اچھی اور ایماندار زندگی گزارنے کے لیے خود کا مطالعہ کرنے کی اہمیت:


ہم اپنی ساری زندگی ایسی چیزیں حاصل کرنے میں گزار دیتے ہیں جو شاید ہمیں کچھ وقت کی خوشی تو دیتی ہیں، لیکن ہم ان سے دلی سکون کبھی بھی حاصل نہیں کر سکتے۔ کبھی کبھی تو ان چیزوں کو حاصل کرنے میں، ہم اپنوں سے دور چلے جاتے ہیں۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب وہ چیزیں ہم سے واپس لے لی جاتی ہیں، تو ہم اپنوں کو یاد کرتے ہیں۔ تب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ آج کل پوری قوم جس مشکل وقت سے گزر رہی ہے، جہاں ہر دوسرے دن کئی لوگ اس دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں اور وہ بھی ایسے کہ ان کے گھر والے آخری وقت میں ان کا ہاتھ بھی نہیں تھام سکتے، تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔

ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر کئی سال اپنوں سے بات کرنا بند کر دیتے ہیں۔ دلوں میں بغض رکھتے ہیں اور پھر وقت بھی نہیں ملتا اور سارے گلے شکوے سمیت قبر میں دفنا دیے جاتے ہیں۔ مجھے کبھی موت سے ڈر نہیں لگا، کیوں کہ مجھے لگتا تھا کہ ہم سب یہاں آئے ہی واپس جانے کے لیے ہیں۔ آج جب میں لوگوں کو ایسا جاتا دیکھتی ہوں، تو میرا دل کانپ اٹھتا ہے اور سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہوں کہ میں نے کتنی بار خوشی کے موقعوں پر نا شکری کی ہے۔ آج ہم ان لمحوں کو دوبارہ جینے کے لیے ترستے ہیں مگر کرونا نے ہم سب کو گھر بند کر رکھا ہے۔ اس لیے آج کل کے حالات میں ایک دوسرے کا سہارا بنیں۔ اپنے گھر والوں اور دوستوں کا خیال رکھیں۔ خیریت دریافت کرتے رہیں کیوں کہ زندگی بہت مختصر ہے اور ہم اس کو ایسے گزارتے ہیں، جیسے ہمیں یہاں ہمیشہ کے لیے رہنا ہو۔

کبھی سوچا ہے کہ جب تمہارا وقت قریب آ جائے گا اور تمہارے پاس تمہاری غلطیاں سدھارنے کا وقت نہیں ہو گا تو کیا کرو گے؟ کس منہ سے اللہ کے سامنے جاؤ گے؟ کیا جواب دو گے؟ نہیں سوچا نا تو اب سوچو، سوچو کیسے تم اللہ کو راضی کرو گے؟ کیسے اس کے پسندیدہ بندوں میں شامل ہو گے؟ کیسے ثابت کرو گے کہ تم اس کی محبت کے مستحق ہو؟ یہ نہ کہنا کہ تم نہیں جانتے کیوں کہ تم سب جانتے ہو پر کرتے نہیں ہو۔ تمہیں معلوم ہے کہ نماز ہماری زندگی میں کتنی اہمیت رکھتی ہے پر تم کیا کرتے ہو؟

سستی کے باعث نماز نہیں پڑھتے یا تو پھر اس قدر کام میں گم ہو جاتے ہو کہ نماز کا وقت گزر جاتا ہے پر یاد رکھو کہ اگر تم اس طرح کر کے نماز سے دور ہوتے جاؤ گے تو اللہ بھی تم سے دوری اختیار کر لے گا اور افسوس یہ کہ تم شکوہ بھی نہ کر سکو گے کیوں کہ یہ تمہاری ہی لاپرواہی کا نتیجہ ہو گا۔ بے سکونی سا عالم ہوگا ہر طرف اور تم سوچتے رہے جاؤ گے کہ تم کیسے اس سے نکلو پر تب بہت دیر ہو چکی ہوگی۔

دوسرا تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ دوسروں کو جو تکلیف پہنچاتا ہے وہ کبھی خود بھی خوش نہیں رہ پاتا۔ اس کے اندر ایک بے چینی سی لگی رہتی ہے اور وہ اس کو یہ کہہ کر اگر خود کو تسلی دینا چاہے کہ میں نے فلاں شخص کو جان بوجھ کر دکھ نہیں دیا بلکہ یہ میری مجبوری تھی اور ویسے بھی میں نے تو اس سے معافی مانگ لی ہے اور اس نے مجھے معاف بھی کر دیا ہے تو جناب آپ خود کو تسلی نہیں دے رہے ہوتے بلکہ خود کو بے وقوف بنا رہے ہوتے ہیں۔

اور یاد رکھیے ایسے آپ کبھی خوش نہیں رہ سکتے اور جہاں تک اس شخص کی آپ کو معاف کر دینے کی بات ہے تو یہ اس کا بڑا پن ہے، اس کی آپ کے لیے محبت ہے اور آپ سمجھ رہے ہیں کہ آپ کامیاب ہو گئے ہیں۔ انسان تو معاف کر دے گا، کیوں کہ اس کو تمہاری نیت کا نہیں پتا پر اللہ تمہاری نیتوں سے واقف ہے اس لیے یہ نہ سمجھنا کہ تم بچ جاؤ گئے، بلکہ یاد رکھنا اللہ اس کے صبر کو ضائع نہیں ہونے دے گا۔ وہ شخص تو اللہ کا فیصلہ سمجھ کر راضی ہو جائے گا پر تمہارا ضمیر تم کو خوش نہیں رہنے دے گا۔

اس زندگی کو اچھے سے اور ایمان داری سے گزار لو اور دوسروں کے لیے بھی آسانیاں پیدا کرو، اس سے نا صرف تمہیں خوشی ملے گی، بلکہ اللہ کے نزدیک تمہارا مقام و مرتبہ اور بڑھ جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).