سیاسی موروثیت پر معترض دانشور


جمہوریت کی بحالی کی تحریک کے خلاف آمریت پسند شکست خوردہ پاکستانی دانشور کی آخری سڑی ہوئی اور بوسیدہ دلیل ”موروثیت“ ہوتی ہے۔ بڑی جماعتوں کی قیادت میں موروثیت کو بالفرض فی نفسہ غلط تسلیم بھی کر لیا جائے تو اس کی وجوہات کا جائزہ سے یہ بات بالکل واضح نظر آتی ہے کہ بڑی جماعتوں پی پی اور نون لیگ کی حد تک اس رجحان کو پالنے پوسنے اور زندہ رکھنے کی اصل ذمہ دار ملک کی مقتدرہ ہے جس نے بھٹو کی پھانسی سے لے کر، جلا وطنی، جبری برطرفی، قید و بند اور ڈکٹیٹیڈ نا اہلیوں کے ذریعے ان پارٹیوں کی قیادت کی اولاد کو سیاست میں دھکیلا۔

بھٹو کو پھانسی دے کر اور خاندان اور پارٹی کو دیوار سے نہ لگا دیا جاتا تو بے نظیر اور نصرت، بے نظیر کے مقتدرہ کے ہاتھوں قتل کے بعد بلاول شاید آج سیاست میں نہ ہوتے، قریبا یہی حال مریم نواز کا بھی ہے۔

مقتدرہ کی سیاسی جماعتوں کے اندر اپنے ایجنٹ داخل کرنے کے عمل نے بھی سیاسی جماعتوں اور ان کے ووٹروں کو براہ راست قیادت اور کے خاندان کو ہی فالو کرنے پر مجبور کیا بلکہ اس میں تو پاکستانی ووٹر اس حد تک سمجھدار ہے کہ اس نے اپنے کسی محبوب لیڈر کے خاندان میں سے بھی کسی ایسے شخص کو جو اسٹیبلشمنٹ کے کٹھ پتلی ہو یا جماعتی ویژن سے منحرف ہو کو قیادت کے لیے شرف قبولیت کبھی نہیں بخشا۔ بے نظیر کے مقابلے میں ممتاز بھٹو، مرتضی بھٹو کی ووٹرز میں عدم مقبولیت اور مریم کے مقابلے میں شہباز کی قیادت پر نون لیگ کے ووٹروں کا کم اعتماد اس کی چند مثالیں ہیں۔

یہ بات تو خیر منجمد سوچ والے دانشوروں کی سمجھ میں سما ہی نہیں سکتی کہ ووٹر جسے چاہیں، چاہے ہو قائد کی اولاد ہو، وہی پارٹی قیادت کا حقدار ہے اور یہی جمہوریت ہے۔ پاکستانی ووٹر بارہا متبادل قیادت کو اپنی مرضی سے مسترد کر کے اس ”موروثیت“ والی دلیل کو جھٹلا چکا ہے۔ قیادت پر جے یو آئی سے علیحدہ ہونے والے سمیع الحق جے یو آئی کے ووٹ بنک میں باوجود مقتدرہ کی مستقل حمایت کے، موروثیے فضل الرحمان کی کبھی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکے۔ پی پی کا تو خیر ذکر ہی کیا جس کے ووٹر نے ہمیشہ اپنی آزادانہ مرضی سے پارٹی کی مین سٹریم قیادت کے مقابل آنے والے کو چاہے ہو اسٹیبلشمنٹ کا پٹھو تھا یا نہیں ہمیشہ دھول چٹائی۔

پاکستانی سیاسی پاٹیوں کا ووٹر مقتدرہ کی طاقت اور ہتھکنڈوں کے سامنے اپنی بے بسی اور اپنی قیادت کے عدالتی قتل، جلاوطنی، برطرفی اور دن دیہاڑے خون بہائے جانے کا انتقام مقتدرہ کے معتوب سیاستدان کی اولاد پر پارٹی قیادت کے لیے اعتماد کر کے دیتا ہے اور مقتدرہ اور اس کے ذلہ خوار دانشوروں کو اپنے عمل سے پیغام دیتا چلا آ رہا ہے کہ کبھی احتساب اور کبھی کسی اور نام سے ہماری سیاسی قیادت کو انتقام کا نشانہ بنانا بند کرو، ہماری پارٹیوں میں مداخلت بند کرو، ہمارے ووٹوں کے بکسے اور مینڈیٹ چوری کرنا بند کرو۔

ہماری پارٹی کی قیادت کس کے پاس ہے اس فکر میں اپنے دماغ اور جسم کی چربی گھلانے کی بجائے اگر مداخلت بند کردو تو جب بھی ہمارا دل چاہے گا ہم لیڈر کے خاندان سے باہر کی قیادت کے پیچھے چل پڑیں گے۔ پارٹی کو اندرونی انتخابات کے لیے مجبور کریں، کسی نئی پارٹی کے پیچھے چل پڑیں گے۔
اس وقت تک مقتدرہ اور اس کے تنخواہ دار دانشوروں کی ”موروثی سیاست“ پر تنقید ہماری ٹوٹی چپل کی نوک پر!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).