امریکہ کا صدارتی انتخاب 2020: کیا انڈیا کے لیے یہ معنی رکھتا ہے کہ نیا امریکی صدر کون ہو؟


ٹرمپ، مودی، شی جن پنگ
EPA/LUONG THAI/REUTERS/Adnan Abidi/Jonathan Ernst
وائٹ ہاؤس میں شہریت دینے کی تقریب میں پانچ نئے امریکی شامل تھے لیکن خاص طور پر ایک پر سب کی نظر تھی اور یہ انڈیا سے تعلق رکھنے والی سافٹ ویئر ڈیویلپر سدھا سنداری تھیں، جو گلابی رنگ کی ساڑھی زیب تن کیے اور ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے، فخر کے ساتھ اپنی شہریت کا سرٹیفیکٹ دکھا رہی تھیں۔

ریپبلکن نیشنل کنوینشن کے دوران 25 اگست کو براہِ راست نشر کی گئی اس تقریب کو امریکہ میں سیاسی سٹنٹ قرار دیتے ہوئے خاصی تنقید کا سامنا کیا گیا لیکن انڈین میڈیا نے اسے غیر معمولی واقعے کے طور پر فخر کے ساتھ پیش کیا کہ امریکی صدر نے خود ایک انڈین کا نئے شہری کے طور پر استقبال کیا۔

امریکہ کی امیگریشن پالیسی انڈیا اور اس کے شہریوں کے لیے اہمیت کی حامل ہے۔ انڈیا ٹیکنالوجی کے شعبے میں باصلاحیت افراد امریکہ بھیجنے کا ایک ریکارڈ رکھتا ہے، ایسے لوگ ایچ ون بی ویزا پر امریکہ آتے ہیں اور بعد میں امریکی شہری بھی بن سکتے ہیں۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے اتنے نمایاں انداز میں اس بات کا اعتراف کرنے سے انڈین امریکی کافی متاثر ہوئے ہوں گے، اور یہ تقریب بھی ان انڈین امریکی شہریوں کے لیے خیرسگالی کا اقدام ہوگی جنھوں نے روایتی طور پر ڈیموکریٹس کی حمایت کی ہے۔

صدر ٹرمپ کے اس علامتی اقدام سے یقینی طور پر اچھے جذبات کو تقویت ملی اور یہ اس وقت ہوا جب دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں مزید سٹریٹجک گہرائی پیدا ہو رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کملا، کشمیر اور ’مودی کے دوست‘ انڈین نژاد امریکیوں کے ووٹ پر کیسے اثر انداز ہوں گے؟

’نریندر مودی کے بہترین دوست نے انھیں سرِعام شرمسار کیا‘

ٹرمپ کے حامی پاکستانی نژاد امریکی شہری انھیں کیوں پسند کرتے ہیں

انڈین نژاد امریکی شہری امریکی صدر کے لیے اپنا ووٹ دے سکتے ہیں لیکن چاہے وہ ٹرمپ ہوں یا بائیڈن، وہ انڈیا کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟

سدھا سنداری

RNC handout via Reuters

چین اور لداخ

امریکہ کا اس بارے میں کافی واضح مؤقف ہے کہ وہ کہاں مدد کر سکتا ہے۔ انڈیا ملک کے شمال میں ہمالیائی علاقے لداخ میں چین کے ساتھ علاقائی تنازعے میں پھنسا ہوا ہے۔

اپریل کے بعد سے انڈیا اور چین اس علاقے میں 50 ہزار سے زائد فوجی تعینات کر چکے ہیں اور کچھ جگہوں پر دونوں افواج میں یہ فاصلہ 200 میٹر سے بھی کم ہے۔ سکیورٹی ماہرین کو خدشہ ہے کہ غیر ارادی طور پر نظم و ضبط میں ہوئی چھوٹی سے چھوٹی غلطی بھی ایک بڑے فوجی تصادم کی طرف بڑھ سکتی ہے۔

جون کے مہینے میں انڈیا اور چین کی افواج کے مابین لداخ میں ہونے والی جھڑپوں نے دونوں ایٹمی ہمسایہ ممالک کے مابین تناؤ کو بڑھا دیا ہے۔ امریکہ کئی بار اس تنازعے میں انڈیا کو مدد کی پیشکش کر چکا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے رواں ماہ کے اوائل میں کہا تھا کہ ’انھیں (انڈیا کو) اس لڑائی میں امریکہ کو اپنا اتحادی اور شراکت دار بنانے کی ضرورت ہے۔‘

لداخ

انڈیا اور چین کی افواج کے مابین لداخ میں ہونے والی حالیہ جھڑپوں نے دونوں ایٹمی ہمسایہ ممالک کے مابین تناؤ کو بڑھا دیا ہے

کچھ انڈین سفارت کاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انڈیا کو امریکہ کی ضرورت ہے تاکہ وہ چین پر مبینہ طور پر قبضے میں لیے گئے علاقوں کو خالی کرنے کے لیے دباؤ ڈالے اور اس کے علاوہ انڈیا کو دیگر علاقائی ممالک کو بھی اپنے ساتھ ملانے کی ضرورت ہے۔

انڈیا اور امریکہ نے جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر ’کواڈ‘ نامی ایک گروپ تشکیل دیا ہے، جس نے اکتوبر کے اوائل میں سکیورٹی امور پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے ٹوکیو میں ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں بنیادی طور پر چین کو جواب دینے کے معاملے پر اظہارِ خیال کیا گیا جو اپنا اثر و رسوخ بڑھاتا جا رہا ہے۔

یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ امریکہ اس گروپ بندی کو نیٹو جیسے اتحاد میں تبدیل کرنے کا خواہاں ہے۔

گہرے ہوتے تعلقات

اس طرح کا تصور یقیناً گذشتہ 20 برسوں میں دونوں ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والے مضبوط تعلقات کے ساتھ بالکل فٹ بیٹھتا ہے۔ روایتی طور پر انڈیا نے سوویت یونین یا امریکہ سے اتحاد کرنے کے بجائے غیر جانبدار رہنے کو ترجیح دی اور سرد جنگ اور سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے دوران انڈیا کی یہی پالیسی تھی، لیکن اکیسویں صدی کی جغرافیائی سیاست نے انڈیا کے غیر ملکی نقطہ نظر کو نئی شکل دی ہے۔

سنہ 2000 میں امریکہ کے صدر بل کلنٹن نے انڈیا کا تاریخ ساز دورہ کیا اور انڈیا کو امریکہ کا اتحادی بننے کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ چھ دن کا یہ دورہ امریکہ اور انڈیا کے تعلقات میں اہم موڑ کے طور پر دیکھا گیا۔

صدر جارج ڈبلیو بش کے دورے کے دوران ایٹمی معاہدے پر دستخط کرنے سے سٹریٹجک تعلقات کی گہرائی میں اضافہ ہوا اور صدر باراک اوباما نے بھی انڈیا کے دو دورے کیے۔

کیچرل رامان نارائن اور بل کلنٹن

امریکہ کے صدر بل کلنٹن سنہ 2000 میں انڈیا کے دورے میں اس وقت کے انڈین صدر کے آر نارائن سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔ بل کلنٹن تقریباً ربع صدی میں انڈیا کا دورہ کرنے والے پہلے امریکی صدر تھے

رواں سال صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 25 فروری کو گجرات کے ایک بھرے ہوئے سٹیڈیم میں ایک بڑے جلسے میں شرکت کی جو وزیرِ اعظم نریندر مودی نے ان کے اعزاز میں منعقد کروایا تھا اور یہیں صدر ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ ’یہ (دو طرفہ تعلقات) کبھی اتنے اچھے نہیں تھے جتنے ابھی ہیں۔‘

مگر انڈیا امریکہ کی جانب سے مدد کی پیشکش کا خیرمقدم کرنے کے باوجود اسے قبول کرنے سے گریزاں دکھائی دیتا ہے۔

ہچکچاہٹ

انڈیا کی ہچکچاہٹ کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔

لندن میں یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر میں سیاست اور بین الاقوامی تعلقات کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر نتاشا کول کو امریکی عزم پر شک ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’ٹرمپ انتظامیہ کے زبانی بیانات کی اتنی زیادہ اہمیت نہیں ہے جب امریکہ کی خارجہ پالیسی متضاد سمت میں گامزن ہے اور ٹرمپ عالمی سطح پر امریکی ذمہ داریوں کو کم کر رہے ہیں۔‘

امریکہ کی جانب سے مدد اور ثالثی کی پیشکش ایسے وقت میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی جب چین اس کا سخت مخالف ہے اور انڈیا نے اس پر سردمہری کا اظہار کیا ہے،

ڈاکٹر کول کہتی ہیں کہ اگر مدد کی پیشکشں حقیقی ہے بھی تو یہ واضح کرنا مشکل ہے کہ امریکہ لداخ میں کس طرح مدد کر سکتا ہے۔

وہ کہتی ہیں ’امریکہ زیادہ سے زیادہ فوجی انٹیلیجنس (جو محدود ہوگی)، اسلحے اور تربیت جیسے شعبوں میں ہی حصہ لے سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ بڑھتے ہوئی تناؤ سے بچنے کے لیے چین کو علامتی پیغامات بھی بھیج رہا ہے۔‘

اگر مدد کی پیشکش حقیقی اور خاطر خواہ ہو تو بھی امریکہ کو انڈین عوام کے ساتھ تعلقات عامہ کا مسئلہ ہے۔

امریکہ کئی دہائیوں تک پاکستان کا قریبی اتحادی تھا، جس کا مطلب ہے کہ انڈین معاشرے کے بہت سے طبقات اسے قابل اعتماد دوست سمجھنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

پروفیسر اشوک سوین، جو سویڈن کی اپسالہ یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں، نے امریکہ پر اعتماد کرنے کے بارے میں انڈیا کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ ’کبھی کسی کا بھی قابل اعتماد حلیف نہیں رہا اور یہ بات ٹرمپ کے دور میں زیادہ واضح ہو گئی ہے۔ چین جیسی طاقت سے نمٹنے میں امریکی کارڈ انڈیا کے لیے کام نہیں کرے گا۔‘

مودی، ٹرمپ

دو طرفہ تعاون

وزیرِ اعظم مودی اور صدر ٹرمپ کے درمیان تعلقات میں بے تحاشہ خوشگوار علامتیں اور ذاتی کیمسٹری دکھائی دیتی ہے مگر سفارتکاروں کا سوال ہے کہ تعلقات کی مضبوطی کے لیے درحقیقت کیا کیا گیا ہے۔

دو بار امریکہ میں خدمات سرانجام دے چکی انڈیا کی سابق سفارتکار نیلم دیو نے بی بی سی کو بتایا: ’ہم صدر ٹرمپ کے ماتحت اچھی پیشرفت کر رہے ہیں۔ وزیراعظم مودی اور صدر ٹرمپ کے درمیان ایک زبردست کیمسٹری ہے لیکن یہ پیشرفت سست ہے اور ہم اس میں تیزی لانا چاہتے ہیں۔‘

انڈیا امریکہ کی جانب سے مدد کی پیشکش کو قبول یا مسترد کرنے کے بارے میں اب تک بہت محتاط رہا ہے۔

پروفیسر سوین کا کہنا ہے کہ انڈیا انتظار کرے گا کہ 3 نومبر کے انتخابات میں کیا ہوتا ہے۔ لیکن سفارت کاروں کا خیال ہے کہ کوئی زیادہ تبدیلی نہیں آئے گی، یہاں تک کہ اگر وائٹ ہاؤس میں کوئی دوسرا شخص بھی آ جائے۔

صدر ٹرمپ اور ڈیموکریٹک پارٹی کے جو بائیڈن میں انڈیا کے علاوہ تقریباً ہر معاملے میں اپنی اپنی پالیسیوں پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ انڈیا کے سابق سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ انڈیا کے بارے میں امریکی پالیسی کو واشنگٹن میں دو طرفہ حمایت حاصل ہے۔

نیلم دیو کے مطابق ’ایسا پہلا بار نہیں ہوا کہ انڈیا کے معاملے پر دونوں جماعتیں ایک پی پوزیشن پر ہوں۔ صدر کلنٹن کے بعد سے امریکی صدور انڈیا آ رہے ہیں۔ صدر اوبامہ دو بار انڈیا آئے۔ لہٰذا دونوں جماعتوں کے صدور کے دور میں ترقی ہوتی رہی ہے۔‘

چنانچہ ایسا لگتا ہے کہ انتخابات کے بعد بھی امریکہ چین کے خلاف انڈیا کو اپنی حمایت کی پیشکش کرتا رہے گا لیکن یہ قطعی طور پر یقینی نہیں کہ انڈیا اس کا کیا جواب دے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp