جزائر کی تعمیر، کراچی کی تباہی


عالمی بینک کی جاری کردہ رپورٹ ”کلائمیٹ چینج پروفائل آف پاکستان“ میں کراچی کو موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے پاکستان کے خطرناک شہروں میں پہلے نمبر پر رکھا گیا ہے۔ ملک کی 1040 کلو میٹر پر پھیلی ہوئی ساحلی پٹی اور جزائر کے باسیوں کا گزرے کل سے لے کر آج تک کوئی پر سان حال تھا اور نہ ہے۔ ان باسیوں کی اکثریت ماہی گیری کے پیشے سے وابستہ ہے، لیکن اپنی آنکھوں میں بہتر زندگی کے خواب سجائے یہ لوگ اس امید پر ہر وفاقی، صوبائی اور بلدیاتی انتخابات میں ووٹ ضرور ڈالتے ہیں کہ شاید ان کے حالات زندگی تبدیل ہو جائیں، لیکن ان کی زندگیوں میں تا حال کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو سکی۔ تا ہم، ان کی تعلیم، صحت اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے کام کرنے والوں کی غالب اکثریت کی زندگیاں ضرور تبدیل ہو چکی ہیں۔

ملک کے سب سے بڑے ساحلی شہر کراچی اور اس سے ملحق جزائر کو موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں سے لاحق خطرات کے بارے میں اس شہر کے چند درجن لوگوں کے علاوہ کسی کو یہ علم ہی نہیں ہے کہ جزیرہ بنڈل ابراہیم حیدری سے صرف 4 کلو میٹر اور ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی سے 2 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ جب کہ ڈنگی جزیرہ بنڈل سے 2 کلو میٹر کی دوری پر ہے۔ چاروں طرف سے بلند ہونے والی آوازوں سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ جزائر کسی کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں اور کوئی قبضہ کی کوششوں میں مصروف ہے۔

حقیقت مگر اس کے بر عکس ہے یہ جزائر حکومتوں کے نہیں، بلکہ ساحلی باسیوں کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ جیسے کراچی کے مکینوں کی سب سے بڑی تفریح گاہ ساحل سمندر کی مفت سیر محدود ہوتی جا رہی ہے، جو بالآخر ختم ہو جائے گی اور شہر کے باسیوں کو سمندر کی سیر کے لیے ٹکٹ خریدنا ہوں گے۔ جزائر پر شہروں کی تعمیر کے نام پر بھی یہی سب کچھ ہونے جا رہا ہے۔ ماہی گیروں کا روزگار غیر محسوس طریقے سے ختم کرتے کرتے آخری دھکا، ڈیپ سی فشنگ ٹرالر کے ذریعے پورا کر دیا گیا ہے اور اب کراچی سے ملحق ان جزائر پر جدید شہر کی تعمیر کا معاملہ بالآخر تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کے مترادف ہو گا۔

جزائر پر تعمیر کا معاملہ چند دنوں، مہینوں یا چند سالوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس مسئلے کو شروع ہوئے دو دہائیاں گزر چکی ہیں۔ وقتی طور پر رکنے کے بعد یہ مسئلہ پھر سر اٹھانے لگتا ہے۔ حکومتوں کی بات تو چھوڑ دیں ان کے اپنے اپنے مخصوص سیاسی مقاصد ہوتے ہیں۔ سوال مگر یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماہی گیروں کے حقوق اور ان کے ماحولیاتی تحفظ کے لیے آواز اٹھانے والی تنظیمیں ان علاقوں کی بہتری اور ماحولیاتی تحفظ کے نام پر کروڑ ہا روپے کے منصوبے مکمل کرنے والی ملٹی نیشنل این جی اوز نے پچھلے 20 سالوں میں اس مسئلے کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے کیا کیا، یا وہ سول سوسائٹی جسے وقفے وقفے سے ماحولیاتی تحفظ کا درد اٹھتا رہتا ہے، وہ اس عرصے میں کہاں پائے جاتے رہے۔

اب یہ کوئی راز کی بات نہیں رہی ہے کہ ابراہیم حیدری سے ملحق سمندری علاقوں میں مینگروز کو کاٹ کے کئی چھوٹے چھوٹے منصوبے مکمل کیے جا رہے ہیں، جس میں ابراہیم حیدری سب ڈویژن کی ساحلی پٹی کے آخری کونے میں مکمل کیا جانے والا لکی پاور پلانٹ کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ متاثرین میں سیکڑوں سالوں سے قیام پذیر ماہی گیر شامل ہیں۔ اس لیے کسی کو کوئی مسئلہ در پیش نہیں اور شہر کراچی کے باسی چوں کہ ان متاثرین میں ابھی شامل نہیں ہوئے، لہٰذا ان کے لیے بھی یہ امر باعث تشویش نہیں۔

صدارتی آرڈینینس پر ماہرین کی جانب سے اٹھائے گئے نکات کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے اور اب سندھ کی اعلیٰ عدالت میں پٹیشن بھی دائر ہو چکی ہے۔ لہٰذا وہاں اس کے مزید پہلو بھی سامنے آئیں گے۔ سب سے اہم بات مگر اس سلسلے میں انڈس ڈیلٹا سے جڑی اس ساحل کے ماحولیاتی نظام کی ہے، جس کو بھر پور طریقے سے اجاگر نہیں کیا جا رہا۔ اس کی بنیادی وجوہ میں ماحولیات کا تحفظ کرنے والے حکومتی اداروں کی خاموشی، ماحولیات پر کام کرنے والی چند ملٹی نیشنل این جی اوز کا پر اسرار رویہ اور اس کے ساتھ ماہی گیروں کے ماحولیاتی تحفظ کے لیے کام کرنے والی وڈیرا نما تنظیمیں ہیں، جو اپنے مخصوص وقت پر باہر نکلتی ہیں اور کام کو منطقی انجام تک پہنچائے بغیر واپس اپنے بلوں میں چلی جاتی ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان معاملات کو لسانی رنگ دیا جائے، جس میں وہ کس حد تک کامیاب بھی رہی ہیں۔

یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام نے 1989ء سے سمندروں کی سطح بلند ہونے کے نتیجے میں شدید خطرات سے دو چار ملکوں کی فہرست میں پاکستان کو بھی شامل کر رکھا ہے۔ عالمی بینک کی جاری کردہ رپورٹ ”کلائمیٹ چینج پروفائل آف پاکستان“ میں کراچی کو موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے پاکستان کے خطرناک شہروں میں پہلا نمبر دیتے ہوئے، در پیش خطرات میں سیلاب، زلزلہ اور سونامی بیان کیے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ سمیت دنیا کے دیگر معتبر تحقیقی ادارے اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کہ رواں صدی کے آخر تک سمندروں کی سطح میں 66 سینٹی میٹر یا 26 انچ تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ ماحولیاتی سائنسدانوں کے مطابق، سمندروں کی سطح میں ہونے والے اس اضافے کے نتیجے میں، دنیا کے متعدد ساحلی شہروں اور جزائر کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ جب کہ کئی جزائر سمندر برد ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔

معروف کالم نگار جی این مغل نے اپنے حالیہ کالم ”کراچی کو لاحق ماحولیاتی خطرات سے لا تعلقی“ میں 2016ء میں ماحولیاتی امور سے متعلق سینٹ کی سب کمیٹی جس کے چیئرمین پیپلز پارٹی کے سینیٹر کریم خواجہ تھے، کی جانب سے نیشنل اوشنو گرافی (این آئی او) کے آفس واقع کراچی میں بلائے گئے اجلاس کی روداد تحریر کی ہے۔ اس اجلاس میں ملک کے موجودہ صدر عارف علوی، اسد عمر سمیت بحریہ، سپارکو کے ماحولیاتی ماہرین، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے نمائندے شریک ہوئے تھے۔

اس اجلاس میں ماحولیاتی ماہرین نے واضح طور پر اس اندیشے کا اظہار کیا کہ پانی کے حوالے سے صورت احوال کو درست نہ کیا گیا، تو خطرہ ہے کہ 2060ء تک نا صرف سندھ کے دو شہر ٹھٹھہ اور بدین ہی نہیں بلکہ کراچی کا وسیع علاقہ بھی سمندر برد ہو جائے گا۔ کالم نگار کے مطابق اس اجلاس میں کچھ ماحولیاتی ماہرین نے خاص طور پر سمندر کے کناروں پر واقع جزیروں کا بھی ذکر کیا اور خبردار کیا کہ ان جزیروں کا غلط استعمال کرنے سے پرہیز کیا جائے، کیوں کہ یہ جزیرے خاص طور پر کراچی کی پہلی دفاعی لائن ہیں۔

ان جزیروں پر تمر کے وسیع جنگلات موجود ہیں، جو کراچی میں آنے والے سمندری طوفانوں کو روک سکتے ہیں۔ جب کہ اجلاس میں کچھ ماہرین نے یہ اندیشہ بھی ظاہر کیا کہ ان جزیروں کے غلط استعمال کے نتیجے میں کسی بھی وقت مستقبل میں خطرناک ترین سمندری طوفان، کراچی شہر پر حملہ کر کے شہر کو تہس نہس کر سکتے ہیں۔ یہ رپورٹ مشترکہ مفادات کی کونسل (CCI)، پلاننگ ڈویژن سمیت مختلف اداروں کو بھیجی گئی۔

مذکورہ رپورٹ 4 سال پہلے تیار کی گئی تھی جس میں ماہرین نے موسمیاتی و ماحولیاتی خطرات کے تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھ کر اپنا تجزیہ پیش کیا تھا۔ سمندروں کی سطح میں ہونے والے اضافے سے کراچی اور اس سے ملحق جزائر کو در پیش خطرات کے ضمن میں مرتب کی جانے والی یہ اہم ترین رپورٹ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ شہر کراچی سمندری سطح میں اضافے کے براہء راست نشانے پر ہے، اور انڈس ڈیلٹا سے منسلک یہ جزائر جو رامسر معاہدہ جس پر پاکستان نے دستخط کیے ہیں، کا بھی حصہ ہیں، پر کسی بھی ایسی سرگرمیوں سے اجتناب کیا جائے، جس کے نتیجے میں ملک کے گنجان ساحلی شہر کراچی کے کروڑوں لوگوں کی زندگیاں داؤ پر لگ جائیں۔

ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ یہ اہم ترین رپورٹ جس کے بحث مباحثے میں موجودہ صدر عارف علوی بھی شامل تھے، کو منظر عام پر لایا جائے، تا کہ کراچی کے شہر یوں کو بھی سمندر کی سطح میں ہونے والے اضافے کے خطرات سے آگاہی ہو سکے۔ یہ حقیقت ہے کہ حکومتوں کے اپنے مسائل ہوا کرتے ہیں۔ جزائر کی تعمیر کے خلاف جہاں ایک صوبہ سراپا احتجاج ہے، وہیں صوبہ بلوچستان میں بھی اس کے خلاف تحفظات پائے جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).