فاشزم اور تحریک انصاف


فاشزم دائیں بازو کی آمرانہ، انتہا پسند قوم پرستی کی ایک شکل ہے، آمریت کی طاقت، معاشرے اور معیشت کی مخالفت اور لوگوں کو زبردستی دبانے کی یہ تحریک جو کہ 20 ویں صدی کے اوائل میں مقبول ہوئی تھی، اب دوبارہ سے سر اٹھا رہی ہے، مگر اس دفعہ عالمی سطح پر اس کا شکار متوسط طبقہ ہے۔

وسطی یورپ میں پھیلنے سے پہلے اس تحریک کے تانے بانے پہلی جنگ عظیم کے دوران میں اٹلی سے ملتے ہیں، اٹلی میں سب سے پہلے فاشسٹ تحریکوں کا آغاز ہوا۔ لبرل ازم، مارکسزم اور انتشاریت کے خلاف فاشزم کو روایتی دائیں اور بائیں کی بجائے درمیان میں رکھا گیا، تا کہ دونوں اطراف سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔

فاشسٹوں نے پہلی جنگ عظیم کو ایک انقلاب کے طور پر دیکھا، جس نے جنگ، معاشرے، ریاست اور ٹیکنالوجی کی نوعیت میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لائیں۔

اس جنگ کے بعد معاشرہ کے مجموعی طور پر متحرک ہونے نے شہریوں اور جنگجوؤں کے مابین تفریق کو ختم کر دیا تھا۔ جس کے نتیجے میں ایک ایسی طاقتور ریاست کا قیام عمل میں آیا، کہ حکومت کو شہریوں کی زندگیوں میں مداخلت کا غیر معمولی اختیار حاصل ہو گیا۔ اس کو اگر پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو 1980ء سے لڑی جانے والی افغان جنگ نے ہمیں بھی فاشزم کے دور میں کب سے داخل کر رکھا ہے۔

فاشسٹوں کا خیال ہے، لبرل جمہوریت متروک ہے، مسلح تصادم کے لئے کسی قوم کو تیار کرنے اور معاشی مشکلات کا موثر انداز میں جواب دینے کے لئے ایک ریاستی نظریہ کے تحت معاشرے کو تشکیل دینا چاہیے۔

ریاست کی قیادت ایک مضبوط رہنما جو آمر اور حکمران نما کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ فاشزم سیاسی تشدد، جنگ اور سامراجی نظام کو قومی نظریہ حاصل کرنے والے اسباب کے طور پر دیکھتا ہے۔

اب پاکستان کے تناظر میں دیکھیں تو خان صاحب ان معاملات میں کتنے با اختیار ہیں، وہ ہم دیکھ سکتے ہیں، ان کی حکومت نے تمام سیاسی مخالفین پر غداری کے مقدمات کروا دیے ہیں، بلکہ سبھی کو غدار بھی قرار دے دیا ہے، اور عامتہ الناس کو باور کروایا جا رہا ہے کہ مودی کا نظریہ، نواز شریف کا نظریہ ہے۔ دو قومی نظریہ اور اسلام خطرے میں ہے، جاگو نوجوانو! اس ملک پر غداروں کا قبضہ تھا، جس سے میں نے آپ کو آزاد کیا ہے۔

عمران خان صاحب کی حکومت کو پچھلے دو سال سے نا کامی کا سامنا ہے، اس کارکردگی نے کئی طرح سے گھڑی کا رخ پاکستان کے لئے موڑ دیا ہے۔

عمران خان نے بطور رہنما و حکمران اس ملک میں فاشزم کی نقاب کشائی کی ہے، اور لوگوں کو باور کروایا ہے کہ فاشزم ہی پاکستان کا مستقبل ہے، جو کوئی اس بات سے اختلاف کرے گا اسے یا تو جیل یاترا پر بھیج دیا جائے گا یا نیب اس کی تفتیش شروع کر دے گی۔ عمران خان کو ضیا الحق مرحوم کی 5 ویں نسل (جنریشن) کہا جا سکتا ہے۔ انھوں نے فاشزم میں اہل عرب کے اسلام کی آمیزش کی تھی، ان کا ارادہ فاشزم میں روحانیت اور تصوف کی آمیزش کا ہے۔

فاشسٹ سوچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھوں نے تمام سیاسی مخالفین کو کچلنا مناسب سمجھا ہے، میڈیا کا حقہ پانی بند کر دیا ہے، اور فوجی قیادت کو بالواسطہ یا بلاواسطہ ہر خالی اسامی پر خود مختار کر دیا ہے، مخالفین کی بذریعہ عدالت سرکوبی کرنا اور ہر تقریر میں اپنے مخالفین کو یاد کرتے رہنا ان کی سوچ کے عکاس ہیں، اور آج کل ان کے پسندیدہ مشاغل یہی ہیں۔ کیوں کہ حکومت کا نظم و نسق اور اختیار سنبھالنے کا ان کو تجربہ نہیں اور نا ہی وہ اس فن میں مہارت حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

عدم رواداری، اور غیر جمہوری رویہ عمران خان کے فاشسٹ ذہن کا عکاس ہے، نواز شریف حکومت کے خلاف دھرنے کے دوران میں یہ واضح ہو گیا تھا۔ انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف جو بازاری زبان استعمال کی ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ ان کی جماعت اور حکومت نے چرب زبانی کے ماہر ارکان کی حوصلہ افزائی کی ہے۔

ذرائع ابلاغ کے وہ لوگ جنھوں نے عمران خان یا ان کی جماعت کی کسی پالیسی پر تنقید کی تو ان کو سوشل میڈیا پر اس تنقید کا نشانہ بنایا گیا، جس پر لوگوں نے خدا کی پناہ مانگی ہے۔ حالاں کہ حکومت سازی کے لئے ذرائع ابلاغ کو جتنی خوبصورتی سے خان صاحب اور ان کی جماعت نے استعمال کیا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔ لیکن ان کے وزیر اعظم بننے کے بعد، ذرائع ابلاغ کے ساتھ جو ہوا ہے، ایسا حال تو آمریتوں میں بھی نہیں ہوا۔ پچھلے دو سالوں میں، صحافیوں کو ملازمت کے دوران میں مجبور کیا گیا ہے، تکلیف دہ صحافیوں کو ملازمت سے فارغ کرنے سے انکار کرنے پر اخباری مالکان کو جیل بھیج دیا گیا ہے۔ ٹیلی ویژن پروگراموں کو نشر نہیں کرنے دیا جاتا ہے۔ اخبارات اور ٹیلیویژن چینلوں کی تقسیم کو روکا گیا ہے اور کوئی بھی، یہاں تک کہ ”آزاد“ عدلیہ بھی اس کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتی۔

بد عنوانی سے لڑنے کی آڑ میں، سیاسی مخالفین کو گرفتار کیا گیا ہے، اور ان کے خلاف بغیر کسی ثبوت کے انہیں جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ حزب اختلاف کے ایک رہنما پر منشیات کی اسمگلنگ جیسے جعلی الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، ایک سابق وزیر اعظم کو کئی مہینوں تک مبینہ سرکشی کے الزام میں جیل میں رکھا گیا تھا، جس کے بارے میں تفتیش کاروں کو بھی یقین نہیں تھا۔ کسی بھی سیاستدان کے خلاف جو حکومت کے خلاف تقریر کرتا ہے اس کے خلاف مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔

چند ایک حالیہ فیصلے جو نواز شریف کی تقاریر اور کثیر الجماعتی کانفرنس سے پہلے عدلیہ نے دیے ہیں۔ ان میں دو حزب اختلاف کے رہنماؤں کی ضمانت منظور کرتے ہوئے، پاکستان کی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ نیب ”قوانین کو سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے، سیاسی جماعتوں کو توڑنے اور ان کے ٹکڑے کرنے کے اوزار کے طور پر کامیابی کے ساتھ استعمال کیا گیا تھا۔ ان کے مطابق بونوں کو منتخب کیا گیا، ان کی پرورش کی گئی، ان کی ترویج و اشاعت کی گئی، اور ان کو طاقت میں لایا گیا۔

رسوائے زمانہ پس منظر اور مجرمانہ الزامات رکھنے والے افراد کو متوقع مثبت نتائج کے ساتھ مختلف صلاحیتوں پر ہم پر حکومت کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ اسی طرح، ہمارے معاشرے میں موت، اور تباہی کا سبب بننے والے افراد کو تربیت دی گئی، مالی اعانت کی گئی، تحفظ دیا گیا، اور فروغ دیا گیا۔ تاہم، اس معاملے میں فیصلہ دینے والے جج، ایک استثنا تھے۔ عام طور پر موجودہ منتقلی کے تحت، ججوں نے ’گہری ریاست‘ کے مطالبات کو قبول کیا۔ جس کا ذکر جناب محترمہ ہیلری کلنٹن نے بہت خوبصورتی سے ایک حالیہ انٹرویو میں کیا ہے۔ وہ لوگ جو آزاد ذہن رکھتے ہیں اور بیانیہ قبول نہیں کرتے ہیں، انہیں ذلیل کیا جاتا ہے، ڈرایا جاتا ہے اور بینچ کو ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے، مثال جسٹس شوکت صدیقی، اور قاضی فائز عیسی آپ کے سامنے ہیں۔

پچھلے دو سالوں میں، عمران خان ایک بری طرح کی ناکامی ثابت ہوئے ہیں جس نے کئی طرح سے گھڑی کا رخ پاکستان کے لئے موڑ دیا ہے، اور لگتا ہے ترقی معکوس کا سفر شروع ہو چکا اور فاشسٹ ریاست کے قیام کی جانب سفر تیزی سے جاری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).