یوم تاسیس کشمیر


تقریباً چار ہزار سال کی قدیم تاریخ رکھنے والا کرہء ارض کا جو خطہ، کشمیر کہلاتا ہے۔ ریاست آزاد جموں و کشمیر اس کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ جو تقریباً پانچ ہزار ایک سو چونتیس مربع میل پر مشتمل ہے۔ 24 اکتوبر 1947ء میں آزاد ریاست جموں و کشمیر حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ اسی نسبت سے اس دن دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری ”یوم تاسیس کشمیر“ مناتے ہیں۔ اور دنیا کو باور کراتے ہیں کہ ایک دن کشمیری اپنا حق خود ارادیت ضرور حاصل کر لیں گے۔

تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کشمیریوں کو مٹانے والے خود مٹتے رہے ہیں۔ یاد رہے کہ موجودہ جد و جہد آزادی کا آغاز، قیام پاکستان کے فوراً بعد ہوا، جب ریاست کشمیر پر ہندوستان نے تقسیم ہند معاہدے کو پس پشت ڈالتے ہوئے حملہ کر دیا۔ اور کشمیریوں کی مرضی کے خلاف ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے، ایک جعلی معاہدے کی آڑ میں ریاست کشمیر کا اپنے ساتھ الحاق کا اعلان کیا۔ اس صورت احوال میں غیور کشمیریوں نے ہندوستان کے خلاف مسلح جد و جہد کی، جس کے نتیجے میں وہ ریاست کشمیر کا ایک تہائی حصہ آزاد کروانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کا نام ریاست آزاد جموں و کشمیر رکھا گیا۔

کشمیریوں کے ساتھ ہونے والی بد دیانتی کو سمجھنے کے لیے، کچھ تاریخی حقائق پر نظر ڈالتے ہیں۔ تقسیم ہند کے وقت تقریباً 560 آزاد ریاستیں تھیں۔ تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت ان آزاد ریاستوں کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ اپنی مرضی سے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کر سکتی ہیں۔ اگر وہ چاہیں تو خود مختار ریاست کی حیثیت بھی رکھ سکتی ہیں۔ ان میں سے ایک اہم ریاست جموں و کشمیر تھی۔ اس ریاست کی غالب آبادی مسلم تھی۔

یہ سب سے بڑی ریاست تھی جس کا رقبہ 84471 مربع میل تھا۔ یہ ریاست آئینی اعتبار سے سب ریاستوں پر فوقیت رکھتی تھی۔ یہ واحد ریاست تھی، جس کی اپنی آئین ساز اسمبلی تھی، اور 1947ء سے پہلے تین بار انتخابات ہو چکے تھے۔ آج بھی ریاست کشمیر رقبے کے لحاظ سے کرہء ارض کے ایک سو تیرہ آزاد ممالک سے زائد ہے اور ریاست کشمیر آبادی کے لحاظ سے لگ بھگ ایک سو چھتیس آزاد ممالک سے بڑی ہے۔

تقسیم ہند کے وقت کشمیری پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے تھے، مگر اس وقت کے وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے مہا راجا کے ساتھ مل کر تقسیم ہند کے ضابطوں کے بر عکس، کشمیر کا الحاق بھارت سے کر دیا۔ یہ شاید بیسویں صدی کی سب سے بڑی بد دیانتی تھی۔ اس الحاق کی آج تک کوئی تحریری دستاویز سامنے نہیں آئی۔ کشمیری عوام مہا راجا کی اس بد دیانتی پر سیخ پا ہو گئے اور انہوں نے علم بغاوت بلند کر دیا۔ اس دوران میں بھارتی فوج نے کشمیر پر یلغار کر دی۔ اس طرح جد و جہد آزادی کشمیر کے موجودہ مرحلے کا آغاز ہوا۔ اس تحریک کے نتیجے میں آزاد جموں وکشمیر کا تقریباً پانچ ہزار مربع میل کا علاقہ آزاد ہوا۔

اکتوبر 1947ء میں قائد اعظم نے مسئلہ کشمیر پر بات چیت کے لئے لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور جواہر لعل نہرو کو لاہور مدعو کیا۔ دونوں نے دعوت نامہ قبول کیا، مگر لاہور نہ آئے۔ بعد میں یہ ملاقات یکم نومبر 1947ء میں ہوئی، جس میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن آئے، مگر نہرو نے بیماری کا بہانہ بنا کر، نہ خود شرکت کی اور نا ہی کسی نمائندے کو بھیجا۔ اس ملاقات میں جو ساڑھے تین گھنٹوں پر مشتمل تھی، قائد اعظم محمد علی جناح نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو یہ باور کروایا کہ کشمیر پر ہندوستان کا قبضہ، پاکستان کبھی بھی قبول نہیں کرے گا۔ قائد اعظم نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن پر زور دیا کہ مسئلہء کشمیر کا حل، پاکستان اور ہندوستان کی باہمی کاوشوں سے حل ہو سکتا ہے۔ یہ مذاکرات نا کام ہوئے اور جواہر لعل نہرو بجائے قائد اعظم کی تجویز پر غور کرنے کے اس مسئلے کو اقوام متحدہ لے گئے اور پھر اس مسئلے کو سلامتی کونسل کے سامنے پیش کیا گیا۔

جد و جہد آزادی کشمیر جب اپنے عروج پر تھی، تو بھارت ایک مکروہ چال چلتے ہوئے کشمیر کا مسئلہ سلامتی کونسل میں لے گیا۔ جہاں یہ قرار داد منظور ہوئی کہ کشمیر کا مسئلہ رائے شماری سے حل کیا جائے، جس پر دونوں ممالک نے اتفاق کیا، مگر بھارت نے آج تک رائے شماری کے عمل کو ممکن نہ ہونے دیا۔

ہر دور کے بھارتی حکمرانوں نے نہرو کے عالمی اور علاقائی برادری سے کیے گئے وعدوں کو اہمیت نہ دی۔ آج مقبوضہ کشمیر کے ایک کروڑ پچیس لاکھ نہتے کشمیری، آزاد کشمیر کے 40 لاکھ باسی، گلگت بلتستان کے 12 لاکھ عوام، 20 لاکھ بے گھر مہاجرین جموں و کشمیر اور 15 لاکھ سے زائد کشمیری تارکین وطن ہر روز ہندوستانی حکمرانوں کے ضمیر پر دستک دیتے ہیں، اور انہیں جواہر لال نہرو کے علاقائی اور عالمی برادری سے کیے گئے وعدے یاد دلاتے ہیں۔ اس کے با وجود، ہندوستانی حکمران، نہرو کے وعدے پر عمل نہ کر کے، بے حمیتی کا ثبوت دے رہے ہیں۔

یوم تاسیس کشمیر منا کر، جہاں ہم اپنے بزرگوں کو آزاد ریاست جموں و کشمیر کے لیے جد و جہد پر خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، وہیں ہم اس عزم کو بھی دہراتے ہیں کہ ہماری جد و جہد تب تک جاری رہے گی، جب تک ہم مقبوضہ کشمیر کو ہندوستان کے غاصبانہ قبضے سے آزاد نہیں کروا لیتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).