسلحہ جدوجہد کو تقویت ملی۔ (فائل فوٹو)

تجزیہ کاروں کے مطابق وانی کی ہلاکت کے بعد، پہلے تین سال کے عرصے میں حزب المجاہدین اور تحریک المجاہدین نامی عسکری تنظیموں میں شامل زیادہ انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والے نوجوان دولت اسلامیہ جموں و کشمیر (آئی ایس جے کے)، انصار الغزوة الہند (القاعدہ کی مقامی شاخ) اور اسلامی ریاست ہند صوبہ (آئی ایس ایچ پی) جو داعش سے وابستہ ہے، کا حصہ بنے۔

تاہم بعض حلقے جنوبی کشمیر میں ابھرنے والی ان عسکری تنظیموں کو حزب المجاہدین جیسی عسکری تنظیموں کو کمزور کرنے کی ایک دانستہ کوشش قرار دے رہے ہیں جس کے پیچھے خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ ہے۔

لیکن ان عسکری تنظیموں نے اس مفروضے کو بے بنیاد قرار دیا اور یہ استفسار کیا کہ اگر ان کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ ہوتا تو ان کے اراکین سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک کیوں ہوتے۔

ساڑھے چال سال میں ایک ہزار سے زائد عسکریت پسند ہلاک

بھارتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ برہان وانی کی ہلاکت کے بعد عسکری تنظیموں کے خلاف سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں شدت لائی گئی اور سوا چار سال کے عرصے کے دوراں تین درجن اعلیٰ کمانڈروں سمیت ایک ہزار سے زائد عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا جاچکا ہے۔

عہدیداروں کا مزید کہنا تھا کہ ان کارروائیوں کا سب سے زیادہ نقصان حزب المجاہدین کو اٹھانا پڑا ہے۔

بھارتی کشمیر کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے حال ہی میں یہ دعویٰ کیا کہ حزب المجاہدین کا جنوبی کشمیر میں قریب قریب صفایا کردیا گیا ہے۔ جبکہ اس دوران سیکیورٹی فورسز کو بھی گزشتہ برسوں کے مقابلے میں بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔

دلباغ سنگھ کا کہنا تھا کہ عسکریت پسندوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں میں درجنوں شہری بھی ہلاک ہوئے اور املاک کو شدید نقصان پہنچا۔

پولیس سربراہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس سال اب تک عسکریت پسندوں کے خلاف ستر سے زائد آپریشنز کیے جا چکے ہیں اور تقریباً سبھی کامیاب رہے ہیں۔ کیونکہ ان کے بقول سیکیورٹی فورسز ان آپریشنز کے دوران 180 سے زائد عسکریت پسندوں کا کام تمام کرنے میں کامیاب ہوگئی ہیں اور زیادہ تر ہلاکتیں جنوبی کشمیر میں ہوئی ہیں۔

ہلاکتوں کے باوجود نوجوانوں کی عسکری تنظیموں میں شمولیت

تاہم تجزیہ کاروں کے بقول ان ہلاکتوں کے باوجود عسکری تنظیموں میں مقامی نوجوانوں کے شامل ہونے کا سلسلہ نہیں رکا اور ان تنظیموں میں ایک نیا رجحان اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کا شامل ہونا نظر آیا۔

اس کے علاوہ مختلف نظریات کے ساتھ نئی عسکری تنظیموں نے جنم لیا اور ‘البدر’ جیسی تنظیمیں دوبارہ فعال ہونے لگیں۔ لیکن سیکیورٹی حکام کا اصرار ہے کہ حالیہ مہینوں میں حزب المجاہدین اور لشکر طیبہ جیسی تسلیم شدہ تنظیموں میں سامانِ رسد اور نقل و حرکت جیسے مسائل نے جنم لیا۔

جنوبی کشمیر میں ابھرنے والی ان عسکری تنظیموں کو حزب المجاہدین تسلیم شدہ عسکری تنظیموں کو کمزور کرنے کی ایک دانستہ کوشش قرار دیا۔ (فائل فوٹو)

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان تنظیموں میں ہتھیاروں کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے اور سیکیورٹی اہلکاروں سے اسلحہ چھیننے کے بڑھتے ہوئے واقعات کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔

مقامی آبادیوں کے دل جیتنے کی بھارتی فوج کی کوشش

پلوامہ اور شوپیاں میں بھارتی فوج اور مقامی پولیس کے شورش مخالف اسپیشل آپریشنز گروپ (ایس او جی) کے ساتھ ساتھ وفاقی پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے دستے ان علاقوں کے چپے چپے پر موجود ہیں۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ فوج نے جہاں ایک طرف عسکریت پسندوں پر دباؤ بڑھادیا ہے۔ وہیں وہ مقامی آبادیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بھی کوشاں ہیں۔

واضح رہے کہ ماضی میں بھارتی سیکیورٹی فورسز پر ان علاقوں میں لوگوں کے ساتھ سختی برتنے، نوجوانوں کو ہراساں کرنے، املاک کو نقصان پہنچانے اور انسانی حقوق کو پامال کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ جبکہ متعلقہ حکام ان الزامات کی تردید کرتے آئے ہیں۔

لوگوں کا مزید کہنا کہ وہ پولیس کی طرف سے کرونا وائرس کی آڑ میں سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مقابلوں میں مارے جانے والے عسکریت پسندوں کی لاشیں لواحقین کو نہ سونپے پر بے حد خفا ہیں۔

ایک مقامی صحافی شوکت ڈار کا کہنا تھا کہ لوگ خاص طور پر لواحقین چاہتے ہیں کہ وہ ہلاک ہونے والے نوجوانوں کو آبائی مقبروں یا شہدا کے قبرستانوں میں سپردِ خاک کریں۔ لیکن ظاہر ہے کہ حکام نہیں چاہتے کہ ان کی تدفین پر بڑے بڑے اجتماعات ہوں۔

ماضی میں ایسے مواقع پر لوگوں کا جمِ غفیر اُمڈ آتا تھا۔ یہاں تک کہ مارے جانے والے عسکریت پسندوں کے ساتھی بھی ان کی تدفین میں شامل ہوتے تھے اور کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ کئی مقامی نوجوانوں اور نو عمر لڑکوں نے وہیں پر ان عسکری تنظیموں میں شامل ہونے کا اعلان کردیا یا کھلے عام حامی بھر لی۔ یہ سیکیورٹی فورسز کے لیے ایک بڑا چیلنچ بن گیا تھا۔

سری نگر میں پیش آنے والے مقابلوں میں اضافہ

مقامی ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ عسکریت پسند، سیکیورٹی فورسز کی طرف سے ان پر بڑھائے جانے والے دباؤ کے پیشِ نظر جنوبی کشمیر سے وسطی اور شمالی کشمیر کے علاقوں کو منتقل ہورہے ہیں۔

اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے صدر مقام سری نگر میں جس کے بارے میں حکام کا کہنا تھا کہ اسے عسکریت پسندوں سے پاک کردیا گیا ہے۔ اس سال اب تک عسکریت پسندوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان آٹھ مقابلے ہوئے ہیں۔ جن میں حزب المجاہدین کے ایک اعلیٰ کمانڈر جنید اشرف خان سمیت اٹھارہ عسکریت پسند مارے گئے۔

سری نگر اور اس کے مضافات میں پولیس اور سیکیورٹی فورسز پر عسکریت پسندوں کے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

وسطی کشمیر کے ایک اور ضلع بڈگام اور شمالی کشمیر کے اضلاع خاص طور پر بارہمولہ اور بانڈی پور میں بھی عسکری تنظیموں کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں اور خفیہ اداروں کے پاس یہ اطلاعات ہیں کہ ان اضلاع میں عسکریت پسند نئے ٹھکانے قائم کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔

شیخ شوکت حسین ایک نئے امکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ لداخ تبت سرحد پر بھارت اور چین کی افواج کے درمیان پچھلے کئی ماہ سے جاری محاذ آرائی کے پیشِ نظر بھارتی فوج کی ایک بڑی تعداد کو وادی کشمیر کے شمالی اور وسطی علاقہ جات سے لداخ منتقل کردیا گیا ہے۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ فوج نے جہاں ایک طرف عسکریت پسندوں پر دباؤ بڑھادیا ہے۔ وہیں وہ مقامی آبادیوں کو لبھانے کی سر توڑ کوششیں کررہی ہے۔ (فائل فوٹو)

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے اس سے عسکریت پسندوں کے لیے جنوبی کشمیر سے ان علاقوں کی طرف منتقل ہوکر نئی پناہ گاہیں قائم کرنے کے لیے گنجائش پیدا ہوئی ہو۔ یا وہ محض جنوبی کشمیر میں ان کے خلاف بڑھتے ہوئے آپریشنز کی وجہ سے ایسا کرنے کے لیے مجبور ہوئے ہیں۔ ان کے بقول اس بارے میں وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

بھارتی کشمیر کے سابق ڈائریکٹر جنرل آف پولیس شیش پال وید کے نزدیک یہ کوئی غیر معمولی صورتِ حال نہیں ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جہاں عسکریت پسندوں پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ وہ اس علاقے کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور نئی پناہ گاہوں کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ ان کے بقول وہ پہلے بھی ایسا کرتے تھے۔ تاہم وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ جنوبی کشمیر سے وسطی اور شمالی کشمیر کی طرف یہ منتقلی کسی ٹھوس پالیسی کا حصہ ہے یا ایک تدبیری اقدام تاکہ سیکیورٹی فورسز کے آپریشنز سے خود کو بچایا جاسکے۔

خیال رہے کہ وادی کشمیر جغرافیائی لحاظ سے ایک متحرک علاقہ ہے اور یہاں کوئی ایسی حد بندیاں مقرر نہیں جو کسی کو ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں آنے جانے سے روک سکیں۔

در اندازی محدود ہونے کے باوجود نوجوانوں کی بھرتی میں تیزی

بھارتی فوج کی پندرہویں کور کے کمانڈر لیٹفٹننٹ جنرل بی ایس راجو نے یہ اعتراف کیا کہ اگرچہ ان کے بقول بھارتی فوج کے چوکس ہونے کے نتیجے میں سرحد پار سے عسکریت پسندوں کی در اندازی پر بڑی حد تک قابو پالیا گیا ہے اور کشمیر کو تقسیم کرنے والی حد بندی لائن پر صورت حال قابو میں ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ حالیہ ہفتوں میں عسکری تنظیموں میں مقامی نوجوانوں کی شمولیت بڑھ گئی ہے۔

سیکیورٹی فورسز ذرائع کا کہنا ہے کہ عسکری تنظیموں میں نئی بھرتیاں شمالی کشمیر سے ہوئی ہے۔

پولیس سربراہ دلباغ سنگھ کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں کو سری نگر جیسے علاقوں میں قدم جمانے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور جب بھی کوئی دہشت گرد تنظیم سری نگر میں اپنا اڈہ قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے تو ان کے خلاف فوری کارروائی کی جاتی ہے۔

سیکیورٹی فورسز کے عہدیدار نجی طور پر یہ بتاتے ہیں کہ وہ عسکریت پسندوں کا زیادہ مؤثر انداز میں مقابلہ کرنے کے لیے جلد اپنی توجہ وسطی اور شمالی کشمیر کی طرف مبذول کریں گے۔ تاہم سی آر پی ایف کے ڈائریکٹر جنرل برائے شمالی ہندوستان ذوالفقار حسن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سیکیورٹی فورسز جنوبی کشمیر میں کسی قسم کی نرمی یا کمزوری کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ عسکریت پسند اپنے ٹھکانے بدلتے رہتے ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa