کورونا وائرس: کیا انڈیا میں وبا کا عروج گزر چکا ہے؟


انڈیا میں ماسک پہنے ہوئے لوگ
انڈیا میں کورونا وائرس سے 75 لاکھ سے زیادہ افراد متاثر ہو چکے ہیں
کیا انڈیا میں کورونا وائرس کی وبا کا عروج گزر چکا ہے؟ اور کیا اگلے سال کے آغاز تک کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ پر قابو پا لیا جائے گا؟

انڈیا میں سائندانوں کا خیال ہے کہ ایسا ہی ہے۔ ان کے حالیہ اعداد و شمار کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ انڈیا میں وبا کا عروج ستمبر میں گزر چکا ہے اور اگلے سال فروری میں وبا پر قابو پا لیا جائے گا۔

ان تمام میتھمیٹیکل ماڈلز میں یہ فرض کیا گیا ہے کہ لوگ احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے رہیں گے جن میں ماسک پہننا، بڑی تعداد میں ایک جگہ جمع ہونے سے گریز، سماجی دوری قائم رکھنا اور ہاتھ دھونا شامل ہے۔

انڈیا میں اب تک تقریباً 75 لاکھ سے زیادہ کووڈ 19 کے کیس ریکارڈ ہو چکے ہیں جبکہ ایک لاکھ سے زیادہ افراد اس کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔

انڈیا میں دنیا کی آبادی کا چھٹا حصہ موجود ہے اور دنیا بھر میں وبا کے مجموعی کیسز کا بھی چھٹا حصہ یہی رپورٹ ہوا ہے۔ دنیا بھر میں وبا کے باعث ہونے والی اموات کا 10 فیصد انڈیا سے ہے۔

یہاں وبا کا شکار ہونے والے افراد میں ہلاکتوں کا تناسب 2 فیصد سے بھی کم ہے۔

بی بی سی بینر

کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟

کورونا وائرس اور نزلہ زکام میں فرق کیا ہے؟

آخر کورونا وائرس شروع کہاں سے ہوا؟

کووڈ-19 سے جڑی اصطلاحات کے معنی کیا ہیں؟

کورونا وائرس کا ٹیسٹ کیسے ہوتا ہے اور کیوں ضروری ہے؟


انڈیا نے ستمبر کے وسط میں وبا کا عروج دیکھا جب وہاں دس لاکھ ایکٹو کیسز تھے۔ اس کے بعد کیسز کی تعداد میں بتدریج کمی ہوئی ہے۔ گذشتہ ہفتے انڈیا میں اوسطاً 62 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ 784 ہلاکتیں ہوئیں۔ زیادہ تر ریاستوں میں یومیہ ہلاکتوں میں بھی کمی آئی ہے۔

ٹیسٹ بھی باقاعدگی سے ہو رہے ہیں اور گزشتہ ہفتے اوسطاً دس لاکھ لوگوں کے ٹیسٹ کیے گئے۔

حکومت کی جانب سے کمیشن کیے گئے مطالعے میں جن سات سائنسدانوں کو شامل کیا گیا ہے ان میں سے ایک گاگندیپ کانگ بھی ہیں۔

ان کے ماڈل میں دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ وائرس کا شکار ہونے والے لوگوں کی شرح کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ اس شرح میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ صحت یاب ہوئے یا ہلاک ہوئ، اور ایسے لوگ بھی شامل ہیں جن میں بہت واضح علامات تھیں۔

انھوں نے ایسے مریضوں سے بات کر کے اس وبا کی رفتار کا بھی اندازہ لگایا جن میں کوئی علامت ظاہر نہیں ہوئی۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مارچ میں لاک ڈاؤن نافذ نہ کیا جاتا تو انڈیا میں وبا کا عروج ایک کروڑ 40 لاکھ کیسز کے ساتھ آتا اور ہلاکتیں 26 لاکھ ہوتیں جو انڈیا میں کووڈ 19 کے باعث موجودہ ہلاکتوں سے 23 گنا زیادہ ہیں۔

Chart

دلچسپ بات یہ ہے کہ بہار اور اترپردیش کی ریاستوں پر کیے جانے والے مطالعے کی بنیاد پر سائنسدانوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بیرون ملک سے آنے والے افراد کو معائنے کے بغیر شہروں اور دیہاتوں میں جانے کی اجازت دینے پر بھی کیسز میں کچھ زیادہ اضافہ نہیں ہوا۔

متھوکمالی ودیا ساگر جو انڈین انسٹ ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی حیدرآباد میں پروفیسر اور رائل سوسائٹی آف لندن کے بھی رکن ہیں، کا کہنا ہے کہ ’انڈیا میں وبا کا عروج جون میں آ جاتا جس کی وجہ سے ہمارے ہسپتالوں پر بہت زیادہ بوجھ ہوتا اور بڑے پیمانے پرافراتفری پھیل جاتی۔ لاک ڈاؤن نے اس ممکنہ اضافے میں کمی کرنے میں مدد دی۔’

بہت جلد ہی انڈیا میں تہواروں کا آغاز ہونے والا ہے اس موقع پر خاندان اکٹھے ہوتے ہیں اور ممکن ہے کہ ایسے حالات پیدا ہوں جب وائرس شدت سے پھیلے اور بڑے پیمانے پر نقل و حرکت دو ہفتوں کے دوران وائرس کی صورت حال بدل سکتی ہے۔

مثال کے طور پر کیرالہ میں ستمبر کے دوران ایک مذہبی تہوار کے جشن کے بعد کیسز میں اضافہ دیکھنبے میں آیا۔

Chart

سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر لوگوں نے احتیاطی تدابیر سے گریز کیا تو ایک بڑی لہر دوبارہ آ سکتی ہے۔ ایسی صورت میں ان کے اندازے کے مطابق اکتوبر کے اختتام تک 26 لاکھ نئے کیس سامنے آ سکتے ہیں جو اس وقت 75 لاکھ سے زیادہ ہیں۔

پروفیسر ودیا ساگر کہتے ہیں ’اگر لوگوں نے حفاظتی تدابیر پر عمل جاری رکھا تو ہماری پیشگوئی درست ثابت ہو گی۔ ہمارے خیال میں انڈیا ستمبر کے مہینے میں بڑی لہر سے گزر چکا ہے۔ ہمیں آرام سے نہیں بیٹھنا چاہیے۔ یہ انسانی نفسیات ہوتی ہے کہ برا وقت گزر چکا ہے۔‘

تاہم متعدی بیماریوں کے زیادہ تر ماہرین کے خیال میں ایک اور لہر ناگزیر ہے اور شمالی انڈیا میں نومبر سے شروع ہونے والے سردیوں کے موسم میں کووڈ 19 کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا جب فضائی آلودگی (سموگ) زیادہ ہوتی ہے۔

ان ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے مریضوں کی تعداد میں کمی خوش آئند ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وبا ختم ہو رہی ہے۔

یونیورسٹی آف مشیگن میں بایو سٹیسٹکس اور متعدی امراض کی پروفیسر ڈاکٹر بھرامر مکرجی کورونا وائرس کی وبا کا بغور مطالعہ کر رہی ہیں۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ انڈیا پہلی لہر سے گزر چکا ہے۔ تاہم وہ سمجھتی ہیں کہ سردیوں میں آلودگی کے باعث اموات میں اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ یہ آلودگی خاص طور پر سانس کی بیماریوں کے لیے خطرناک ہوتی ہے۔

India is doing more than 1m tests

ان کا کہنا ہے کہ اس دوران اینٹی باڈیز سروے جاری رکھنا بہت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ایسے شہروں اور دیہات پر نظر رکھنا بھی اہم ہے جہاں کورونا وائرس زیادہ نہیں پھیلا کیونکہ ان علاقوں میں اس کے پھیلنے کی گنجائش زیادہ ہے۔

’ضرورت اس بات کی ہے کہ نئے کیس اور ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد کو گنجائش کے اندر رکھا جائے اور جن احتیاطی تدابیر کا مشورہ دیا جا رہا ہے ان پر عمل کیا جائے۔‘

یہ بات واضح ہے کہ بے احتیاطی امید کے چراغ بجھا سکتی ہے لہذا ماسک پہنیے اور بھیڑ والی جگہوں پر جانے سے گریز کیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32504 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp