یہ شعور کے زوال کا موسم ہے


یونان کے شہر ریتھمنو کی ایک عدالت میں قاتل نے اعتراف کیا کہ جو اس سے سرزد ہوا ہے، یہ اس کے بس میں نہیں تھا۔ اس کے ذہن پر جنات کا مکمل قبضہ تھا اور وہ اسے حکم دے رہے تھا، لہذا وہ جنات کے تابع تھا۔ یہ اٹھائیس سالہ یانس پاراس کاکس، یونان کا ایک مقامی کسان ہے، جس کا باپ ایک پادری ہے۔ جب کہ یہ خود دو بچوں کا باپ ہے۔

جرمنی کے ایک ادارے میکس پلانک انسٹیٹیوٹ آف مالیکیولر سیل بیالوجی اینڈ جینیٹکس کی پروفیسر ایٹن کی کہانی، اس دور کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ سوزن ایٹن ایک عالمی شہرت یافتہ ماہر حیاتیات تھی۔ گزشتہ برس وہ یونان کے ایک جزیرے کریٹے میں سیر و تفریح کے لئے آئی۔ ایک دن جب وہ کہیں قدرت کے مشاہدات میں مگن تھی، تو اچانک ایک گاڑی اس سے ٹکرائی اور وہ گر کر بے ہوش ہو گئی۔ ٹکر مارنے والا اسے گاڑی میں ٹھونس کر ایک ویران علاقے کی سمت رواں ہوا۔

وہاں پہنچ کر بد بخت ڈرائیور نے، ایٹن کو گاڑی سے اتارا اور گھسیٹ کر دوسری جنگ عظیم میں نازیوں کے ہاتھوں بنے ایک پرانے بنکر میں پھینک دیا۔ پھر اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ ایٹن کی آنکھ کھلی، تو اسے آسمان پھٹتا دکھائی دیا۔ اس نے مزاحمت کرنا چاہی، تو خون خوار بھیڑیے نے عظیم سائنسدان کی جان لے لی۔ یہ درندہ نعش چھوڑ کر چلا گیا۔ کچھ عرصے بعد یہاں آئے چند سیاحوں کو نعش ملی، تو انہوں نے متعلقہ حکام کو آگاہ کیا۔ پولیس نے تحقیقات شروع کیں، تو ڈی این اے رپورٹ کی بنیاد پر قاتل کا سراغ لگانے میں کامیاب ہو گئی۔ پھر اس پہ مقدمہ چلا اور آج اس نے اقبال جرم کرتے ہوئے کہا کہ اس کے ذہن کا ریموٹ، جنات کے ہاتھ میں تھا، لہذا جنات ہی اس کے ذمہ دار ہیں۔

ایٹن ایک نامور سائنسدان تھی۔ اس نے کئی بڑے ایوارڈ جیتے۔ امریکا میں اپنی تحقیق کا لوہا منوایا۔ وہ جرمنی میں بھی بہت شہرت پا چکی تھی۔ مگر جو یونان قدیم عہد سے علم کا گہوارہ تھا، وہی دنیا کی اس عظیم سائنسدان کے لئے موت کی وادی ثابت ہوا۔

آج سے دو سال پہلے جمال خاشقجی امریکا سے ترکی گئے۔ انہیں ایک نجی کام کے سلسلے میں سعودی قونصل خانے جانا تھا۔ ان کی منگیتر قریب دس گھنٹے انتظار میں پتھر ہوتی رہیں، مگر سعودی فرماں روا کے سپاہی خاشقجی کو کسی نادیدہ سیال مادے میں گھول کر پی چکے تھے۔ جمال خاشقجی سعودی حکومت پر صحت مند تنقید کرنے والے دانشور تھے۔ وہ امریکا میں خود ساختہ جلا وطن تھے اور عرب امور پر گہری نظر رکھتے تھے۔ قتل سے پہلے امریکا کے ایک مشہور اخبار واشنگٹن پوسٹ میں کالم لکھا کرتے تھے۔

انہوں نے کئی بار اس بات کا خدشہ ظاہر کیا کہ سعودی حکومت سے انہیں جان کا خطرہ ہے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ طاقت کے نشے میں دھت خون خوار درندے، ان کا تعاقب کر رہے ہیں۔ تاہم اسی سال مئی میں خاشقجی کے بیٹے نے سعودی ولی عہد کے دباؤ کی وجہ سے بیان دیا تھا کہ ہم اپنے باپ کے قاتلوں کو اللہ کی رضا کے لئے معاف کر رہے ہیں۔ جس پر خاشقجی کی منگیتر نے کہا تھا کہ ”یہ انصاف کا مذاق اڑایا گیا ہے“۔

دنیا میں دانشوروں کا قحط پڑنے والا ہے۔ مشہور فرانسیسی فلاسفر مارگینتھاؤ نے کہا تھا کہ ”عالمی سیاست طاقت کی بنیاد پہ قائم ہے“۔ دنیا میں جب بھی طاقت کا توازن بگڑنے لگے تو نظریات پر واقعات حاوی ہو جاتے ہیں۔ سائنسدانوں، فلاسفروں اور محققین کی وقعت کم ہونے لگتی ہے۔ ایک عام آدمی سے لے کر ریاست تک سب جلدی سے مفاد کا حصول چاہتے ہیں۔ اس دوڑ میں واقعات رونما ہونے لگتے ہیں۔ صحت مند مباحث کی جگہ مشورے اور منصوبے زور پکڑنے لگتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اجتماعی شعور کا جنازہ نکلنا شروع ہو جاتا ہے۔

دنیا میں آمرانہ حکومتیں، مقبول لیڈر اور کنٹرولڈ نظام رائج ہو چکے ہیں۔ تیسری دنیا کے ملکوں میں معیشت ایک دیوانے کا خواب بنتی جا رہی ہے۔ روز ایک نیا ریسرچ سینٹر اور تھنک ٹینک، نئی کہانی لکھتا ہے۔ مگر ریاستیں نہ تو محققین کو مدد فراہم کر رہی ہیں اور نا ہی اس دور کا نفسیاتی، معاشی اور معاشرتی مطالعہ چاہتی ہیں۔ ریاستوں کو ایسے منصوبے چاہیے، جو انہیں کم سے کم مدت میں مقررہ اہداف تک پہنچا سکیں۔ لہذا وہ لمبی ریسرچ اور تھکا دینے والی تحقیق کو بے کار کی چیز سمجھ رہی ہیں۔

اسی لئے اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں، دنیا کئی عظیم دماغوں سے محروم ہو گئی۔ دو ہزار دس اور بارہ کے درمیان چار ایرانی نیوکلیئر سائنسدان مبینہ طور پہ قتل کر دیے گئے۔ دس کے قریب ہندوستانی نیوکلیئر سائنسدان غیر طبعی موت مرے، جن میں سے کچھ نے خود کشی کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نیوکلیئر سائنسدانوں کی موت کے پیچھے زیادہ تر خفیہ ہاتھ ہی ہوتے ہیں۔ مگر سائنسدانوں نے ہی یہ مہلک ہتھیار ایجاد کیے ہیں اور سائنسدان ہی ان کو مفید بنا سکتے ہیں۔

ریاستیں اپنے مفادات کی خاطر گھناؤنے کھیل میں غرق ہیں اور قدرت تیزی سے ہمیں عظیم دماغوں سے محروم کر رہی ہے۔ اسی عشرے میں سٹیفن ہاکنگ اور ڈاکٹر اسرار ہم سے بچھڑ گئے۔ نا صرف عالم، سائنسدان اور فلاسفر بلکہ قدرت ہم سے ہر طرح کے عظیم انسان چھین رہی ہے۔ محمد علی کلے بھی نہ رہے۔ ہالی ووڈ کے کئی ستارے جنہوں نے ہمارے جمالیاتی شعور کو جلا بخشی تھی اور بالی وڈ سے عرفان خان سمیت، کئی چہرے اٹھا لئے گئے۔ ادب کی رنگین دنیا بھی ویران ہو گئی۔ راحت اندوری کے جانے کے بعد کئی لوگوں کے دل سے آہ نکلی:
چھوٹا سا خاندان ہے اردو غزل کا اور
ایک ایک کر کے سارے بڑے جا رہے ہیں یار

دنیا میں جنگوں کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے۔ سوچنے والوں کے لئے مایوسی کی رات طویل تر ہوتی جا رہی ہے۔ آج ایٹن کے قاتل کا اقبال جرم سن کر مجھے لگا کہ دنیا میں عقل کا قحط پڑنے والا ہے۔ لیکن میں اس امید پہ زندہ ہوں کہ شعور کی بالیدگی وقت کے ساتھ ساتھ جاری رہتی ہے۔ سیاسی طاقتیں اور جہالت شعور کو مٹا نہیں سکتے۔ بے شک یہ شعور کے زوال کا موسم ہے، لیکن اسی سیاہ رات سے نور نکلے گا۔

وقار احمد، ممتاز آبادی
Latest posts by وقار احمد، ممتاز آبادی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).