سائنس کی دنیا سے


1۔ محققین کے مطابق موڈرنا کمپنی کی کورونا وائرس کے خلاف ویکسین کے استعمال سے بزرگوں میں وائرس کو نیوٹرلائز کرنے والی اینٹی باڈیز کے بننے کی مقدار، جوانوں میں بننے والی اینٹی باڈیز کے تقریباً برابر ہے اور اس کے مضر اثرات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ نیو انگلینڈ جرنل آف سائنس میں شائع ہونے والی یہ تحقیق دفاعی طور پر کمزور اور کورونا وائرس کی پیچیدگیوں کے ممکنہ شکار بزرگ افراد میں ویکسین سے وائرس کے خلاف حفاظت کی مکمل تصویر پیش کرتی ہے۔ یاد رہے کہ یہ ویکسین پہلے ہی سے فیز تھری ٹرائل میں ٹیسٹ کی جا رہی ہے۔

2۔ انسانی جینوم میں موجود نینڈرتھال کے جینز کورونا وائرس کی سنگین علامات کے ذمہ دار ہو سکتے ہیں۔

ہر گزرتے دن کے ساتھ کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والی بیماری اور مختلف لوگوں میں علامات کی سنگینی کے متعلق نت نئے انکشافات ہو رہے ہیں۔ سائنسدانوں کو یہ تو معلوم تھا کہ بڑھتی عمر، پہلے سے موجود بیماریاں اور انسان کی جینیاتی ساخت اس فرق کی ذمہ دار ہے۔ تاہم اب نیچر میں شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق نے یہ ظاہر کیا ہے کہ انسان کے جینوم میں موجود نینڈرتھال اجداد کے لاکھوں سال پرانے جینز کووڈ نائنٹین کی سنگین پیچیدگیوں کے ذمہ دار ہیں۔

3۔ یونانی ادب میں ٹروجن ہارس کی اصطلاح سے ہم سب واقف ہیں۔ سائنس دانوں نے اب جسم میں بڑھتے ہوئے کینسر کے خلیات کو دھوکا دینے کے لیے اسی طریقے سے کام لیا ہے۔ نینو ذرات کو کینسر کے خلیات کے لیے اہم ایک امائنو ایسڈ ”فینائل ایلانین“ میں ڈھانپ کر جب کینسر زدہ چوہوں میں استعمال کیا گیا تو کینسر کے خلیات نے ان نینو ذرات کو امائنو ایسڈ سمجھ کر جذب کر لیا جنہوں نے ان خلیات اور ٹیومر کی بڑھوتری روک دی۔ یاد رہے کہ کینسر کے علاج میں اکثر خوراک میں مخصوص پروٹین اور نشاستے کی کمی اور کبھی کبھار فاقہ کشی کا مشورہ دیا جاتا ہے تا کہ کینسر کے بڑھتے ہوئے خلیات کو غذا نہ ملے۔ تاہم یہ طریقہ پہلے سے غذائی کمی کا شکار افراد کے لیے کچھ کارگر ثابت نہیں ہوتا تھا۔

4۔ نیچر فزکس میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق نیلز بوہر انسٹیٹیوٹ، کوپن ہیگن یونیورسٹی کے ریسرچر دو انتہائی مختلف کوانٹم ذرات کو آپس میں الجھانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ یاد رہے کہ ایسا الجھاؤ کوانٹم حساسیت اور اتصال کی بنیاد ہوتا ہے، جس کی وجہ سے دو مختلف ذرات واحد کوانٹم ذرے کی طرح برتاو کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس طرز کے الجھاؤ سے کوانٹم حساسیت اور اتصال کے استعمال کے نئے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔

5۔ سائنسدانوں نے پلاسٹک کھانے والے بیکٹیریا سے ایک انتہائی طاقتور خامرہ اخذ کیا ہے، جو پلاسٹک کی بوتلوں کو چھے گناہ تیزی سے تباہ کر سکتا ہے۔ سائنسدانوں کے خیال میں کچھ ضروری تبدیلیوں کے بعد یہ خامرہ مصنوعی ریشے سے بنے لباس کی ریسائکلنگ میں بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ پلاسٹک کا کچرا اور مصنوعی ریشے سے بنی چیزیں کرہ ارض کی آلودگی کا بہت بڑا سبب ہیں۔

6۔ سائنسدان ہمیشہ سے وائرس کو بطور خوراک استعمال کرنے والی خرد حیاتیات کی تلاش میں رہے ہیں۔ توانائی پیدا کرنے کے لیے کاربن کا استعمال ہر جاندار کی بنیادی ضرورت ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ خورد بینی جاندار خوراک کی زنجیر کا بنیادی حصہ اور گلے سڑے حیاتیاتی مادے کی پروسیسنگ کے ذمہ دار ہیں۔ اس زنجیر کے آخری سرے پر موجود بیکٹیریا تک کو کھانے والے وائرس ”بیکٹیریو فیج“ دریافت ہو چکے ہیں لیکن خود وائرس پر زندہ رہنے والی خرد حیاتیات آج تک دریافت نہیں ہو سکی تھی۔ تاہم اب سائنسدانوں کو دو ایسے فیج وائرس ملے ہیں، جن میں بیکٹیریا کا کوئی جینیاتی جز نہیں پایا گیا، جس نے سائنسدانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ ممکنہ طور پر یہ نئے ”وائرو فیجز“ اپنی زندگی کے لیے دوسرے وائرسز پر انحصار کرتے ہیں۔

7۔ ٹائم ٹریول کا تصور، انسان کو ہمیشہ سے لبھاتا آیا ہے۔ ماضی میں سفر کر کے اس وقت برپا ہوئے واقعات کو تبدیل کرنے کی خواہش انسان کے دل میں ہمیشہ سے رہی ہے۔ مثلاً یہ خواہش کہ ماضی میں سفر کر کے کورونا وائرس کے پہلے مریض کو وائرس لگنے سے روکا جا سکے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ آئن سٹائن کی تھیوری آف ریلیٹیویٹی کے مطابق ایسی تبدیلیاں اگر ممکن ہو بھی جائیں تو وقت کے اس چکر کے مجموعی نتیجے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ حال ہی میں شائع ہونے والی دو علیحدہ علیحدہ تحقیقات نے یہ ظاہر کیا ہے کہ ماضی میں برپا ہونے والے واقعات میں تبدیلیاں اگر ممکن بھی ہوں تو مستقبل کے نتیجے میں بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا۔

8۔ خون میں سیسے کی انتہائی قلیل مقدار بھی دماغ کے لیے خطرناک ہے۔

پیور ارتھ اور یونیسف کی ایک مشترک تحقیق نے یہ خطرناک انکشاف کیا ہے کہ 80 کروڑ بچوں کے خون میں سیسے کی مقدار تشویش ناک حد تک زیادہ ہے، جو ان میں مستقل دماغی معذوری کا باعث بن سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا میں یہ خطرہ سب سے زیادہ ہے، جہاں سیسے کی آلودگی پر حکومتوں کی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان معاشروں میں سیسے کی آلودگی کے بڑے اسباب میں صنعتی استعمال کے علاوہ بیٹریوں، پیٹرول، پائپوں، پینٹس، میک اپ اور کھلونوں میں سیسے کا بے دریغ استعمال اور اس کی مناسب تلفی کے نظام کی عدم موجودگی شامل ہے۔

9۔ ماہرین فلکیات نے مریخ کی برفیلی سطح کے نیچے 75 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلی پانی کی جھیلوں کا سراغ لگایا ہے۔

10۔ ماہرین فلکیات کے خیال میں 4 ارب سال پہلے شہابیوں کے ٹکراؤ کی وجہ سے زمین کے ماحول کا ساٹھ فی صد حصہ خلا میں پھیل گیا، جو رفتہ رفتہ سکڑ کر چاند کی پیدائش کا سبب بن گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).