ماحولیاتی تبدیلیاں اور خواتین پر اثرات


ماحولیاتی تبدیلیاں دنیا بھر میں ایک اہم مسئلہ بنتی جا رہی ہیں۔ اس کی لپیٹ میں مختلف ممالک آ رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ گلوبل وارمنگ میں اضافے کے باعث دنیا کے اوسط درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں قدرتی آفات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی اور قدرتی آفات دنیا کے لئے بہت بڑا چیلنج ہیں۔ سائنسی اعداد و شمار کے مطابق، پچھلے سو سال کے دوران میں جتنی بھی قدرتی آفات آئی ہیں، ان کی شدت میں حالیہ دس سالوں کے دوران میں تیزی آئی ہے۔ جو سیلاب پہلے بیس سالوں میں ایک دفعہ آتے تھے، اب ہر پانچ سال بعد آنے لگے ہیں۔

اگر چہ موسم میں تبدیلی کے اثرات اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے، لیکن یہ بات کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ یہ بدلتے موسم، خواتین کے لیے خصوصی پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔

2019ء میں آکسفیم نامی ادارے کی تحقیق، جس کا موضوع ( climate Induced Migration in Pakistan) کے مطابق، سندھ کے ساحلی اضلاع میں پانی کے بڑھتے ہوئے مسائل اور اس کے حصول کے لئے خواتین اوسطا دو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ بعض اوقات دن میں کئی بار پانی کے کنوں تک اتنا ہی سفر طے کرنا پڑتا ہے۔

2016ء میں، یونیسیف کی تحقیق کے مطابق، پوری دنیا میں خواتین اور لڑکیاں ہر روز پانی جمع کرنے میں 200 ملین گھنٹے یا 22، 800 سال خرچ کرتی ہیں، جو ان کے قیمتی وقت کا ایک بہت بڑا ضیاع ہے۔ ذرا تصور کریں 200 ملین گھنٹے 8.3 ملین دن، یا 22، 800 سال سے زیادہ کا عرصہ ہے۔ ”یونیسف کے ادارے (گلوبل ہیڈ آف واٹر اینڈ سینیٹیشن ہائجین) کے سربراہ سنجے وجیسیکرا کے خیال میں، ”یہ ایسا ہی ہو گا، جیسے کوئی عورت پتھر کے زمانے میں اپنی خالی بالٹی لے کر سے شروع ہوئی تھی اور آج تک پانی لے کر گھر نہیں پہنچی۔ سوچیے کہ اس وقت دنیا کتنی ترقی کر چکی ہے، مگر پھر بھی خواتین کو ان مسائل کا سامنا ہے۔

اس کے علاوہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق، پانی جمع کرنے کے لئے طویل فاصلے کا سفر طے کرتے ہوئے خواتین زیادہ صحت کے مسائل اور غذائیت کی کمی کا شکار ہیں۔ بنسبت ان مردوں کے جو ان خواتین کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔

مختلف تحقیقات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں، خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں، در اصل (The International Union for the Conservation of Nature) کے مطابق، خواتین اور بچے آفات کے دوران میں مردوں کے مقابلے میں 14 گنا زیادہ مرتے ہیں۔

اس کی ایک بنیادی وجہ لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کو مہیا کیے جانے والے مواقع میں فرق ہے۔ بہت سارے ممالک میں، خواتین کو گھریلو کام اور بچوں کی دیکھ بھال کے لئے ذمہ دار سمجھا جاتا ہے، جس وجہ سے خواتین کو تعلیم تک رسائی یا سیاسی فیصلہ سازی کے عمل کے لئے مساوی مواقع نہیں دیے جاتے۔ اس کی وجہ سے ہنگامی صورت احوال میں فوری فیصلے کرنے کی ان کی صلاحیت میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ بد قسمتی سے موسمی تبدیلیاں اور آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات کے حوالے سے تمام پروگرام، پالیسیاں خواتین کا خیال اور ان کی شمولیت کے بغیر بنائی جاتی ہیں۔

پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سندھ میں خشک سالی کی وجہ سے، خواتین کو کئی میل دور سے پانی لے جانے کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔ اسی طرح آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے بڑھتی غربت حاملہ خواتین کی صحت کو متاثر کرتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی آفات نے خواتین کے روزگار کے مواقع کو بھی تباہ کر دیا۔

ایک تحقیق جو 2011ء میں دیہی سندھ کے مختلف علاقوں میں کی گئی (اس کا عنوان، آب و ہوا میں تبدیلی اور خواتین) کے مطابق، ”پانی اور لکڑی کی تلاش میں خرچ کرنے والے وقت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ کیوں کہ ضرورت سے زیادہ جنگلات کی کٹائی اور وسائل میں نا گزیر قلت مسائل کا سبب بنی ہے۔“ آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے خاندانوں کو مالی پریشانیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ جس کے سبب عورتوں کے بہت سارے بنیادی حقوق جیسے تعلیم، غذائیت اور صحت متاثر ہوئے۔

اگر تجزیہ کیا جائے تو پاکستان میں گاوؑں کی خواتین کو زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بنسبت شہر کی خواتین سے۔ شہر کی عورت کا کردار اس حوالے سے ہمیں کچھ مختلف اور حوصلہ افزا نظر آتا ہے۔ وہ دیہات کی عورت کے مقابلے میں بہت بہتر ماحول اور قدرے خود مختاری سے زندگی گزارتی ہے، لہٰذا وہ اگر چاہے تو ماحول کی بہتری کے لیے چھوٹے پیمانے ہی پر، لیکن اہم کام کر سکتی ہے۔

اس حوالے سے بہت سے اقدامات ضروری ہیں مثلاً بدلتے موسموں کی مناسبت سے خواتین کی تربیت، مہارت اور وسائل کے استعمال کے حوالے سے ان کے علم میں اضافہ، پالیسی سازی اور فیصلوں میں ان کی شمولیت کو یقینی بنانا، تا کہ فیصلے زمینی حقائق کی بنیادوں پر ہوں، اور ماحولیاتی تبدیلی کے صنفی امتیازی خطرات کو ختم کرنے کے لئے پالیسی سازی، اور عمل در آمد کے مابین پائے جانے والے فرق کو ختم کرنے کی بہت ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).