ریئلٹی چیک: یورپ کے جوہری تحقیقی مرکز میں ہندو دیوتا کا مجسمہ کیوں؟


سوئٹزرلینڈ اور فرانس کی سرحد پر واقع دنیا کے بہترین سائنسی تحقیقی اداروں میں سے ایک یوروپین آرگنائزیشن فار نیوکلیئر ریسرچ (سی ای آر این یعنی سرن) میں انتہائی پیچیدہ مشینوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔

اس کی آفیشل ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ ’ہم (ایٹم کے) ذرات کے بنیادی ڈھانچے کی تحقیقات کرتے ہیں جن سے ہماری آس پاس کی ہر چیز بنی ہوئی ہے۔ ہم دنیا کے سب سے بڑے اور پیچیدہ سائنسی آلات استعمال کرتے ہیں۔‘

’گاڈ پارٹیکل‘ کہلانے والے ہِگس بوسون کی موجودگی کو اس وقت تک ایک مفروضے سے زیادہ نہیں تصور کیا جاتا تھا جب تک کہ سنہ 2012 میں اسی ادارے میں نصف لارج ہیڈرون کولائیڈر نامی پارٹیکل ایکسیلیریٹر کا استعمال کرتے ہوئے اس کی تصدیق نہیں کر دی گئی۔

انسانی تہذیب کی تاریخ میں اتنی اہمیت کے حامل اس ادارہ میں ہندو دیوتا شیو کا نٹراج والا مجسمہ لگا ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

بھگوان شیوا کی خاطر خود کو سلاخوں پر لٹکانے والا تہوار

فزکس کو ’مردوں کی ایجاد‘ کہنے والا سائنسدان معطل

اس مجسمے کو 18 جون سنہ 2004 میں سرن کے احاطے میں لگایا گیا تھا۔ یہ محض اتفاق ہوسکتا ہے کہ اسی سال بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک اور اورکٹ کا قیام عمل میں آیا تھا۔

انٹرنیٹ کی آمد کے ساتھ سوشل میڈیا کرۂ ارض پر کروڑوں لوگوں تک پہنچ چکا ہے اور اسی طرح جعلی خبروں نے بھی اپنا دائرہ پھیلایا ہے۔ نٹراج کے اس مجسمے کے بارے میں بھی بہت سی جعلی خبریں پھیلیں۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ سرن کے احاطے میں نٹراج کے مجسمے کے بارے میں کیا کیا جھوٹی خبر پھیلائی گئیں اور وہاں اس کی تنصیب کی اصل وجہ کیا تھی؟

کچھ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ نٹراج کا مجسمہ ایٹم کی ساخت کو بیان کرتا ہے اور اسی وجہ سے جو سائنسدان ایسا مانتے ہیں انھوں نے اسے سرن کے کیمپس میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ایک دوسری جعلی خبر میں بتایا گیا ہے کہ اس مجسمے میں نٹراج ‘آنند ٹانڈوم’ یعنی سرخوشی میں رقص کر رہے ہیں جسے غیر ملکی سائنس دان ’کوسمک ڈانس‘ یعنی کائناتی رقص کہتے ہیں۔ یہ پوز کسی ایٹم کے اندر ذیلی ایٹموں کی رفتار کی طرح ہے۔

فیک نیوز میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ ’نٹراج پوری کائنات کی علامت ہے اور اس کا اعلان کرنے کے لیے ہی سرن کے سائنسدانوں نے یہ مجسمہ وہاں نصب کرنے کا فیصلہ کیا۔‘

ہندو دیوی اور دیوتاؤں کے بارے میں اس طرح کی تمام سچی جھوٹی باتیں اور سائنسی طور پر غلط کہانیاں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔

سرن کیمپس میں اس کو لگانے کی اصل وجہ سے قبل آ‏ئیے ہم اس سے متعلق کچھ دلچسپ حقائق جانتے ہیں۔

اسے خدا کے منکر بت تراش نے بنایا

اس مجسمے کو بنانے والے فنکار خدا کے منکر ہیں اور ان کا تعلق انڈیا کی جنوبی ریاست تمل ناڈو سے ہے۔ ’سرپی‘ (فنکار) کے نام سے مشہور راجن تمل سوشل میڈیا حلقوں میں پیریار کے اصولوں کے سرگرم حامی ہیں۔

تمل ناڈو میں توہم پرستی، ذات پات کے نظام، مذہبی عقائد اور علم نجوم وغیرہ پر تنقید کرتی ہوئی ویڈیوز کی وجہ سے وہ اکثر دائیں بازو کے حامیوں اور کارکنوں کو نشانے پر ہوتے ہیں۔

بی بی سی تمل سے گفتگو کرتے ہوئے راجن نے کہا کہ انھیں انڈین وزارت خارجہ کی جانب سے سنٹرل کاٹیج انڈسٹریز ایمپوریم نے سنہ 1998 میں اسے بنانے کے لیے کہا تھا۔

کبھی تمل ناڈو کے کمبھ کونم میں رہنے والے راجن پچھلے کچھ سالوں سے اس کاروبار میں نہیں ہیں۔

وہ کہتے ہیں: ’سنہ 1980 کی دہائی سے میں دلی اور شمالی ریاستوں میں مسلسل جاتا تھا اور پیشہ ورانہ وجوہات کی بناء پر سینٹرل کاٹیج انڈسٹریز ایمپوریم سے رابطے میں تھا۔ انھوں نے مجھے یہ مجسمہ بنانے کا آرڈر دیا تھا۔‘

مجسمہ سازی اور فنِ آذری میں دلت کام کرنے والے لوگوں کو شامل کرنے والے راجن نے کہا: ‘میرے نظریے اور میرے پیشہ کے مابین کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔’

پھر اس مجسمے کو نصب کرنے کی کیا وجہ ہے؟

سرن کی 39 اور 40 نمبر عمارتوں کے مابین مستقل طور پر نصب شیو کا مجسمہ انڈین حکومت نے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو بطور تحفہ پیش کیا تھا۔

سرن کی ویب سائٹ پر ایک سوشل میڈیا سوال کے جواب میں اس کا تذکرہ کیا گیا: ’شیو کا یہ مجسمہ انڈیا کی طرف سے سرن کے ساتھ اپنی رفاقت کے اظہار کے لیے ایک تحفہ تھا۔ یہ رشتہ سنہ 1960 کی دہائی میں شروع ہوا تھا اور آج بھی یہ مضبوط ہے۔’

اگرچہ انڈیا کوئی یورپی ملک نہیں ہے لیکن وہ تقریبا چھ دہائیوں سے سرن کا رکن ہے۔ انڈین حکومت نے اس مجسمے کو سائنسی وجوہات کی بنا پر نہیں بلکہ سفارتی وجوہات کی بنا پر تحفہ کے طور پر سرن کو دیا تھا۔

سرن کے مطابق: ‘ہندو مذہب میں بھگوان شیو نے نٹراج رقص پیش کیا جو طاقت یا زندگی کی علامت ہے۔ اس دیوتا کو انڈیا کی حکومت نے اس استعارے کی وجہ سے منتخب کیا تھا جو نٹراج کے آفاقی رقص اور ذیلی جوہری ذرات کے ’کائناتی رقص‘ کے جدید مطالعے کے دوران پیدا ہوا تھا۔‘

یہ صرف ایک علامت ہے جو انڈیا کی حکومت نے دیومالائی کہانیوں اور سائنس کے مابین ہم آہنگی کے طور پر تیار کی ہے، جسے کئی سالوں سے مختلف حلقے بغیر کسی سا‏ئنسی حقیقت یا منطقی مدد کے سائنسی توجیہ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32539 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp