اپوزیشن تبدیل ہو جائے گی ؟


کہا جاتا ہے کہ فوج دو محاذوں پر لڑائی نہیں کرتی۔ پاکستان کے سیاست دان جو کچھ کر رہے ہیں اور جو کچھ کہہ رہے ہیں اس پر گرفت کی جا سکتی ہے‘ اگر نہیں کی جا رہی تو وجہ دوسرا محاذ نہ کھولنے کا فیصلہ ہے۔ پہلا محاذ عالمی طاقتوں اور بھارت نے کھول رکھا ہے۔ایک دوست بتا رہے تھے کہ ہٹلر نے جب تک دوسرا محاذ نہ کھولا وہ فتح یاب تھا،اتحادی فوجیں اس کے آگے بکری بنی تھیں۔ جونہی محاذوں کی تعداد بڑھی، اس کی طاقت تقسیم ہو گئی، توجہ بٹ گئی، اس کی شکست ہو گئی۔

اپوزیشن ملک دشمن نہیں ہوتی صرف حزب اقتدار کی مخالف ہوتی ہے۔اس مخالفت کو ریاست دشمنی میں تبدیل کرنے کا کام نہیں ہونا چاہئے ۔لوگ طاقتور بننے کے لئے سیاست میں آتے ہیں ،ان کو زہریلا بنا دیا جائے تو وہ سب سے پہلے اپنے لوگوں کو ڈسنے لگتے ہیں ۔ پاکستان کی سابق حکمران جماعتوں نے برسہا برس کی محنت سے یہ تاثر تخلیق کیا ہے کہ اصل اقتدار چونکہ فوج کے پاس ہوتا ہے اس لیے اب کے عمران خان کی بجائے اداروں کے خلاف رائے عامہ کو اشتعال دلایا جائے۔

اپوزیشن کے جس حصے نے اس حکمت عملی کی مخالفت کی اس میں بلاول بھٹو کی پیپلزپارٹی اور ن لیگ کا شہبازشریف گروپ ہے۔ جو سیاستدان اداروں سے تصادم چاہتے ہیں ان میں نوازشریف اور مولانا فضل الرحمن ہیں۔ اس وقت نوازشر یف کے ساتھ سب سے قریبی اور گہرے تعلقات مولانا کے ہیں‘ مریم نواز اپنے والد کی توسیعی شکل ہیں۔ چند ہفتے قبل ایک کالم میں لکھا تھا کہ پی ڈی ایم کی تحریک سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔ گوجرانوالہ میں ن لیگ کے اچھے جلسے اور کراچی میں پی ڈی ایم کے قابل ذکر اجتماع کے باوجود اب بھی یہی رائے ہے کہ یہ تحریک حکومت کا کچھ بگاڑے بنا اپنے انجام کو پہنچ جائے گی۔

جب سے پی ڈی ایم کے جلسے اور جلوس شروع ہوئے ہیں۔ کیپٹن (ر) صفدر متحرک دکھائی دے رہے ہیں۔ کچھ پڑھے لکھے ہوتے تو ان کی مستعدی ن لیگ کے کام آ سکتی تھی۔اب تو بیگم انہیں گاڑی میں اضافی سواری قرار دے کر اتار دیتی ہیں۔ وہ بے چارے یہ بات نہیں جانتے کہ اپنی زوجہ محترمہ کو مادر ملت قرار دے کر جو نعرے لگا رہے ہیں ان کی حقدار قائداعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح ہیں‘ انہیں کو مادر ملت کہا جاسکتا ہے۔ اس سے پہلے ن لیگی رہنما مادر جمہوریت کے خطاب پر بھی قبضے کی کوشش کر چکے ہیں‘ انہیں یاد دلایا گیا کہ سرکاری طور پر یہ خطاب بیگم نصرت بھٹو کی جمہوری جدوجہد کے بدلے میں انہیں دیا جا چکا ہے۔

پھر بھی وہ مُصر ہیں کہ مرحومہ بیگم کلثوم نواز ہی مادر جمہوریت ہیں۔ یقینا کلثوم نواز ایک نفیس اور سمجھ دار خاتون تھیں لیکن اپنے خاندان اور بیٹی کی غلط ترجیحات نے ان کا کردار ابھرنے نہیں دیا۔ پاکستان میں عوامی سطح پر یہ خواہش رہی ہے کہ بدعنوان افسران اور سیاستدانوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ یہاں مقدمات درج ہوئے‘ ابتدائی تفتیش کا سلسلہ بھی چلا لیکن اس قدر سست کہ حکومتیں بدل گئیں‘ نئے لوگوں کی اپنی ترجیحات‘ کئی بار پانچ دس نشستوں والے بھی حکومت کی مجبوری بن جاتے ہیں۔

بہت سی چھوٹی جماعتوں نے اسی طرح اپنے ننھے منے وجود کے باوجود بڑی جماعتوں کے برابر مراعات اور فوائد سمیٹے۔ احتساب کا عمل آدھے راستے پر دم توڑ جاتا اور ملزمان کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا کہ مقدمات سیاسی اور جعلی تھے۔ اس بار حالات مختلف ہیں۔ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو کئی اجلاسوں میں شرمندہ کیا ہے۔ بتایا کہ مالیاتی جرائم میں ملوث افراد کوسزا دینے کے حوالے سے پاکستان کا ریکارڈ دنیا میں خراب ترین ریکارڈ والے ممالک جیسا ہے۔

وہ عدالتیں جو پہلے ہر معاملے میں سو فیصد ریلیف دے دیا کرتی تھیں اب ان کے سامنے یہ چیلنج آ گیا ہے کہ ملوث افراد کو سزا دیں۔ ایک دو نہیں دو نوں حکمران خاندانوںکے درجن بھر لوگ ہیں جو مالیاتی جرائم میں ملوث رہے۔ ان کے جرائم کے شواہد اور نقش پاکستاان سے باہر تک موجود ہیں۔ منی لانڈرنگ جیسا جرم ثابت ہوتا ہے۔ پاکستان کے ادارے اور عدالتیں ان سے نرمی کریں تو ریاست کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پی ڈی ایم کے رہنما جانتے ہیں کہ بین الاقوامی اداروں کو بلیک میل نہیں کیا جاسکتا‘ اپنے اداروں اور لوگوں کو گھیرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

حالات بتا رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ دو محاذوں پر بیک وقت لڑنے کی حامی نہیں۔ سندھ میں پی ڈی ایم کا جلسہ ہوا‘ نوازشریف کو خطاب کی دعوت نہ ملی‘ مولانا فضل الرحمن کی کوششیں بھی بلاول کو رام نہ کرسکیں۔ جلسے کے دن مزار قائد پر کیپٹن (ر) صفدر نے جو کچھ کیا وہ نئے حالات میں اپنی اہمیت اور گنجائش پیدا کرنے کی بھونڈی کوشش تھی۔ اس سے اگلی صبح انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ مریم نواز نے بلاول سے شکوہ کیا ہے کہ مہمانوں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں ہونا چاہیے۔

تاریخ پڑھی ہوتی تو معلوم ہو جاتا کہ بے نظیر بھٹو جب کبھی نوازشریف سے ملنے آتیں تو میاں صاحب کون سے آسمان پر ہوتے۔ نہ نوازشریف نے خطاب کیا‘ نہ بلاول نواز بیانیے کے لیے مدد کو آئے۔ سندھ پولیس پر الزام لگائے جا رہے ہیں۔ خفت کی سیاہی دھل نہیں پاتی۔ ایک صاحب سے پوچھا شہباز شریف حراست میں کیوں ہیں‘ کون لوگ ان سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ جواب ملا مگر ذرا گھما کر۔

بس یہ سمجھ لیں کہ تھوڑے دنوں میں اگر حمزہ شہباز کو ضمانت مل جائے تو کہانی میں ایک دلچسپ موڑ آ سکتا ہے۔ مسلم لیگ کا مزاج تصادم والا نہیں‘ مل ملا کر سیاست کرنے والے لوگ ہیں۔ مریم کا کردار تن آسان کارکنوں اور رہنمائوں کو راہیں بدلنے پر مجبور کر رہا ہے۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).