وزیر اعظم اپنی ساری توانائی مسائل حل کرنے پر صرف کریں!


حزب اختلاف کی جماعتیں، حکومت گرانے کے لئے عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے، مختلف شہروں کا رخ کر رہی ہیں۔ پی ڈی ایم، عمران خان سے استعفے کا مطالبہ کرتی ہے، کہ وزیر اعظم اس اہل نہیں کہ حکمرانی کر سکیں۔ یہ حق صرف اور صرف ان کا ہے۔ وہ جماعتیں بہت جلد اقتدار میں آئیں گی اور ملکی ترقی کی رفتار میں تیزی لائیں گی۔

پی ڈی ایم عوامی مسائل کا ذکر بھی کرتی ہے کہ مسائل میں ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، مگر حکومت نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ جب کہ حکومت کا کہنا ہے کہ اچھے دن آنے والے ہیں، بس تھوڑا صبر۔ ’حکومت، عوام کو سہولتیں دینے کے لئے سوچ بچار کر رہی ہے، بلکہ وہ اس حوالے سے متحرک بھی ہو چکی ہے۔ لہذا اس کے مثبت نتائج بر آمد ہونے کے قریب ہیں۔ عوام کو پریشان نہیں ہونا چاہیے۔

بلا شبہ لوگوں کو اشیائے خورد و نوش کی گرانی و قلت نے ادھ موا کر دیا ہے۔ عوام، حکومت سے سخت نالاں نظر آتے ہیں، مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ عالمی مالیاتی اداروں نے دباؤ ڈالنا شروع کر رکھا ہے کہ ان کی شرائط پر من و عن عمل کیا جائے، تا کہ ملک کی معیشت بہتر ہو سکے۔ لہذا حکومت با امر مجبوری ٹیکس لگاتی ہے۔ اس طرح چیزوں کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں، مگر عوام کو ان باتوں سے کوئی غرض نہیں۔ وہ اپنا چولھا روشن دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں ضرورت کی چیزیں معیاری و ارزاں نرخوں پر دستیاب ہونی چاہیے، جو نہیں ہیں، لہذا عوام کی غالب اکثریت حکومت سے بیزار دکھائی دیتی ہے۔

اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ عوام، گیارہ جماعتوں پر مشتمل حزب مخالف کی خواہاں ہے۔ کیوں کہ یہ بازو ان کے آزمائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے اپنے دور میں عوام کے لئے کون سی دودھ کی نہریں بہانے کی کوشش کی۔ حالات آج ہی کی طرح تھے، مگر اب انہیں ٹھیک کرنے کی جانب لے جایا جا رہا ہے۔ جس سے صورت احوال خراب ہوئی ہے۔ اس پر حزب اختلاف نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہے۔ چیخ پکار کر رہی ہے کہ عمران خان نے معیشت ڈبو دی۔ یہ کر دیا وہ کر دیا۔ مانا کہ عمران خان منجھے ہوئے روایتی سیاستدان نہیں، مگر وہ عیار، مکار اور بد دیانت بھی نہیں۔ انہوں نے اپنی تجوری بھی نہیں بھری۔ یہ ضرور ہوا ہے کہ ان کے بعض ساتھیوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں، مگر ہمیں پوری امید کہ اگر حکومت مخالف لوگوں کا احتساب ہو گا، تو ان کا بھی ہو گا۔ بلکہ سب کا ہو گا۔ حالات اسی طرف جا رہے ہیں، کیوں کہ عوام کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ یہ تو نہیں ہونا چاہیے کہ حکومت اپنی مدت پوری کیے بغیر رخصت ہو جائے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ وہ اگلے چند ماہ میں کچھ سہولتیں دینے میں کامیاب ہو جائے۔ وہ دے بھی رہی ہے مگر چوں کہ زیادہ تر میڈیا اس کے خلاف ہے، اس لئے عام آدمی کو علم نہیں ہو پا رہا۔

روٹی کپڑا اور مکان عوام کی بنیادی ضرورتیں ہیں۔ اگر یہ انہیں میسر ہوں، تو وہ حکومت کو اپنا سمجھتے ہیں۔ فی الحال ایسا نہیں ہوا، لہذا وہ بد گمان ہیں، مگر حزب اختلاف کہتی ہے کہ حکومت گھر جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کے پاس مسائل کے حل کا با قاعدہ پروگرام ہے؟ اس کے پاس کچھ نہیں۔ اگر ہوتا تو آج وہ پیدا ہی نہ ہوتے۔ حزب مخالف تحمل کا مظاہرہ کرے اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے کوشش نہ کرے۔ ویسے عوام کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ اس کے اپنے مسائل ہیں، جس کی بنا پر وہ عمران خان کے خلاف ہے۔ آج غربت افلاس اور بے روز گاری ہے، تو ماضی میں بھی یہ سب تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ستم رسیدہ عوام نے، ان کے جلسوں میں جوق در جوق جانا شروع نہیں کیا، جو چند گئے بھی ہیں، وہ مایوس ہوئے ہیں کہ اسے تو اپنی پڑی ہوئی ہے۔

کیا سابق وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کے خطاب اور دیگر رہنماؤں کی تقاریر سے یہ اندازہ نہیں ہو جاتا کہ حزب اختلاف کے دکھ، عوامی نہیں، غیر عوامی ہیں۔ وہ اقتدار کے حصول کے لئے جد و جہد کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ احتساب سے بچنے کے کے لئے یہ شور مچا رہے ہیں۔ آج اگر کوئی تھپکی مل جائے، تو اس میں شامل سیاستدانوں کا لہجہ تبدیل ہو جائے گا۔

کہا جا رہا ہے کہ میاں نواز شریف کی تقریر سے ان کی جماعت میں کھسر پھسر ہو رہی ہے، بعض ارکان قومی و صوبائی اسمبلی حیران و پریشان ہیں کہ انہوں نے جو راستہ اختیار کیا ہے، وہ مناسب نہیں۔ اس کے اثرات جماعت پر منفی پڑیں گے!

بہرحال عمران خان کو چاہیے کہ حزب اختلاف جو ان پر تنقید کر رہی ہے، اس سے انہیں جذباتی نہیں ہونا چاہیے۔ وہ اپنے حواس پر قابو رکھیں۔ وہ انہیں ذہنی طور سے منتشر کرنا چاہتے ہیں، تا کہ وہ غلط قدم اٹھائیں اور ان کے اقتدار کی راہ ہموار ہو سکے۔ ان کے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ انتظامی امور کو گہری نگاہ سے دیکھنے کا آغاز کر دیں۔ انتظامیہ ہی کی کمزوری سے مسائل گمبھیر ہوئے ہیں۔ وہ حزب اختلاف سے نہ ٹکرائیں۔ ان کو سرے سے نظر انداز کر دیں کہ وہ سمجھیں، حکومت کو ان کی کوئی پروا نہیں۔

اگر وہ کچھ غلط کہتے ہیں، تو ادارے موجود ہیں۔ وہ ان سے نمٹ لیں گے۔ قانون خود اسے دیکھ لے گا۔ فرض کیا اگر وہ خود ان کا گریبان پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں، اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اس پوزیشن میں ہیں، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب تک انہوں نے یہ ہمت ان مافیا کو پکڑنے کے لئے کیوں نہیں دکھائی، جنہوں نے عوام کا جینا محال کر رکھا ہے۔ عرض ہے کہ وہ فی الفور مہنگائی کرنے والوں ’قبضہ گروپوں‘ رشوت خوروں ’کمیشن کھانے والوں اور ٹیکس چوروں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کریں۔ عوام ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔ پھر وہ حزب اختلاف پر دھیان بھی نہیں دیں گے۔ اب جب وہ اسے مزہ چکھانے کے لئے اپنی آستینوں کو چڑھاتے ہیں، تو وہ مظلوم بن جائیں گے۔ یوں وہ عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ مکرر چند تجاویز پیش کرتا ہوں کہ فوری طور سے کسانوں سے سبزیاں پھل دالیں گڑ شکر خرید کر بڑے بڑے سٹالوں پر ان کی فروخت شروع کر دی جائے۔ اس طرح ملوں سے گھی چینی آٹا وغیرہ بھی براہ راست خریدا جائے اور لوگوں تک پہنچایا جائے۔ محکمہ پولیس کو ٹھیک کرنے کے لئے لاہور کے سی سی پی او ایسے افسروں کی خدمات حاصل کی جائیں، جو عوام پر ستم ڈھانے والوں کا ہاتھ روک سکیں۔ اگر وہ یہ سب کرتے ہیں تو آئندہ بھی ان کی حکومت ہو گی اور وطن عزیز ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).