دیہی ترقی، مضبوط معیشت


پاکستان کا شمار دنیا کے ایسے ممالک میں کیا جاتا ہے، جو زرعی اعتبار سے کافی وسائل سے مالا مال ہیں۔ جب کہ آبادی کا ایک بڑا حصہ، اب بھی دیہی علاقوں میں قیام پذیر ہے۔ ایسے میں دیہی تعمیر و ترقی کی ضرورت شدت سے محسوس کی جاتی ہے۔ زراعت کو جد ید خطوط پر استوار کرنا، دیہی علاقوں میں بنیادی انفراسٹرکچر کی ترقی، دیہی باشندوں کو مناسب روزگار کی فراہمی سے، ان کے معیار زندگی میں بہتری، دیہی علاقوں میں ضروریات زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی، یہ وہ تمام عوامل ہیں، جن پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے پائیدار ثمرات حاصل کیے جا سکتے ہیں، اور شہروں کی جانب نقل مکانی کے دباو میں بھی کمی واقع ہو سکتی ہے۔

پاکستان کی طرح چین بھی ایک ترقی پذیر ملک ہے، جو اپنی متحرک قیادت اور مضبوط پالیسیوں اور اصلاحات کی بدولت آج دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ زندگی کا کوئی بھی شعبہ اٹھا لیا جائے، ترقی کے اعتبار سے چین آپ کو سر فہرست نظر آتا ہے۔ چین کی ترقی میں عوام کی خوش حالی پر مبنی پالیسیاں اہم اساس ہیں۔ اس سفر میں شہری اور دیہی علاقوں کی یکساں تعمیر و ترقی کو ہمیشہ اہمیت دی گئی ہے۔ رواں برس، چین غربت کے مکمل خاتمے سے ایک معتدل خوش حال معاشرے کی تکمیل کرے گا، جو یقیناً اقوام متحدہ کے دو ہزار تیس کے پائیدار ترقیاتی اہداف میں شامل، انسداد غربت کے ہدف کی تکمیل کی ایک اہم کڑی ہے۔

جدید زرعی اصولوں کی بدولت، چین آج خوراک میں خود کفیل ہو چکا ہے۔ جب کہ زرعی مصنوعات کی در آمدات و بر آمدات کے حوالے سے بھی دنیا کے اولین ترین ممالک میں شامل ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں میں زراعت چین کی اقتصادی ترقی اور غربت کے خاتمے کی اہم قوت رہی ہے۔ زراعت میں سرمایہ کاری کی بدولت پیداوار میں اضافہ ہوا، جس سے زرعی تجارت کو فروغ ملا اور ملک بھر میں ”ایگری۔ فوڈ انڈسٹری“ کی مضبوطی اور کاروباری مواقع کو بھر پور وسعت ملی۔

اس ضمن میں، چین جدت کے تحت اعلیٰ معیار کی زرعی ترقی کے نظریے پر عمل پیرا ہے۔ دیہی علاقوں میں انٹر نیٹ کی بدولت، کسانوں کو اپنی مصنوعات آن لائن فروخت کرنے کے مواقع ملے ہیں۔ اشیا کی ترسیل میں بھی آسانیاں پیدا ہوئی ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ چین کے دیہی علاقوں میں انٹر نیٹ صارفین کی تعداد، اٹھائیس کروڑ سے زائد ہے، جو ملک میں مجموعی صارفین کی تعداد کا تیس فی صد سے زائد ہے۔ اس طرح شہری، دیہی ڈیجیٹل خلا کو نمایاں حد تک کم کیا گیا ہے۔ انٹر نیٹ نے دیہی علاقوں میں انسداد غربت کی کوششوں کو آگے بڑھانے میں نمایاں مدد فراہم کی ہے، جب کہ دیہی باشندوں میں شعور اجاگر کرنے اور کاروباری اداروں کی حوصلہ افزائی میں بھی معاونت ملی ہے۔

دیہی علاقوں کی ترقی کے لیے، چین کی ترجیحات کو پانچ اہم شعبوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ غربت کے خلاف جنگ میں فتح، دیہی علاقوں میں عوامی سہولیات اور بنیادی انفرا سٹرکچر کی بہتری، اہم زرعی مصنوعات کی فراہمی کی ضمانت، کسانوں کی آمدن میں اضافے کے لیے سہولیات کی دستیابی، دیہی علاقوں میں نچلی سطح پر گورننس کے نظام اور دیہی امور میں مضبوطی۔ اس ضمن میں کوشش کی جا رہی ہے کہ دیہی علاقوں میں سماجی ہم آہنگی اور استحکام کو برقرار رکھا جائے، تا کہ دیہی باشندے خود کو مزید آسودہ، خوش حال اور محفوظ تصور کر سکیں۔ مستحکم پالیسیوں کی بدولت اس بات کو یقینی بنایا جا رہا ہے کہ ایسے افراد جو غربت سے نجات پا چکے ہیں، وہ غربت کا دوبارہ شکار نہ ہو پائیں۔

چین میں دیہی امور کے حوالے سے عوامی سہولیات کی مسلسل بہتری کو ترجیح دی گئی ہے۔ پینے کے شفاف پانی اور ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنایا گیا ہے۔ دیہی علاقوں میں تعلیمی نظام کو مضبوط بنایا گیا ہے اور تعلیمی انفرا سٹرکچر میں نمایاں حد تک بہتری لائی گئی ہے۔ رواں برس ملک بھر میں ایک لاکھ سے زائد کالج گریجو ایٹس کی بھرتی کا فیصلہ کیا گیا ہے جو دیہی علاقوں میں نو سالہ لازمی تعلیم کی فراہمی میں معاونت فراہم کریں گے۔

اس اقدام کا مقصد، شہری طرز پر دیہی علاقوں میں تعلیم کی فراہمی سے، دیہی ترقی کے عمل کو آگے بڑھانا ہے۔ اسی طرح دیہی علاقوں میں طبی نگہ داشت کے نظام کو مزید موثر بنانے کے لیے اقدامات جاری ہیں اور دنیا نے حالیہ عرصے میں کووڈ۔ 19 کی وبائی صورت احوال میں بھی دیکھا کہ چین نے کس طرح صحت عامہ اور عوام کے جانی تحفظ کو فوقیت دیتے ہوئے لازمی اقدامات اپنائے۔ دیہی علاقوں میں فوڈ سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے اناج کی مستحکم فراہمی جاری ہے۔ ڈیری اور پولٹری صنعت کی ترقی کے لیے دیہی باشندوں کو تربیت فراہم کی گئی ہے تا کہ خود روزگاری کو فروغ حاصل ہو سکے۔

مقامی علاقوں کی خصوصیات کی بنیاد پر صنعتوں کو ترقی دی گئی ہے۔ چھوٹی چھوٹی صنعتوں مثلاً: ظروف سازی، دست کاری اور ثقافتی سرگرمیوں کو بھی اہمیت دی گئی ہے۔ دیہی سیاحت کے فروغ سے شہریوں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے کہ وہ بیرون ملک کی بجائے اپنے مقامی علاقوں کا رخ کریں۔ دیہی قرضوں، ٹیکس مراعات، سبسڈیز اور دیگر مالیاتی پالیسیاں دیہی باشندوں کی فلاح و بہبود کے لیے تشکیل دی گئی ہیں۔

انہی موثر اقدامات کے باعث آج چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے اور ترقی کا یہ سفر رواں دواں ہے۔ دیگر ممالک کی طرح چین بھی وبائی صورت احوال سے متاثر ضرور ہوا ہے، مگر چینی دانش کی روشنی میں وبائی اثرات میں ممکن حد تک کمی کے لیے کوشاں ہے۔ کووڈ۔ 19 کی پیچیدہ صورت احوال میں جہاں دنیا بھر کی معیشتیں شدید دباو کا شکار ہیں، وہاں چین انسداد وبا اور اقتصادی سماجی ترقی میں ہم آہنگی کے تحت آگے بڑھ رہا ہے اور عالمی ادارے بھی چین کے معاشی اشاریوں سے متعلق پر امید ہیں، جو چین کی مضبوط پالیسیوں کا کھلا اعتراف ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments