لاقانونیت کی بڑی وجہ ہماری اپنی لا علمی


پاکستان کے باعث کروڑ عوام لا قانونیت اور حکومتی اداروں کی نا اہلی اور بری کارکردگی کی شکایت کرتے ہیں اور اس کی مختلف وجوہ بات بتائی جاتی ہیں۔ مگر میرے نزدیک جتنی وجوہ ہیں، وہ ثانوی اہمیت کی حامل ہیں۔ ان تمام مسائل کی بنیادی وجہ، عوام کی لا شعوری و لا علمی ہے۔ قانون اس وقت مضبوط ہوتا ہے، جب اسے استعمال کیا جاتا ہے، یعنی آپ کو آپ کا حق اس وقت ملتا ہے، جب آپ اپنے حق کے لئے تردد کرتے ہیں اور قانونی راستہ اختیار کرتے ہیں۔

ہمیں امریکا اور برطانیہ کے مضبوط نظام انصاف اور قانون کی حکمرانی کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ وہاں قانون کی حکمرانی کی وجہ کوئی ہے، تو وہ یہ ہے کہ عوام اپنے حقوق اور فرائض سے بخوبی آگاہ ہیں۔ وہاں کوئی ادارہ اور کوئی فرد اگر آپ نے دائرہ اختیار سے تجاوز کرتا ہے، تو اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جاتی ہے۔

یہاں محض ایک ادارے کی مثال دیتا ہوں اور جس کے حوالے سے سب سے زیادہ غلط فہمی اور اور بد گمانی پائی جاتی ہے اور وہ محکمہ پولیس ہے۔ ہم سب یہ شکوہ کرتے ہیں کہ پولیس نا جائز مقدمات درج کرتی ہے۔ بے وجہ لوگوں کو اٹھا لیتی ہے یا معصوم انسانوں پر تشدد وغیرہ کرتی ہے۔

برطانیہ میں اگر پولیس کسی کے دروازے پر جائے، تو لوگ آگے سے دروازہ بند کر لیتے ہیں، مگر پاکستان میں اگر ایسا ہو جائے تو لوگوں کی ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہی نہیں ہمارے کیا قانونی حقوق ہیں۔ اور یہ کہ ہم پر کون سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور ہمیں کس حد تک قانونی تحفظ حاصل ہے۔ ہم نے کبھی یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی، کہ پولیس اگر کسی شہری سے کچھ پوچھنا چاہے، تو کس بنیاد پر پوچھ سکتی ہے۔ وہ کون سا قانونی طریقہ کار ہے، جس کے بعد پولیس کسی شخص کو تھانے لے جا سکتی ہے اور وہ کون سے قانونی کاغذات ہیں، جو پولیس ایسا کرنے سے پہلے ضرور دکھائے گی۔ اس کے علاوہ اگر آپ کے ساتھ زبر دستی کی جائے، تو آپ کون کون سے قانونی محاذ پر اپنا مقدمہ لڑ سکتے ہیں۔ وہ کون سے آرٹیکل اور ضابطے ہیں، جن کی مدد سے آپ اپنے ساتھ کی جانے والی زیادتی کا بدلہ لے سکتے ہیں۔

ہمارے قانون میں یہ تمام چیزیں موجود ہیں۔ ایک ہتک عزت کا دعویٰ ہے، جو اس صورت میں کر سکتے ہیں، اگر آپ کے ساتھ کوئی زیادتی کی جائے۔ سیکشن 156 کے تحت پولیس کا کسی بھی شخص پر تشدد کرنا جرم ہے۔ میں اس کالم میں قانونی پیچیدگیوں کے ساتھ ان تمام ضابطوں کی وضاحت نہیں کر سکتا، اس کے لئے الگ کالم لکھنا پڑے گا۔ یہاں میرا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ قانون میں یہ سب چیزیں موجود ہیں، جو آپ کو مکمل تحفظ فراہم کرتی ہیں۔

یہاں مصیبت یہ ہے کہ اپنی لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے ہم پولیس والوں کی زیادتی برداشت کر لیتے ہیں اور اگر پیسے دے دلا کر جان چھوٹ جائے، تو شکر ادا کرتے ہیں۔ حالاں کہ یہ اپنے ساتھ ظلم ہے اور اپنی آنے والی نسلوں کے ساتھ بھی ظلم ہے کہ ہم نے اپنے حق کے لیے تردد کرنا خود سیکھا اور نہ ان کو سکھا رہے ہیں۔

اسی طرح ہم اداروں میں کرپشن کا رونا روتے ہیں مگر اس میں بھی بڑی حد تک ہمارا اپنا قصور ہے۔ وہ اس لئے کہ ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ جتنے بھی اخراجات عوام کے پیسے سے کیے جاتے ہیں، عوام کے پاس حق ہے کہ ان کا حساب لے سکے۔ اس کو رائٹ آف انفارمیشن ایکٹ کہتے ہیں اور یہ قانون موجود ہے۔ اگر وزیر اعظم نے ایک سرکاری دورہ کیا، تو آپ یہ معلومات لے سکتے ہیں کہ سرکاری طور پر کتنا خرچ ہوا۔ اسی طرح جتنی بھی پبلک منی سپینڈنگ ہے، اس کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔

آپ ایمانداری سے میرے سوال کا جواب دیں اور اپنے دوستوں سے بھی پوچھیں کہ کیا آپ کو قوانین معلوم ہیں اور یہ کہ ان کو کیسے استعمال کرتے ہیں؟ نوے فی صد سے زائد کا جواب یقیناً نہیں میں ہو گا۔

جناب عالی! آپ جب اپنے پیسے کے استعمال کے بارے میں جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے، آپ کو جب یہ معلوم ہی نہیں کہ میرا پیسہ کہاں خرچ ہو رہا ہے اور کیسے خرچ ہو رہا ہے، تو پھر آپ کرپشن کا رونا کیوں روتے ہیں؟ آپ ہر روز یہ ماتم کرتے ہیں کہ عوام کی رقم لوٹ لی جاتی ہے لیکن کیا آپ نے کبھی اپنے قانونی حق استعمال کرتے ہوئے اپنے پیسے کا حساب رکھنے کی کوشش کی ہے؟ کیا آپ نے کبھی اپنے رقم کے استعمال کے بارے میں پوچھا ہے؟ بائیس میں سے بیس کروڑ لوگ تو جانتے ہی نہیں کہ ہمارے پاس یہ پوچھنے کا حق ہے کہ ہمارا پیسہ کہاں استعمال ہو رہا ہے۔

اب ذرا تصور کریں کہ اگر ہر فرد، سرکاری معاملات کے بارے میں جانچ پڑتال کر رہا ہو، ہر شخص اپنے اس حق کو استعمال کرتے ہوئے اپنے پیسوں کا حساب کرے تو جو لوگ اندھا دھند پیسہ غبن کرتے ہیں، ان کے لئے غبن کرنا کتنا مشکل ہو جائے۔

امریکا اور برطانیہ میں اگر قانون کی حکمرانی ہے، تو صرف اس لئے کہ وہاں عوام ان تمام قوانین سے بخوبی آگاہ ہیں اور وہ اس کو استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے جتنے بھی سرکاری ادارے ہیں وہ ذمہ داری سے اپنا کام کرتے ہیں۔ ایک ہتک عزت اور دوسرا رائٹ آف انفارمیشن ایکٹ، صرف ان دو کا بتا کر میں واضح کرنا چاہتا ہوں، کہ ہماری قانون کے معاملے میں حد درجہ لاعلمی ہی ہماری ذلالت کا باعث ہے۔

اسی طرح جتنے بھی سرکاری معاملات ہیں جیسے کہ سول ایڈمنسٹریشن، ضلع کچہری، تحصیل آفس، خواہ وہ زمین کے معاملات ہوں، لین دین کے معاملات ہوں یا کسی بھی قسم کے سول ایڈمنسٹریشن کے معاملات، ان میں جہاں کہیں بھی ہم جتنے بھی مسائل پیش آتے ہیں، ان کے لئے قانون میں مخصوص دفعات موجود ہیں، اور ان کے حل کے لیے مخصوص فورم موجود ہیں، مخصوص عدالتیں ہیں، اور عدالتوں کے اندر مخصوص بینچ ہیں۔

المیہ ہے ہے کہ ہمیں نا تو یہ معلوم ہے کہ کسی مسئلے کی صورت ہمارے پاس کون سا قانونی راستہ ہے اور ہم نے کس فورم پر جانا ہے اور اس سے بھی بڑی مصیبت یہ ہے کہ ہم اتنے کمزور ہیں کہ اپنے حق کے لئے بھی ذرا سا تردد نہیں کرتے اور اس لیے پولیس والے کسی غلط شخص کو اٹھا کر لے جاتے ہیں، پھر اپنی مرضی سے چھوڑ دیتے ہیں اور جس کے ساتھ ظلم ہوتا ہے وہ مزید خود پہ ظلم کرتا ہے کہ اپنے حق کے لیے آواز نہیں اٹھاتا اور چپ چاپ گھر بیٹھ رہتا ہے۔

ہمارے لیے کوئی چاند سے نہیں اترے گا اور کوئی انقلاب نہیں آئے گا، اس وقت تک جب تک ہم خود اپنے حقوق و فرائض کے بارے میں آگاہی حاصل نہیں کریں گے۔ اپنے حق کے لیے خود آواز نہیں اٹھائیں گے۔ جب تک ہم اپنے آپ کو باشعور نہیں کریں گے، تب تک ہمارے پاس ایک ہی آپشن ہے اور وہ یہ کہ ہمیشہ لا قانونیت پھیلے گی، اور ہم انتظامی کرپشن کا رونا روتے رہیں گے۔ قدرت ہم پر مہربان نہ ہو گی، کیوں کہ قدرت کا قانون ہے، کہ وہ ہمیشہ علم والوں اور عقل والوں کا ساتھ دیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).