مریم گرفتار کیوں نہیں ہو سکتیں؟


کراچی میں کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری اور رہائی کے مختصر عرصے میں یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ حکومت اور اس کے پشت پناہ اپوزیشن کے پرجوش احتجاج اور ملک میں مہنگائی اور ابتر معاشی صورت حال کے باوجود مصالحت کے لئے تیار نہیں ہیں۔ فی الحال اس لڑائی کو طول دینے اور ایک دوسرے کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اپوزیشن لیڈر صاف انداز میں موجودہ سیاسی انتظام کو ووٹ کی توہین کہہ رہے ہیں جبکہ حکومت نے اچانک سندھ کے دارالحکومت کراچی میں کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کرنے کا اہتمام کر کے عمران خان کے اس نعرے کو عملی طور سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اپوزیشن کے شور مچانے اور گوجرانوالہ کے بعد کراچی میں عوامی قبولیت کا بھرپور مظاہرہ کرنے کے باوجود کوئی رعایت نہیں کی جائے گی۔ سیاسی مکالمہ کا کوئی راستہ تلاش کرنا ابھی سرکاری حکمت عملی کا حصہ نہیں ہے۔ حالانکہ پاکستان کی مختصر تاریخ میں ایسے متعدد مواقع کی نشاندہی کی جا سکتی ہے جب بات چیت اور سلسلہ جنبانی میں دیر کردی گئی اور اس کا نقصان بہر حال حکومت کو ہی بھگتنا پڑا۔ 2007 میں عدلیہ بحالی تحریک کے دوران بھی یہی صورت دیکھنے میں آئی تھی۔

اس وقت تو فوج کا سربراہ خود ملک کا صدر بھی تھا لیکن ان کی یہ طاقت اور اختیار بھی انہیں عوامی غم و غصہ کے سیلاب سے نہیں بچا سکے۔ جنرل مشرف نے احتجاج رفع کرنے کے لئے ابتدائی مراحل میں پسپائی اختیار کرنے کی بجائے اسلام آباد کے جلسہ میں ایک ایسے وقت پر اپنی طاقت کے اظہار کے لئے بازو بلند کیے تھے جب کراچی میں بے گناہ لوگوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی تھی۔ اس کے نتیجے میں پرویز مشرف کو صرف آرمی چیف اور ملکی صدارت سے ہی علیحدہ نہیں ہونا پڑا بلکہ وہ اس وقت جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ایک خصوصی عدالت انہیں پھانسی کی سزا دے چکی ہے۔ یہ المناک سچ بھی تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے کہ ملک سے ’فرار‘ ہونے کے لئے انہیں اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کی مدد کی ضرورت پڑی تھی۔

کسی ایک بحران کا دوسرے سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا لیکن کسی بھی سیاسی حکومت کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے کہ جب ایسے معاشی و سماجی عوامل موجود ہوں جن کی وجہ سے عام شہریوں کی زندگی اجیرن بن چکی ہو اور ان کی مجبوری غم و غصہ میں تبدیل ہو رہی ہو تو وہ اس کے اظہار کا موقع ملتے ہی طوفان کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ احتجاج کی ایسی لہر پر قابو پانا ممکن نہیں رہتا۔ اس وقت بنیادی اجناس کی غیر معمولی قیمتوں، گیس اور بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخوں اور روزگار کی ابتر صورت حال نے تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف فضا کو سازگار بنایا ہے۔ یہ جائزہ لینا اہم نہیں کہ ابتر معاشی حالات حکومت کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں یا لوگوں کو اب سابقہ حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔

نہ ہی لوگ اس بحث کو سمجھیں گے کہ مہنگائی میں کووڈ۔ 19 کی وبا، عالمی کساد بازاری اور غیر متوقع فطری سانحات کی وجہ سے اچانک اضافہ ہو گیا ہے جسے پائپ لائن میں موجود انتظامی اقدامات سے کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ اور چند ہفتوں یا مہینوں میں ان کے اثرات دیکھے جاسکیں گے۔ اس وقت عمران خان اور ان کے ہمدردوں و معاونین کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت منڈی کی ناقص صورت حال پر دلائل دینے کی بجائے اس سے پیدا ہونے والی بے چینی کا احترام کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام کی پریشانی کو پی ڈی ایم کی تحریک نے آواز دی ہے۔ اسے دبایا نہیں جاسکتا۔ البتہ اسے دھیما کرنے کے لئے سیاسی راستہ تلاش کیا جاسکتا ہے۔

گوجرانوالہ کے بعد کراچی جلسہ میں اپوزیشن لیڈروں کے لب و لہجہ میں سختی آئی ہے۔ دوسری طرف حکومت بھی یہ سمجھنے سے انکار کر رہی ہے کہ یہ وقت حملہ کرنے کا نہیں بلکہ پسپا ہو کر اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کا ہے۔ ایک دیرینہ اور خوابیدہ قانون کے تحت کیپٹن (ر) صفدر کی پراسرار اور کسی حد تک شرمناک طریقے سے گرفتاری اور اس پر سامنے آنے والے رد عمل کے بعد ان کی اچانک رہائی نے حکومت کے لئے مضحکہ خیز صورت پیدا کی ہے۔ اس دوران وزیروں مشیروں کی فوج نے اس گرفتاری کو بابائے قوم کے ناموس کے لئے اہم قرار دیتے ہوئے جس طرح تواتر سے تند و تیز بیانات جاری کیے ، وہ تصادم کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی بجائے تیز کرنے کا سبب بنے ہیں۔ مریم نواز کی پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمان اور پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر اعظم پرویز اشرف کے ساتھ کی گئی پریس کانفرنس میں اس آگ کا دھؤاں اٹھتا محسوس کیا جا سکتا ہے۔

سینیٹ کے اجلاس میں پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی اس اقدام کو صوبائی حکومت کے اختیار پر حملہ قرار دیتے ہوئے بتا رہے تھے کہ سابق فوجی آمر جنرل (ر) یحییٰ خان کے دور میں مزار قائد اعظم کے احترام کے بارے میں جاری کیے گئے آرڈی ننس کے تحت کیپٹن (ر) صفدر ملزم ٹھہرائے جانے والے پہلے شخص ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ پراسرار طریقے سے صوبائی حکومت کی لاعلمی میں ایک شخص کی گرفتاری سے صوبائی خود مختاری کے اصول کو گزند پہنچی ہے جس کا واضح مقصد ہے کہ ملک میں اٹھارہویں ترمیم کی روح کو نقصان پہنچانے اور ون یونٹ جیسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ صوبائی حکومت کے اختیا رکو چیلنج کرنے کے علاوہ مزار قائد اعظم کی توہین کے نام پر مقدمہ کا اندراج ایک ایسے ملک میں انتہاپسندی کے اس مزاج کو بھی مضبوط کرے گا جہاں پہلے ہی ہر اختلاف رائے کو کسی نہ کسی کی توہین بتا کر الزام لگانے اور مقدمے درج کروانے کا چلن عام ہے۔ اس رویہ کی وجہ سے متعدد بے گناہ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو چکے ہیں۔

یہ بحث غیرمتعلقہ ہے کہ پولیس نے کیپٹن صفدر کو گرفتار کرنے کے لئے ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑا تھا یا دروازہ کھولنے پر پولیس اہلکار دھکا مار کر کمرے میں داخل ہوئے تھے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ پولیس کو کسی شخص کی گرفتاری کے لئے ایک ایسے کمرے میں داخل ہونے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی جس میں ایک خاتون نیم خوابیدہ حالت میں موجود تھی اور اس کا شوہر گرفتاری سے انکار بھی نہیں کر رہا تھا۔ پولیس اہلکاروں پر اس قدر دباؤ تھا کہ وہ زبردستی کمرے میں داخل ہو کر ’اوپر‘ یہ اطلاع پہنچانا ضروری سمجھتے تھے کہ انہوں نے حسب حکم گرفتاری حاصل کرلی ہے اور ملزم کو اس کی ’اوقات‘ بھی بتا دی ہے۔

کراچی کی پریس کانفرنس میں مریم نواز نے دعویٰ کیا کہ ان کے شوہر کی گرفتاری کے لئے آئی جی سندھ کو زبردستی سیکٹر کمانڈر کے دفتر لے جایا گیا اور ان سے یہ کہہ کر زبردستی دستخط کروائے گئے کہ گرفتاری کے لئے رینجرز کا دستہ جائے گا لیکن وارنٹ پر دستخط کے بعد حکم دیا گیا کہ پولیس جا کر کیپٹن صفدر کو گرفتار کرے۔ سندھ حکومت گرفتاری سے لاتعلقی کا اظہار کرچکی ہے اور سندھ پولیس کا آئی جی میڈیا کے سامنے اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لئے دستیاب نہیں تھا۔ بلاول بھٹو زرداری نے اس واقعہ پر غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ سے اس کی تحقیقات کروانے کے لئے کہا ہے۔ اپوزیشن اس سانحہ کو پی ڈی ایم میں دراڑ ڈالنے اور مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی کوشش قرار دے رہی ہے۔ دوسری طرف وفاقی وزیروں کا مشورہ ہے کہ اگر سندھ کے وزیر اعلیٰ کا حکم اپنے آئی جی پر بھی نہیں چلتا تو وہ استعفیٰ دے دیں۔

مولانا فضل الرحمان کے ساتھ پریس کانفرنس میں مریم نواز نے کہا کہ یہ کام جن عناصر نے کیا ہے ’ہم سب ان نامعلوم افراد کو جانتے ہیں۔ اب خلائی مخلوق زمینی مخلوق بن چکی ہے‘ ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے چیلنج کیا کہ ’میرے خاندان پر دباؤ ڈال کر مجھے بلیک میل کرنے کی بجائے، آؤ مجھے گرفتار کرو۔ اگر تم میں حوصلہ ہے تو مجھے پکڑو تاکہ پوری دنیا تمہارا بھیانک چہرہ دیکھ لے۔ اگرچہ اب یہ پہلے ہی سب کے سامنے آ چکا ہے۔ کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ ایسے ہتھکنڈوں سے نواز شریف کو دبایا جاسکتا ہے یا ہماری آواز روکی جا سکتی ہے‘ ۔

مریم نواز کے اس چیلنج کے بعد یہ سوال غور طلب ہے کہ کیا وجہ ہے کہ حکومت اپوزیشن کو ڈرانا بھی چاہتی ہے لیکن مریم نواز یا پاکستان جمہوری تحریک میں شامل دیگر اہم لیڈروں کو گرفتار کرنے سے بھی ہچکچا رہی ہے۔ نواز شریف کی تقریر کے بعد عمران خان کے قریب سمجھے جانے والے شیخ رشید مسلم لیگ (ن) پر پابندی لگانے کی بات کرتے ہیں اور شہری ہوا بازی کے وزیر غلام سرور ’نواز شریف کی زبان گدی سے کھینچ لینے‘ کا اعلان کرتے ہیں۔ مریم نواز نے کراچی کے جلسہ میں ان دونوں بیانات کا جواب دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’فوج ہماری ہے، ہم سب کی ہے۔ ہم نے شہدا، اپنی جانوں کا نذرانہ دینے والوں کو جن کی وردیوں پر خون کے دھبے ہیں، انہیں دونوں ہاتھوں سے سلام کیا۔ جنہوں نے اپنے بیٹے قربان کیے ہیں، انہیں نواز شریف، مریم اور پی ڈی ایم سلام پیش کرتے ہیں۔ لیکن جو عوام کے ووٹوں کو بوٹوں کے نیچے روندتا ہے ہم اسے سلام نہیں کرتے‘ ۔

موجودہ تصادم میں تقسیم واضح ہو چکی ہے۔ اپوزیشن کی گیارہ پارٹیاں صرف عمران خان یا تحریک انصاف کو فریق نہیں مانتیں۔ نواز شریف نے نام لے کر بتا دیا کہ وہ فوج کے کن لوگوں کو اپنا مدمقابل سمجھتے ہیں۔ کراچی میں مریم یا اسی مقدمہ میں نامزد دو سو دیگر لوگوں کی بجائے صرف کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری سے مقابلہ کرنے کا پیغام تو دیا گیا ہے لیکن یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کوئی بھی پوری قوت سے لڑنے پر آمادہ نہیں ہے۔ نیم دلی اور نیم پختہ ہتھکنڈوں سے لڑی جانے والی جنگ کبھی جیتی نہیں جا سکتی۔ کیا مریم نواز یہ بات جانتی ہیں کہ مدمقابل طاقتیں انہیں گرفتار کرنے کا حوصلہ نہیں کریں گی؟ یہ کیسی جنگ ہے جس میں سارے اختیار کے باوجود فی الحال زبانی گولہ باری پر اکتفا کیا جا رہا ہے۔ کیا لڑنے سے پہلے شکست تسلیم کرلی گئی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali