نواز شریف کا اظہاریہ سیاسی بالغ نظری کا مظہر نہیں


1988ء میں ضیا الحق کے طویل مارشل لا کے بعد جمہوریت بحال ہوئی، تو پاکستان پیپلز پارٹی نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں ملک کی باگ ڈور سنبھالی تھی۔ بلاشبہ پیپلز پارٹی نے نیک نیتی سے عوام کے مسائل حل کرنے کی طرف بھر پور توجہ دی، مگر بیس ماہ بعد حکومت ختم کر دی گئی۔ جمہوری حکومتوں کے بعد 12 اکتوبر 1999ء میں پھر مارشل لا لگا دیا گیا۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کی غیر آئینی حکومت کے بعد، پھر پیپلز پارٹی کو حکومت دی گئی مگر کام نہیں کرنے دیا گیا۔

صدر زرداری روس کا دورہ کرنا چاہتے تھے۔ دورے کا شیڈول عین وقت پر بدل کر یہ پیغام دیا گیا کہ جو ہم چاہیں گے، وہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی 73 سالہ تاریخ داغ دار ہے۔ 16 اکتوبر کو گوجرانوالہ میں نواز شریف نے جو جارحانہ خطاب کیا۔ اس میں نواز شریف کو ماضی میں جرنیلی سیاست کے اپنے سیاسی کردار پر شرمندگی کا اظہار اور قوم سے معافی مانگنے کی بھی ضرورت تھی۔

نواز شریف کے خطاب کو اظہاریہ کی حد تک دیکھا جا سکتا ہے، مگر بیانیہ اور سیاسی حکمت عملی کہنا درست نہیں ہو گا۔ نواز شریف کا خطاب بنیادی طور پر تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق غم و غصے کا اظہار ہے۔ جس میں سیاسی بیانیہ اور سیاسی حکمت عملی اور بالغ نظری کا فقدان ہے۔ سیاسی نظریہ، معاشی نظام، فکری اساس اور تنظیم نواز شریف کی سیاست کبھی نہیں رہی ہے اور آج بھی موصوف نا بلد ہیں۔

بیانیہ مقاصد کے حصول کے لئے تحریر کردہ قواعد و ضوابط اور رہنما اصول ہوتے ہیں۔ جن کی بنیادی پر تحریک پیدا کی جاتی ہے اور بیانیہ سے متفق طبقات تحریک کا حصہ بنتے ہیں۔ بیانیہ کے خالق اور بیانیہ دینے والے دیے گئے بیانیے پر مختلف طریقوں سے دیگر طبقات کو اپنے بیانیہ پر لانے کے لئے جد و جہد کرتے ہیں۔ جلسوں کا بنیادی مقصد بیانیہ کی تصدیق و توثیق کو باور کرانا ہوتا ہے کہ عوام دیے گئے بیانیہ کے ساتھ ہے۔ پاکستان کے عوام اور سیاسی حلقے بخوبی جانتے ہیں کہ مسلم لیگ نون اور اس کے قائد نواز شریف کبھی ان تکلفات میں نہیں پڑے ہیں اور نہ انہیں ایسی باتوں کا کوئی اندازہ ہے۔ شاید پسند بھی نہ ہوں۔

سیاست میں تصادم نہیں، حکمت عملی کارگر ہوتی ہے۔ بیانیہ اور حکمت عملی سے خالی تحریک اور جارحانہ طرز عمل اور خطابات سیاسی تحریک میں تشدد ابھار دیتے ہیں۔ تشدد سیاسی تحریکوں کو تباہ کر دیتا ہے۔ مقاصد سے دور لے جاتا ہے اور خاص کر جمہوری تحریک کے لئے جارحانہ خطاب اور متشدد خیالات کا اظہار اور متصادم رویہ جمہوریت کی نفی ہے۔ جمہوریت محض انتخابی عمل کا نام نہیں ہے بلکہ جمہوری رویوں اور طرزعمل کا نام ہے۔ نواز شریف کو کراچی جلسے سے خطاب کا موقع نہ دے کر سیاسی بصیرت اور عقل مندی کا ثبوت دیا گیا ہے۔ بصورت دیگر جلتی پر مزید تیل ڈالنے والی بات ہوتی اور کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی تھی کہ حالات کیا رخ اختیار کرتے۔ 12 مئی کا سانحہ دہرایا جا سکتا تھا۔

نواز شریف کے متصادم اظہاریہ کے نتائج ملک بھر میں افراتفری اور بے چینی کی صورت میں بر آمد ہوتے اور کارکنوں کی گرفتاریاں ہوتیں، جس کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ راقم کے موقف کو پاکستان کا کوئی با خبر شہری اور سیاسی کارکن چیلنج نہیں کر سکتا کہ نواز شریف اپنی ذات میں جمہوری اور نظریاتی فکر کا حامل سیاسی قائد ہے اور مسلم لیگ نون کوئی سیاسی نظریات کی تربیت یافتہ جماعت ہے۔

نواز شریف کو اتفاقات اور ذاتی مفادات سیاست میں لائے اور آج حالات و واقعات نے متصادم اظہاریے پر کھڑا کر دیا ہے۔ متصادم اظہاریے سے جمہوریت مضبوط ہو گی اور نہ ملک کو استحکام حاصل ہو گا۔ انتشار پیدا ہو گا۔ کارکنوں پر مقدمات درج ہوں گے، گرفتاریاں ہوں گی اور نواز شریف لندن کے ہائیڈ پارک میں چہل قدمی کریں گے اور اپنی صحت کی بہتری کے لئے نہاری، پائے اور لسی ڈکار کر آرام کر رہے ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).