دل والے دلہنیا لے جائيں گے: 25 سال قبل جب نوجوانوں پر راج اور سمرن کا خمار چھایا تھا


ہندی فلم انڈسٹری کی سب سے رومانٹک سمجھی جانے والی فلم 'دل والے دلہنیا لے جائيں گے' یعنی 'ڈی ڈی ایل جے' کی ریلیز کو 25 سال ہوگئے ہیں۔

اس فلم کو دیکھنے والی نوجوان نسل آج ادھیڑ عمر کی ہے اور اس فلم کے بعد کی نسل جوان ہوگئی ہے لیکن اس فلم کا جادو آج بھی برقرار ہے۔

اس فلم کی کہانی کچھ اس طرح ہے:

راج (شاہ رخ خان) اور سمرن (کاجول) لندن میں مقیم انڈین خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ روایتی سوچ والے سمرن کے والد بلدیو سنگھ کا کردار امریش پوری نے ادا کیا ہے جو اپنے ملک کی مٹی سے محبت کرتے ہیں۔ جبکہ راج کے والد (انوپم کھیر) کھلے ذہن کے ہیں۔

سمرن سچے پیار کے خواب دیکھتی ہے لیکن والدہ (فریدہ جلال) اسے آگاہ کرتی ہیں کہ وہ اس خواب کے پورا ہونے کی امید نہ رکھے۔

بلدیو سنگھ کو ان کے بچپن کے دوست اجیت (ستیش شاہ) کا ایک خط موصول ہوتا ہے جس میں 20 سال قبل کیے وعدے کو پورا کرنے کا ذکر ہوتا ہے جس کے تحت سمرن کی شادی ان کے بیٹے کلجیت (پرمیت سیٹھی) سے ہونی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’کاجول اب میری دوست نہیں ہیں‘

’رئیس کے لیے دماغ گھر پر چھوڑ جائیں‘

شاہ رخ خان بونے کیسے بنے؟

سمرن شادی سے پہلے اپنے دوستوں کے ساتھ سارے یورپ کی سیر کرنا چاہتی ہے۔ اس کے لیے وہ اپنے والد سے اجازت لیتی ہے۔ سمران کی راج سے یورپ کے اسی سفر میں ملاقات ہوتی ہے۔

ٹرین چھوٹ جانے کے سبب دونوں ایک ساتھ وقت گزارتے ہیں اور سفر کے اختتام تک وہ دونوں ایک دوسرے سے پیار کرنے لگتے ہیں۔ لیکن اظہار محبت نہیں کر پاتے ہیں۔

کلجیت کے ساتھ شادی کے لیے سمرن اپنی فیملی کے ساتھ پنجاب پہنچ جاتی ہے۔ راج بھی سمرن کی تلاش میں پنجاب آتا ہے اور سمرن سے محبت کا اظہار کرتا ہے۔ سمرن کی والدہ دونوں کو بھاگ کر شادی کرنے کے لیے کہتی ہے لیکن راج سمرن کے والد کی اجازت کے بغیر شادی کرنے پر راضی نہیں ہے۔

راج، بلدیو اور پورے خاندان کو متاثر کرنے کی کوشش کرتا ہے اور آخر میں بلدیو سنگھ کہتے ہیں ‘جا سمرن جا، جی لے اپنی زندگی۔’

20 اکتوبر سنہ 1995 کو ریلیز ہونے والی ڈی ڈی ایل جے کو ناظرین کی جانب سے خوب پزیرائی ملی۔ فلم کو نہ صرف انڈیا میں بلکہ بیرون ملک شائقین نے بھی پسند کیا۔

اس فلم کے ساتھ ہندی سینیما کو شاہ رخ خان اور کاجول کی شکل میں ایک نئی رومانٹک جوڑی ملی جس کا جادو آج تک باقی ہے۔ جبکہ فلم نے تمام ریکارڈز توڑ ڈالے۔

یہ فلم ممبئی کے مراٹھا مندر میں ایک ہزار ہفتوں تک چلتی رہی۔ ڈی ڈی ایل جے کو دس زمروں میں فلم فیئر ایوارڈز ملا تھا۔ یہ فلم صرف چار کروڑ روپے میں بنائی گئی تھی۔

سنہ 1995 میں اس فلم نے مجموعی طور پر 102.50 کروڑ روپے کا بزنس کیا۔ ان میں سے 89 کروڑ روپے انڈیا سے اور 13.50 کروڑ روپے بیرون ملک سے کمائے گئے تھے۔

ڈی ڈی ایل جے

اس فلم نے شائقین کے دلوں کو کیوں چھوا؟

فلم مورخ ایس ایم ایم اسجا کہتے ہیں ‘ڈی ڈی ایل جے سے عام لوگوں خصوصاً اس دور کے نوجوانوں کو ایک پہچان ملی۔ ان نوجوانوں نے خود کو شاہ رخ میں دیکھا جو 80 اور 90 کی دہائی کی ابتدائی رومانوی ہندی فلموں سے مختلف تھا۔ اب تک رومانٹک ہندی فلموں کا ہیرو سپر ہیرو ہوا کرتا تھا جسے ڈی ڈی ایل جے نے توڑ دیا۔’

‘اس نے نوجوانوں کے دلوں میں جگہ بنائی۔ جیسے جیسے فلم کی کہانی آگے بڑھتی ہے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ناظرین دعا کر رہے ہیں کہ راج اور سمرن پکڑے نہ جائیں اور وہ مل جائیں۔ اس کہانی سے لوگوں نے خود کو جوڑ کر دیکھا۔’

سمرن کے کردار کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے ایس ایم ایم اسجا کہتے ہیں ‘سمرن کا کردار جدید ہونے کے باوجود معاشرے میں قابل قبول تھا۔ کاجول کا کردار بیرون ملک تعلیم پاتا ہے اور مغربی لباس پہنتا ہے لیکن جب سمرن کا کردار انڈیا آتا ہے تو وہ ہندوستانی ثقافت میں ڈھل جاتا ہے۔ سمرن کے کردار میں ماڈرن دنیا اور روایتی ہونے کے مابین اچھی ہم آہنگی ہے کہ انڈیا کے متوسط طبقے کے گھرانے خود کو اس سے جوڑ سکتے ہیں۔ ناظرین کے لیے فلم سے جڑنا اس کی کامیابی کی ایک بہت بڑی وجہ تھی۔’

سینیئر فلم صحافی اجے برہمتماج کا کہنا ہے کہ ‘فلم انڈین نسل کے لوگوں کو پسند آئی۔ لوگوں کو ہیرو کا کردار اپیل کر گیا کہ وہ ہیروئن کے ساتھ بھاگ سکتا ہے، جس کے لیے ہیروئن کی والدہ بھی تیار تھی لیکن ہیرو والد کی اجازت کے بغیر شادی نہیں کرے گا۔ اس چیز نے لوگوں کو بہت متاثر کیا۔’

شاہ رخ خان بطور رومانٹک ہیرو

اجے برہمتماج کا کہنا ہے کہ شاہ رخ خان ‘دیوانہ’، ‘ڈر’، ‘بازی گر’ جیسی فلموں کے ذریعہ ناظرین میں مقبول ہوگئے تھے۔

اس دوران سلمان خان، عامر خان اور شاہ رخ خان تینوں ہی رومانٹک فلمیں کر رہے تھے۔ تاہم شاہ رخ جس توانائی کے ساتھ آئے تھے اس نے انھیں نوجوانوں سے جوڑ دیا۔

فلم مورخ ایس ایم ایم اسجا کا کہنا ہے کہ ‘ڈی ڈی ایل جے’ نے شاہ رخ خان کو رومانٹک ہیرو کا خطاب دیا۔

فلم کی موسیقی بھی بڑی وجہ تھی

‘ڈی ڈی ایل جے’ میں سات گیت ہیں اور تمام گیت سپر ہٹ ہوئے۔ جتن للت کی جوڑی نے موسیقی دی اور آنند بخشی کے گیتوں کو زبردست کامیابی ملی۔

یہ گیت لتا منگیشکر، آشا بھوسلے، اُدت نارائن، کمار سانو اور امیتابھ بھٹاچاریہ نے گائے تھے۔

ایس ایم ایم اسجا کہتے ہیں ‘فلم کی موسیقی فلم کے سپر ہٹ ہونے کی ایک بڑی وجہ تھی۔ یہ گانے دیکھنے میں بھی بہت خوبصورت تھے۔ جس کی وجہ سے اس فلم کو ریلیز سے پہلے ہی کافی پزیرائی ملی‘۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے میوزک کمپوزر للت پنڈت نے کہا کہ ڈی ڈی ایل جے کی موسیقی کا قائم کردہ ریکارڈ کبھی نہیں ٹوٹ سکے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘اگر کوئی فلم ہٹ ہوجاتی ہے اور اس کی موسیقی بھی اتنی ہی ہٹ ہوجاتی ہے تو وہ فلم آئیکانک بن جاتی ہے۔’

للت پنڈت اس بات پر خوش ہیں کہ ڈی ڈی ایل جے کے گیت اب کلاسک میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان کے مطابق ڈی ڈی ایل جے ان کی جوڑئ جتن للت کے کیریئر کا بلند ترین مقام رہا ہے۔

للت پنڈت نے بتایا کہ آشا بھوسلے انھیں یش چوپڑا سے ملانے لے گئی تھیں جہاں انھوں نے ‘میرے خوابوں میں جو آئے’ اور ‘مہندی لگا کے رکھنا’ گانے گائے تھے جسے آدتیہ چوپڑا نے بہت پسند کیا تھا اور آدتیہ چوپڑا نے ان کی مصروفیات کو دھیان میں رکھتے ہوئے پوچھا تھا کہ کیا وہ ڈی ڈی ایل جے فلم کے لیے وقت دے پائیں گے؟

یہ یش چوپڑا کے بیٹے آدتیہ چوپڑا کی بطور ہدایتکار پہلی فلم تھی۔

فلم کی کہانی سے متاثر ہو کر جتن للت نے حامی بھری اور پھر کیا تھا انھوں نے تاریخ رقم کر دی۔

ڈی ڈی ایل جے

آج تک مکالمے یاد ہیں

آپ کو 'دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ کے کچھ مکالمے بھی یاد ہوں گے۔ آئیے ان مکالموں پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

‘ایسا پہلی بار ہوا ہے سترہ اٹھارہ سالوں میں، اندیکھا انجانا کوئی آنے لگا ہے خوابوں میں۔’

‘بڑے بڑے دیشون میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں، سینوریٹا’

‘راج اگر وہ تم سے پیار کرتی ہے تو تجھے پلٹ کر ضرور دیکھے گی۔ پلٹ پلٹ۔’

‘تم اپنی زندگی ایسے لڑکے کے ساتھ گزار دوگی جسے تم جانتی نہیں ہو، ملی نہیں ہو، جو تمہارے لیے بالکل اجنبی ہے۔’

‘میں ایک ہندوستانی ہوں اور میں جانتا ہوں کہ ایک ہندوستانی لڑکی کی عزت کیا ہوتی ہے۔’

‘میری ماں کہا کرتی تھں کہ جو شادی والے گھر میں سیوا (خدمت) کرتا ہے اسے بہت خوبصورت دلہن ملتی ہے۔’

‘جا سمرن جا، جی لے اپنی زندگی۔’

امراؤ جان جیسی فلموں میں ڈائیلاگ لکھنے والے جاوید صدیقی کے ان مکالموں کو لوگوں نے خوب پسند کیا۔ ایس ایم ایم اسجا کے مطابق جاوید صدیقی پرانے مکالمہ نگار ہونے کے باوجود نوجوانوں کی زبان استعمال کرتے تھے، جن میں سے ‘جا سمرن’ اور ‘پلٹ’ مکالمے آئیکانک کے زمرے میں آتے ہیں۔

وہ فلم کے ڈائیلاگ کو فلم کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ سمجھتے ہیں۔

بیرون ملک مقیم انڈین اور ڈی ڈی ایل جے

ایس ایم ایم اسجا کے مطابق اس وقت بیرون ملک مقیم انڈین ناظرین میں پنجابی زیادہ تھے۔ یش چوپڑا کی دیگر فلموں کی طرح یہ فلم بھی پنجابی کلچر کا جشن مناتی ہے۔

فلم کا ماحول پنجابی ثقافت اور بیرون ملک مقیم انڈیئنز یعنی این آر آئی پر مبنی تھا۔ فلم کی کہانی روایتی ہندوستانی شادی کے گرد گھوم رہی تھی جس کی اپیل تھی اور انھوں نے این آر آئی ناظرین کو فلم سے جوڑ دیا۔

جہاں نوجوان راج اور سمرن کے کرداروں کو خود سے جوڑ رہے تھے وہیں دوسرے کردار بھی اپنا نقش چھوڑ رہے تھے۔ اس طرح کے کرداروں میں سمرن کی چھوٹی بہن ‘چٹکی’ بھی شامل تھی جسے پوجا روپاریل نے نبھایا۔ کلجیت کی بہن ‘پریتی’ کا کردار مندرا بیدی نے ادا کیا تھا اور بوا کا کردار ہیمانی شیوپوری نے ادا کیا تھا۔

بی بی سی کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ہمانی شیو پوری نے کہا کہ شوٹنگ کے دوران کام کرنے والا ہر ایک فرد ایک خاندان بن گیا تھا۔ شوٹنگ کے دوران انھیں ذرا سا بھی خیال نہیں گزرا کہ یہ فلم مستقبل میں آئیکانک بن جائے گی۔ ان کے کریئر میں ‘ہم آپ کے ہیں کون’ کے بعد یہ دوسری بڑی فلم تھی۔

ہیمانی شیوپوری کہتی ہیں کہ اسی فلم سے ہندی فلم انڈسٹری کو ‘بوا’ یعنی ‘آنٹی’ یا پھوپھی کا کردار ملا۔ اس سے قبل خواتین کرداروں میں ماں، بھابھی، بہن، چچی یا خالہ شامل تھیں لیکن ڈی ڈی ایل جے کے بعد پھوپھی کا کردار بنایا گیا۔ ان کی فلم کی شوٹنگ سے بہت خوبصورت یادیں وابستہ ہیں۔

شاہ رخ کے ساتھ سین کے بارے میں ہیمانی شیوپوری کا کہنا ہے کہ ‘ایک منظر میں شاہ رخ کا کردار مجھے ساڑھی کا مشورہ دیتا ہے۔ حالانکہ شاہ رخ اس شاٹ میں نہیں تھے، پھر بھی وہ اس منظر کے لیے میری مدد کر رہے تھے۔’

ڈی ڈی ایل جے کی آئیکانک چیزیں

ڈی ڈی ایل جے کے نام پر گانے اور مکالموں کے علاوہ بھی بہت ساری چیزیں ذہن میں آتی ہیں۔ راج کا سمرن کا ہاتھ تھام کر چلتی ٹرین پر کھینچنا، راج کے کردار کی کالی جیکٹ اور کالی ہیٹ، گائے کی گردن کی گھنٹی، کبوتر، راج کا مینڈولین موسیقی کا آلہ، سرسوں کا کھیت، کروا چوتھ کا ورت، کاجول کی عینک وغیرہ۔

فلم کا مشہور ٹرین کا منظر کئی ہندی فلموں میں استعمال کیا گیا ہے جس میں روہت شیٹی کی ‘چینئی ایکسپریس’ امتیاز علی کی ‘جب وی میٹ’، ورون دھون اور عالیہ بھٹ کی ‘بدری ناتھ کی دلہنیا’ وغیرہ شامل ہیں۔

ڈی ڈی ایل جے اور آج کا بدلتا ہوا معاشرہ

ڈی ڈی ایل جے کو ناظرین کی طرف سے بہت زیادہ پیار ملا۔ لیکن اس فلم کی بہت سی چیزیں آج کے معاشرے سے مماثلت نہیں رکھتی ہیں۔

سینیئر صحافی اجے برہمتماج کے مطابق ‘جب انھوں نے 1995 میں یہ فلم دیکھی تو انھیں یہ بہت پسند آئی تھی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ انھیں فلم میں دکھائی جانے والی انڈین اقدار کھوکھلی نظر آئیں اور فلم قدامت پسند معلوم ہوئی۔’

جہاں آج دنیا میں خواتین کو بااختیار بنانے کی لہر ہے اس فلم کی بہت سی چیزیں آج کے بدلتے معاشرے میں ٹھیک نہیں ہیں۔ جیسے یورپ ٹرپ کے دوران جب راج کا کردار سمران کی توجہ مبذول کروانے کے ليے نامناسب حرکتیں کرتا ہے تو سمرن اسے مسترد کرتی ہے۔

لیکن راج کا کردار سمجھتا نہیں ہے اور اپنی چالبازیاں جاری رکھتا ہے۔ اس طرح کے سلوک کو آج کے دور میں ہراساں کرنا کہا جاتا ہے۔

فلم ایک طرح سے صنفی امتیاز کو بھی پیش کرتی ہے۔ فلم میں فرمانبردار، شرمیلی، روایتی اور قربانی دینے والی خواتین کرداروں کو مثالی کہا گیا ہے۔ اس فلم میں تمام فیصلے مرد ہی کرتے ہیں۔

راج کے کردار کا مکالمہ ‘میں جانتا ہوں کہ ایک ہندوستانی لڑکی کی عزت کیا ہوتی ہے’ سے ظاہر ہوتا ہے کہ انڈیا میں خواتین کی عزت ان کی پاکدامنی پر منحصر ہے جو کہ قدامت پسند سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر یہ فلم موجودہ دور میں آتی تو نوجوان نسل میں شاید ہی اتنی کامیاب ہوتی۔

لیکن اپنے زمانے میں یہ فلم رومانس کے ایک تازہ جھونکے کی طرح آئی تھی جس کی خوشبو آج بھی لوگ محسوس کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp