دی پارٹی از ناٹ اوور


جمہوریت اقتدار کی پر امن منتقلی کا اکلوتا طریقہ ہے۔ بے شک ہر سیاسی نظام کی طرح جمہوریت کی بھی اپنی محدودات ہیں، مگر تاریخ کے اوراق تصدیق کرتے ہیں کہ سوائے جمہوری نظام کے انسانی فکر ایسا کوئی ڈھانچا متعارف نہیں کرا سکی، جس میں اقتدار کی موثر اور پر امن منتقلی کا امکان موجود ہو۔ ورنہ بادشاہت ہو آمریت یا پھر انقلاب، اقتدار کی منتقلی نے ہمیشہ خون سے اپنی پیاس بجھائی ہے، اور لاشوں کے پہاڑ سر کیے ہیں۔

یہ درست کہ تاریخ کے چند مراحل پر انقلاب بنیادی مطالبہ بن کر ابھرا۔ فرانس ہو یا امریکی انقلاب، یا پھر گزشتہ صدی میں سوویت یونین اور پھر چین میں بپا ہونے والا سوشلسٹ انقلاب۔ بلاشبہ سوشلسٹ انقلاب کے وسیلے عالمی سیاست اور جغرافیے میں بڑی تبدیلیاں آئیں، مگر اس نئے نظام میں اقتدار کی موثر منتقلی نہ ہونے کے باعث چند عشروں بعد دراڑ پڑ گئی۔ سوویت یونین ہو یا چین، بعد کے برسوں میں ایک نیم آمرانہ نظام وجود میں آیا، جس کی باقیات اب بھی موجود ہیں۔

پاکستان نے اپنے سیاسی سفر میں چار مارشل لا کے زخم سہے۔ یہ طویل دورانیے کی آمریت ہر بار بڑے نقصان پر منتج ہوئی۔ ایوب اور یحییٰ خان کی آمریت کا نتیجہ سقوط ڈھاکا کی صورت سامنے آیا، ضیا مارشل لا نے اس ملک میں جہادی اور اسلحہ کلچر متعارف کرایا۔ مشرف آمریت نے یہاں مذہبی انتہا پسندی کے بیج بو دیے، جن کی سیاہ شاخوں نے کتنے ہی پاکستانیوں کی زندگیاں نگل لیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ ہم نے آمریت کو ہمیشہ گلوریفائی کیا، اور آمرانہ ادوار کے غلط فیصلوں کی پردہ پوشی کی۔ یہ سلسلہ سات عشروں سے جاری ہے۔

بے شک سیاست دانوں میں بھی خامیاں ہیں، کمیاں ہیں، ان میں سے کئی نا اہل، مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمیں آج جو سیاست داں میسر ہیں، ان کی اکثریت آمریت ہی کی نرسری کی پیدا وار ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان سب کو اس بنیاد پر رد کر سکتے ہیں کہ ان کا جنم آمریت کی گود میں ہوا؟

یہ نکتہ پیش نظر رہے کہ جب کسی ملک کی ستر سالہ تاریخ میں ایک بڑے عرصے آمریت برا جمان رہی ہو، تو ایسے سیاست دانوں کی تلاش اپنی معنویت کھو دیتی ہے، جو کبھی اس چھتری تلے نہ رہے ہوں۔ راقم کے نزدیک اگر یہ سیاست داں جمہوری سوچ اپنا کر پارلیمانی نظام کی مضبوطی کے لیے جد و جہد کرتے ہیں، تو ان کے دامن کے چند داغ، بہرحال دھل جاتے ہیں۔ میاں نواز شریف اس کی ایک مثال۔ بے شک وہ ضیا آمریت میں پروان چڑھے اور انھیں ایک عرصے فیصلہ سازوں کی سر پرستی حاصل رہی، بالخصوص بے نظیر بھٹو کے خلاف وہ ہمیشہ تاریخ کی غلط سمت کھڑے ہوئے، مگر آج وہ جمہوری نظام کا اہم ترین جزو ہیں۔ متعدد دھچکوں، مقدموں اور تنازعات کے با وجود ان کی پارٹی اپنے پیروں پر کھڑی ہے، اور آئندہ الیکشن میں ایک بڑی قوت کے طور پر ابھر سکتی ہے۔ یہ نکتہ پیش نظر رہے کہ تین بار وزیر اعظم کے عہدے سے بر طرفی بھی میاں نواز شریف کو ملکی سیاست میں غیر متعلق نہیں کر سکی۔

کچھ یہی معاملہ پاکستان پیپلز پارٹی کا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو زمانہ اقتدار کے آخری برسوں میں یہ دعویٰ کرتے نظر آئے کہ سفید ہاتھی (امریکا) ان کے خلاف ہے۔ ایسا وقت بھی آیا کہ نکسن سرکار کا دم بھرنے والے بھٹو کی پارٹی نے امریکی صدر، جمی کارٹر کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ بھٹو کو سزائے موت سنائی گئی۔ دنیا کی کوششیں لاحاصل ثابت ہوئیں، اور آخر کار 4 اپریل 1979 کو بھٹو کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا۔ لیکن کیا پیپلز پارٹی ختم ہو گئی؟ بھٹو کی موت، اس کے اہل خانہ پر عائد بندشیں اور پارٹی ورکروں کے خلاف ہونے والا کریک ڈاؤن بھی پارٹی ختم نہ کر سکا۔ غداری اور ملک دشمنی جیسے انتہائی الزامات کو شکست دیتے ہوئے بے نظیر بھٹو نے اقتدار حاصل کیا۔

فقط ناتجربہ کاری اور کرپشن اس حکومت کے خاتمے کے اسباب نہیں تھے۔ اسے کم زور کرنے اور بعد ازاں ختم کرنے کے لیے خاصا اہتمام کیا گیا، اور اس عمل میں میاں نواز شریف نے بھی اپنا حصہ ڈالا، مگر تمام تر رکاوٹوں کے با وجود بے نظیر بھٹو نے دوبارہ اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل کی، اور وہاں جئے بھٹو کا نعرہ گونجا۔ بے نظیر کی شہادت کے بعد جماعت کو وہی صورت احوال در پیش تھی، جس کا سامنا بھٹو کی موت کے بعد پیپلز پارٹی نے کیا تھا۔ مگر الیکشن میں کامیابی کے بعد اس جماعت نے ایک بار پھر اقتدار تک رسائی حاصل کی۔

پیپلز پارٹی کی اس کہانی کو یہاں روک ہم اپنا رخ مسلم لیگ نون کی سمت کرتے ہیں، جس کے قائد کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ، معاہدے کے تحت یا جبر کے باعث، بیرون ملک جانا پڑا۔ ادھر پارٹی کا شیرازہ بکھیرنے کے لیے طاقت اور قانون کا سہارا لیا گیا۔ چند راہ نما مصلحت کے تحت خاموش ہو گئے، چند مفادات کے لیے مسلم لیگ ق کی سمت چلے گئے۔ گو مسلم لیگ ق نے اقتدار حاصل کیا، مگر عارضی مقاصد کے لیے بنائی گئی یہ جماعت بھی عارضی ثابت ہوئی۔ البتہ یہ امر بھی دل چسپ ہے کہ چودھری برادران کی سیاست نے مشرف کی رخصتی کے با وجود بھی اس لیگ کو کسی نہ کسی صورت باقی رکھا، اور 2018ء کے انتخابات کے بعد دوبارہ حکومتی ڈھانچے کا حصہ بنا دیا۔ مسلم لیگ ق اس نکتے کے حق میں سب سے بڑی دلیل ہے کہ آمریت کی نرسری میں پیدا ہونے والا سیاست داں بھی اگر جمہوری نظام کا حصہ بن جائے، تو اپنی بقا کا اہتمام کر لیتا ہے۔

مشرف دور میں تو یوں لگتا تھا کہ میاں نواز شریف کی پارٹی ختم ہو گئی ہے، اور ان کا دوبارہ اقتدار میں آنا لگ بھگ نا ممکن ہے، مگر 2008ء میں وہ ہیوی مینڈیٹ کے ساتھ لوٹے، اور وزیر اعظم کا منصب سنبھالا۔ اس بار وہ خاصے منتشر رہے۔ ملک دہشت گردی کا شکار تھا، کراچی میں ٹارگٹ کلنگ عروج پر تھی، پھر معاشی بحران۔ ابھی ان سے نمٹ ہی رہے تھے کہ دھرنا شروع ہو گیا۔ بعد ازاں ڈان اور پاناما لیکس۔ آخر وہ کار وہ عدالت سے نا اہل قرار پائے، گرفتار کیے گئے، اور اس وقت علاج کو جواز بنا کر بیرون ملک ہیں۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون بہ ظاہر اس وقت کم زور ہیں، اور ان کی قیادت بحرانی کیفیت کا شکار ہے، حالات کٹھن ہیں، مگر مریم نواز اور بلاول بھٹو کی موجودی میں یہ خیال کہ ان جماعتوں کی سیاست ختم ہو جائے گی، کسی طور درست نہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا تجزیہ یہی کہتا ہے کہ دونوں پارٹیاں جلد پوری قوت سے ابھریں گی، اور نئے سیٹ اپ میں اپنی جگہ بنائیں گی۔ الغرض، ”دی پارٹی از ناٹ اوور“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).