نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی: برطانوی اخبارات میں اشتہارات شائع کرنے کی وفاق کی درخواست مسترد


پاکستان کی اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے سے متعلق برطانوی اخبارات میں اشتہار شائع کرنے کی وفاق کی درخواست مسترد کر دی ہے۔

عدالت کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر اس اخبار میں اشتہار شائع کروایا جائے جو اشتہاری قرار دیا جانے والا شخص پڑھتا ہو۔

وفاق کی جانب سے سابق وزیر اعظم کو اشتہاری قرار دینے سے متعلق برطانیہ میں شائع ہونے والے دو انگریزی اخباروں ’ٹیلی گراف‘ اور ’گارڈیئن‘ میں اشتہار شائع کروانے کے لیے درخواست دائر کی گئی تھی۔

جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے پیر کے روز سابق وزیر اعظم کو اشتہاری قرار دینے کے عدالتی احکامات پر عمل درآمد کے معاملے کی سماعت کی۔

عدالت کے استفسار پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے بتایا کہ گذشتہ سماعت پر عدالتی احکامات پر عمل درآمد کرتے ہوئے دو پاکستانی اخبارات روزنامہ ڈان اور روزنامہ جنگ کے لندن ایڈیشنز میں سابق وزیر اعظم کو اشتہاری قرار دینے سے متعلق اشتہار شائع کروا دیے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کیا حکومت نواز شریف کو پاکستان واپس لا سکے گی؟

اسلام آباد ہائی کورٹ کا نواز شریف کی طلبی کے لیے اشتہار جاری کرنے کا حکم

نواز شریف کے خلاف اخبارات میں اشتہار شائع کرنے کا حکم: عدالتی فیصلے پرعملدرآمد شروع

اُنھوں نے عدالت میں ان اخبارات کی کاپیاں بھی پیش کیں جن میں میاں نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے سے متعلق اشتہار شائع ہوا ہے۔

واضح رہے کہ عدالت نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو العزیزیہ سٹیل ملز اور ایون فیلڈ ریفرنس میں پیش ہونے کا حکم دے رکھا تھا تاہم بارہا طلب کرنے کے باوجود وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے جس پر پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے اور اس کے بعد اُنھیں اشتہاری قرار دینے کی کارروائی کا آغاز کیا۔

واضح رہے کہ العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں نواز شریف کی ضمانت منسوخ ہو چکی ہے جبکہ حکومت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں ملنے والی ضمانت کی منسوخی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔

عدالت نے گذشتہ سماعت کے دوران وفاقی حکومت کو حکم دیا تھا کہ 19 اکتوبر کو برطانیہ سے شائع ہونے والے دو اخبارات میں میاں نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کے حوالے سے اشتہار شائع کروایا جائے جس میں مجرم کو آخری موقع دیا گیا ہے کہ وہ ان دونوں اپیلوں میں 24 نومبر تک عدالت کے سامنے پیش ہوں۔

اخبار

گذشتہ ہفتے ایڈشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر کی جانب سے حکومتِ پاکستان کے پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کو خط لکھا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ سابق وزیر اعظم کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں دو فوجداری مقدمات میں طلبی کے باوجود مسلسل غیر حاضری پر فوجداری ایکٹ کی دفعہ87 کی کارروائی شروع کی جا چکی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کا حوالہ دیتے ہوئے خط میں ہدایات دی گئیں کہ یہ اشتہار بلیک اینڈ وائٹ جاری کیا جائے اور دونوں اخبارات کے بیک پیج پر کالی سیاہی سے کوارٹر پیج کا اشتہار جاری کیا جائے۔

خط میں کہا گیا کہ اشتہار کے متن میں لکھا جائے کہ نواز شریف عدالتی مفرور ہیں اور بذریعہ اشتہار انھیں پیشی کا آخری موقع دیا جاتا ہے اور سزا یافتہ اپیل کنندہ نواز شریف عدالتی کارروائی کا سامنا کریں۔

آج سماعت کے دوران ایڈشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وفاق کی جانب سے ایک اور درخواست دائر کی گئی ہے جس میں یہ استدعا کی گئی ہے کہ عدالت برطانیہ سے شائع ہونے والے دو برطانوی اخبارات ٹیلی گراف اور گارڈین میں بھی سابق وزیر اعظم کو اشتہاری قرار دینے سے متعلق اشتہار شائع کروانے کی اجازت دے۔

نواز شریف، اسلام آباد ہائی کورٹ

اُنھوں نے کہا کہ اگر عدالت اجازت دے دیتی ہے تو وفاقی حکومت ہی ان اخبارت میں شائع ہونے والے اشتہارات کے اخراجات برداشت کرے گی۔

بینچ کے سربراہ نے ایڈشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا نواز شریف کے خلاف اشتہار کسی انگریزی اخبار میں شائع ہوا ہے، جس پر طارق کھوکھر کا کہنا تھا کہ روزنامہ ڈان کے لندن ایڈیشن میں یہ اشتہار شائع ہوا ہے۔ جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ ضروری نہیں کہ جو اخبار ملزم پڑھتا ہے اسی اخبار میں اشتہار شائع کروایا جائے۔

ایڈشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں گارڈین اور ٹیلی گراف پڑھا جاتا ہے اور وہاں کے اخبارات میں بھی اشتہار شائع ہوتا تو مناسب تھا۔ بینچ میں موجود جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ عدالتی احکامات پر عملدرآمد ہو چکا ہے اور جن اخبارات میں اشتہار شائع ہوئے ان کے لندن ایڈیشن موجود ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ برطانوی اخبارات میں الگ سے اشتہار شائع کروانا لازمی نہیں ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے سابق وزیر اعظم کو وطن واپس لانے کا اعلان کر رکھا ہے تاہم اہم حکومتی شخصیات کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف کو واپس لانا بہت مشکل ہے کیونکہ ایک تو دونوں ملکوں کے درمیان مجرموں کے تبادلے کا کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے۔

اس کے علاوہ ان کے مطابق ایسی صورتحال میں کہ جب دولتِ مشترکہ کا دفتر اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے میاں نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد کروانے پر رضامند نہیں ہے تو ایسے حالات میں سابق وزیر اعظم کو پاکستان کیسے لایا جاسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp