گزشتہ چند برس میں آس پاس کیا ہوا؟


ہم آج اپنے پیارے وطن کی عافیت میں زندگی گزارتے ہوئے، شاید ان واقعات کو اور ان کے عوام پر پڑنے والے دور رس اقدامات کو محسوس تک نہیں کر سکتے، جیسے سردیوں کی دھوپ کچھ سستی سی طاری کر دیتی ہے اور انسان کچھ سوچنے اور کسی بھی معاملے پر غور و فکر کرنے سے احتراز کرنے لگتا ہے، لیکن جس طرح فیض بھی کہہ اٹھے تھے کہ ”لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے“ تو اپنے آس پاس کی دنیا کے ممالک میں رو نما ہونے والے کچھ اہم واقعات، واقعی اس قابل ہیں کہ کم از کم کسی کہانی کی طرح ہی ان سے باخبر رہا جائے۔

ایسے اہم واقعات، جن میں سے کچھ کا نتیجہ ان ممالک اور ان کے عوام کے لیے انتہائی خوش گوار نکلا اور بعد از بسیار خرابی، بلآخر وہ اقوام ان کو لاحق ان دیرینہ بحرانوں سے جان چھڑانے اور ان کو درست کرنے میں کامیاب ہو گئیں، اور باقی دنیا کے ساتھ ترقی کے سفر کا آغاز کر دیا، لیکن کچھ ممالک میں ان کوششوں کے انتہائی افسوسناک اور درد ناک نتائج نکلے، جن کے بھیانک سائے، ان ممالک کے عوام کی زندگیوں پر آج بھی دکھائی دیے جاتے ہیں۔

جیسے الجزائر میں ہوا، اور جیسے آج مصر جیسے ”سویلائزڈ“ اور مہذب اور ہزاروں برس کی شاندار تہذیب رکھنے والے ملک میں ہو رہا ہے۔ وہاں انور سادات کے دور کی اسرائیل کے خلاف صحرائے سینا کی جنگ رمضان میں شکست کے نفسیاتی اثرات پوری شدت سے آج تک موجود ہیں، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس جنگ کے نتائج نے وہاں کی مقتدرہ کی سوچ ہی مستقل طور پر تبدیل کر دی تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ اب وہاں مقتدر اور طاقتور حلقوں میں یہ سوچ پختہ ہو چکی ہے کہ فوج کو امریکا کی سرپرستی والے اسرائیل سے شدید خطرہ ہے، جس کا حربی طور پر مقابلہ کرنا ممکن نہیں رہا۔ لہذا وہاں کا مسئلہ بھی یہی ہے، کیوں کہ وہاں بھی وہاں کی سویلین قیادت یہ خطرہ سمجھنے سے قاصر رہے ہیں، یا کم از کم مقتدرہ کی طرف سے ایسا ہی سمجھا جا رہا ہے۔

لہذا وہاں بھی ملکی مفاد اور قانون آمنے سامنے آ گئے تھے، تب جنرل سیسی نے وہاں ”ملکی مفاد“ ہی کو ترجیح دی، اور کار مملکت اور اس کے تقاضوں سے ”نا آشنا“ عوام کے منتخب شدہ وزیر اعظم کو پنجرے میں ڈال کر اس پر مقدمات چلائے گئے، اور جب کچھ اور کوئی جرم ثابت نہ ہو سکا تو ”قومی مفاد“ میں اس کو قید کے دوران میں ہلاک کر کے وہاں کے ”ملکی مفاد“ کی قانون کے مقابلے میں حفاظت کی گئی۔ یہ کہانی یہاں بھی دہرائی جا سکتی تھی، لیکن نواز شریف ملک سے باہر چلا گئے، ورنہ مسئلہ ہی نہ تھا۔

در اصل اب قومی مفاد، اتنا گمبھیر مسئلہ بن چکا ہے کہ اس کو سمجھنا یا اس کا احاطہ کرنا سویلین تو سویلین، ہمارے باوردی مجاہدوں کے لیے بھی ممکن نہیں رہا۔ لہذا اس قومی مفاد کی بہتر، درست اور ”کار آمد“ تشریح مصر ہی کی طرح امریکیوں سے کروائی جاتی ہے۔ اس میں دوسرا فائدہ یہ بھی ہے کہ اس قومی مفاد کی امریکی تفہیم کے نتیجے میں جھونگے میں سات خون بھی معاف ہو جاتے ہیں۔ یہ تو نواز شریف زیادہ ہوشیار نکلے اور ملک سے بھاگ گئے، ورنہ نیازی صاحب تو منہ پر ہاتھ پھیر پھیر کر ان کو واپس لا کر مصر ہی کے مقتول وزیر اعظم جیسا مزہ چکھانے کی دھمکیاں دیتے دکھائی دیے۔

بنگلا دیش میں بھی اگر حسینہ واجد ملک میں ہوتی تو جنرل ضیا الرحمٰن کے گیارہ سالہ دور اور جنرل حسین محمد ارشاد کے دس سالہ دور ہی میں اس کا بھی حساب اس کے باپ کی طرح بے باق کر دیا جاتا، لیکن وہ ہتھے نہیں چڑھی، اور جب آئی تو دنیا نے دیکھا کہ قابض کس طرح جہازوں سے لٹک لٹک کر فرار ہوئے، جن کو اور ان کے مدد گاروں کو، آج باری باری دنیا بھر سے پکڑ پکڑ کر لایا جا رہا ہے اور مقدمے چلا کر سزائیں دی جا رہی ہیں۔ اس طرح وہ بنگلا دیش جو عملی اور زمینی طور پر کیچڑ کا ایک ڈھیر ہے، جو پورے ایشیا میں غریب ترین ملک تھا، آج ہم سے بھی کئی گنا آگے نکل چکا ہے۔ اس کے زر مبادلہ کے ذخائر پچاس ارب ڈالر کو چھو رہے ہیں اور دنیا بھر میں وہ تیز ترین ترقی کی ایک روشن مثال بن چکا ہے اور اس کے عوام ترقی اور خوش حالی کی منزل کی طرف تیزی سے گامزن ہیں۔

اسی طرح ایران کا امام خمینی اگر شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کی ”ساواک“ کے ہتھے چڑھ جاتا، اور فرانس میں پناہ نہ لے لیتا تو ایران آج بھی ایشیا میں امریکا کا پولیس مین بنا ہوا ہوتا۔ ترکی کی مثال کا ذکر بھی ضروری ہے۔ وہاں طاقتور اور مسلح مقتدرہ نے امریکی مفادات کے محافظ کا ہمیشہ کردار ادا کیا۔ وہاں عوام کے منتخب تین وزیر اعظموں کو مختلف ادوار میں پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ اردگان بھی ان کی بالواسطہ مدد سے ہی اقتدار میں آیا، لیکن اس کو بھی بعد میں بھٹو اور نواز شریف والی بیماری لگ گئی، تو اچانک ایک شام گن شپ ہیلی کوپٹر ہواؤں میں نمودار ہو کر عوام پر گولیاں برسانے لگے، اور سڑکوں پر ٹینک اور آرمڈ کاریں برسٹ فائر کرتے ہوئے نمودار ہو گئیں۔

تمام میڈیا سٹیشنوں کو وہاں بھی ”ففتھ وار فیئر“ کے ہتھیاروں کی مدد سے خاموش اور جام کر دیا گیا، لیکن یہاں تھوڑی غلطی یہ ہو گئی، کہ سوشل میڈیا کی طرف ففتھ وار فیئر کو کنٹرول کرنے والوں کی توجہ نہ گئی یا ان کا اس بین الاقوامی سہولت پر بس نہ چلا، تو اردگان نے عوام سے سوشل میڈیا کے ذریعے خطاب کر لیا۔ عوام سڑکوں پر نکل آئے اور ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے۔ چند ہلاک بھی ہوئے لیکن ایکٹو فارمیشن یہ دباو برداشت نہ کر سکیں اور اپنے ٹینک وہیں سڑکوں پر کھلے چھوڑ کر، اور اپنی وردیاں اور ہتھیار وہیں چھوڑ کر عوام میں گھل مل گئے۔

ان فارمیشن سے رابطے میں جو گن شپ ہیلی کوپٹر تھے انہوں نے بھی سڑکوں پر لینڈ کیا اور وردیاں اتار کر فرار ہو گئے۔ اب حکومت کی طرف سے بغاوت کرنے والے اور ان کے مدد گاروں کے خلاف ”قانونی“ کارروائی ”(ملک کے مفاد میں“) شروع کی گئی اور ایک سو پچانوے جرنیلوں اور کئی سو سینئیر فوجی افسران کو ان کے گلے کے پیچھے ان کے ہاتھ باندھ کر گرفتار کر لیا گیا۔ اور اب ترک افواج پیشہ ورانہ طور پر پہلے سے زیادہ مضبوط ہو چکی ہیں۔

آپ قارئین، خلاف روایت، انتہائی وسیع القلبی کا ثبوت دیتے ہوئے مجھے انٹ شنٹ بولنے، لکھنے کی خاصی آزادی بھی دے دیتے ہیں، تو کچھ حالیہ چند سالوں میں رو نما ہوئے، ملتے جلتے ”ایسے ہی“ واقعات کا ذکر چھیڑ دیا، تا کہ شاید کوئی یہاں بھی ”پاکستان کے مفاد“ میں یہ یا ایسی نوبت آنے سے پہلے قانون اور آئین کی پناہ لے کر خود کو، ملک کے عوام کو اور پاکستان کو کسی آزمائش سے محفوظ رکھ سکیں۔ پولیٹیکل سائنس کا معروف کلیہ ہے کہ جب آپ ایسا محسوس کریں کہ قانون اور ملکی مفاد آمنے سامنے آ گئے ہیں تو سمجھ لیں کہ آپ یہاں ”ملکی مفاد“ کی تشریح درست نہیں کر رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).