اراؤنڈ دی ورلڈ ان بکس


انسان جب شعور کی آنکھ کھولتا ہے تو وہ خود کو کائنات کا مرکز سمجھتا ہے۔ اس کے قدم اپنی ذات کی داخلیت میں مضبوطی سے جمے ہوتے ہیں۔ اس کی آنکھیں انا کے چشمے سے دنیا کو دیکھتی ہیں۔ پھر اسے دوسروں کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ وہ ارد گرد کی گہما گہمی کا ادراک کرتا ہے۔ وہ کائنات کو ’میں‘ اور ’تو‘ کے استعاروں میں توڑتا ہے۔ اس کی اپنی حیثیت، سوچ اور جذبات مرکزی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ دوسرے کا وجود ثانوی حیثیت رکھتا ہے اور زیب داستان کے لیے ہوتا ہے۔ پھر اس کی ذات کا دائرہ بڑھنے لگتا ہے۔ اس کا گھر، شہر، ملک، یہ کرہء ارض اور اس کا عقیدہ، مرکزی حیثیت کے حامل ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنا فخر اور مان ان سے جوڑ لیتا ہے۔ جو چیز ہماری دسترس میں ہو، وہ حقیقت لگتی ہے اور جو نظروں سے دور ہو وہ افسانہ۔

ایک مدت تک انسان یہی سمجھتا رہا کہ زمین جس کے بطن سے وہ پیدا ہوا ہے، کائنات کے مرکز میں واقع ہے۔ سارے جہانوں کے راستے اسی فرش سے پھوٹتے ہیں۔ ایک سورج اس کے دنوں کو روشن رکھے ہوئے ہے۔ ایک چاند اور دوسرے ستارے اس کی راتوں کو جگمگا رہے ہیں۔ پھر سائنس کا معلم اسے سمجھاتا ہے کہ اس کرے کی حیثیت کائنات میں ایک ذرے سے زیادہ نہیں۔ جو دوسرے سیاروں، ستاروں، اور کہکشاؤں کے ہم راہ کائنات کے نا معلوم مرکز کے گرد گھوم رہا ہے۔

بچپن میں میں یہ سمجھتا تھا کہ ہمارا شہر دنیا کے مرکز پر واقع ہے۔ دوسرے شہروں سے جب رشتے دار ملنے آتے تو سفر کے دورانیے سے تخمینہ لگا کر میں اس شہر کو اپنے شہر کے گرد ایک مدار میں ڈال دیتا تھا۔ پھر درسی کتابوں میں ملک کا نقشہ دیکھا۔ چاروں اطراف ٹیڑھی میڑھی لکیروں کی پیش قدمی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ زمین ایک گیند کے مانند گول ہے۔ مگر ایک کنفیوژن تھی۔ کرہء ارض ملک کی سرحدوں کو چھوتے ہوئے اسی کے اندر موجود ہے یا پھر ملک، کرہء ارض پر کہیں واقع ہے؟ میں نے یہ سوال ایک کزن کے آگے رکھا۔ انہوں نے بڑے اعتماد سے پہلے امکان کو درست قرار دیا۔ میں نے اسے معقول سمجھتے ہوئے تسلیم کر لیا۔

پھر مجھے گھر میں سیاہ رنگ کی ایک کیلنڈر ڈائری ملی۔ اس کے کچھ صفحات پر ٹیلیفون نمبر، مکانوں کے پتے، مختصر یاد داشتیں اور نوٹس لکھے ہوئے تھے۔ بیش تر صفحے خالی تھے۔ کچھ کے بیچ میں رشتہ داروں کے خطوط رکھے ہوئے تھے۔ مگر میری توجہ کا مرکز ڈائری کے اول اور آخر میں موجود دو نقشے تھے۔ پاکستان کا نقشہ اور دنیا کا نقشہ۔ میں نے بہت سا وقت ان نقشوں کے مطالعے میں گزارا۔

مجھے کتابیں پڑھنے کا بچپن سے شوق تھا۔ مطالعے کے درمیان غیر شعوری طور پر ایک اور مشغلے کا آغاز ہوا۔ میں نے کتابوں سے دنیا کے سفر کا آغاز کر دیا۔ یہ مرکز سے دوری کا سفر تھا۔ اپنے آپ سے دوسرے کا سفر۔ حقیقت سے افسانے کا سفر۔

آغاز دنیا بھر کی متفرق معلومات، سات اعجوبوں کا احوال، انسائیکلوپیڈیا کے مضامین اور دنیا کے مشہور شہروں کے سفرنامے پڑھنے سے ہوا۔ ہمارے گھر میں کتابوں کی چھوٹی بڑی بہت سی الماریاں تھیں۔ ایک روز جب میں لوہے کی سبز الماری کی کتابیں کھنگال رہا تھا تو میری نظر ایک پرانی کتاب پر پڑی۔ آج کی ’دوسری‘ کتاب۔ یہ چیک ادیب میلان کنڈیرا کی دریافت تھی۔ چیکو سلواکیہ کو میں دنیا کے نقشے پر پہلے ہی دیکھ چکا تھا۔

میلان کنڈیرا کی کتابوں کے نام بڑے نوسٹیلجک تھے۔ خندہ اور فراموشی کی کتاب اور وجود کی نا قابل برداشت لطافت وغیرہ۔ اپنے ہی ملک میں جب اس کا وجود نا قابل برداشت ہو گیا، تو اس نے فرانس کا رخ کر لیا۔ ماضی کو فراموش کر کے نئے ادب اور کلچر میں ڈھلنے کی کوشش کی۔ لیکن وطن کی یاد اس کے ذہن سے کبھی محو نہ ہوئی۔ وہ بڑی قوموں سے شکوہ کرتا ہے کہ وہ اپنے توسیعی عزائم کی آڑ میں چھوٹی قوموں کو نگلنے کے در پے رہتی ہیں۔ جب کہ چھوٹی اقوام ہی کی بدولت بیش تر ادب، زبان اور فوک کلچر کا عظیم ورثہ جنم لیتا ہے۔

یوں تو کالج کبھی کبھار جانا ہوتا مگر میں نے اس میں چھپی چھوٹی سی لائبریری ڈھونڈ نکالی۔ جرمن ادیب گوئٹے کا نام جانا پہچانا معلوم ہوا اور ایک نوجوان کی داستان غم پڑھ ڈالی۔ انگلش کی درسی کتاب میں امریکی مصنف رے بریڈ بری کی سائنس فکشن پر مبنی شارٹ اسٹوری نے بہت متاثر کیا۔

یونیورسٹی کی لائبریری میں داخل ہوئے تو نظر ترکی کے اورحان پاموک کے مضامین کی کتاب کے ’دوسرے‘ رنگوں پر پڑی۔ موصوف استنبول کی گلیوں میں بوجھل قدموں کے ساتھ اپنی شناخت کی تلاش میں نکلتے ہیں اور بائیس سال کی عمر میں ادیب بننے کا فیصلہ کرتے ہیں۔

جب انٹرنیٹ کی جڑیں، روزمرہ معمولاتِ زندگی میں مضبوط ہوئیں تو ای بکس پڑھنا شروع کر دیں۔ یہ معلوم ہوا کہ ظاہر سے بہت بڑی ایک پوشیدہ دنیا بھی ہے۔ بسیط خلاؤں میں کروڑوں برقی الفاظ بکھرے ہوئے ہیں۔ آپ چاہیں تو کوئی بھی ستارہ توڑ لائیں۔ علم کی کسی بھی کہکشاں پر کمندیں ڈال دیں۔

اب مختلف ملکوں کے نئے نئے نام اور چہرے دریافت ہونے لگے۔ کبھی ہم ہاروکی موراکامی کی رہنمائی میں جاپان کے نفیس، دل کش اور حساس معاشرے کی سیر کرتے ہیں۔ کبھی اسماعیل کاردار کے قلم سے البانیہ کی قدیم روایات کے بارے میں پڑھتے ہیں۔ اور کبھی مصر کا نجیب محفوظ ہمیں عرب دنیا کے روز و شب کا احوال سناتا ہے۔

یہ لفظی سفر اپنے آپ میں طویل ہے، مگر آپ اس سے کبھی تھکتے نہیں۔ ایک دفعہ اس کا آغاز ہو جائے تو یہ کبھی تھمتا نہیں۔ ایک پرندے کے مانند بغیر پاسپورٹ اور ویزے کے آپ سرحدوں پہ سرحدیں پھلانگتے نت نئی زمینوں کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ نئے احوال اور نئی ترکیبیں، نئے حل اور نئی مشکلیں۔ مگر ایک چیز مشترک ہے، ہر جگہ آپ جیسے انسان بستے ہیں۔ جن کی آپ جیسی فکریں، جذبات اور احساسات ہوتے ہیں۔ اگر آپ حقیقت میں ان سے ملیں تو یقیناً وہ بھی آپ کی داستان حیات سن کر بہت خوش ہوں۔

فرحان خالد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

فرحان خالد

فرحان خالد تعلیمی اعتبار سے انجنیئر ہیں. ایک دہائی سے سافٹ ویئر انڈسٹری سے منسلک ہیں. بچپن سے انہیں مصوری، رائٹنگ اور کتابیں پڑھنے کا شوق ہے. ادب اور آرٹ کے شیدائی ہیں.

farhan-khalid has 36 posts and counting.See all posts by farhan-khalid