ڈریم ایلون اور امیری کے خواب


ہر شخص کو امیر بننے کی چاہ ہوتی ہے۔ اس کے لیے وہ محنت نہیں کرتا بلکہ قلیل مدت میں اپنے خوابوں کی تعبیر چاہتا ہے۔ کوئی لاٹری میں اپنی قسمت آزماتا ہے، تا کہ اپنے دیکھے ہوئے سپنوں کو، جن میں وہ سیٹھ اور لکھ پتی ہو گیا تھا، حقیقت کا روپ دیں، تو کوئی مختلف پروگراموں میں حصہ لے کر کروڑ پتی بننا چاہتا ہے۔ کروڑ پتی تو ہر ایک نہیں بنتا، ہاں مگر مرد، پتی پرمیشور کے سنگھاسن پر ضرور بیٹھ جاتے ہیں۔ جوا بھی اسی خواہش کی تکمیل کے لیے کھیلا جاتا ہے۔

زمین، جائیداد اور گھر ہار کر بھی یہ لت اسے نہیں چھوٹتی اور وہ لگاتار اسی کوشش میں لگا رہتا ہے کہ کسی نا کسی دن جیت اس کے گلے کا ہار بن جائے گی۔ اس بد فعلی میں پڑ کر بد نامی، رسوائی اور جواری جیسے طعنوں کا سامنا بھی رہتا ہے۔ امیر بننے اور زر کے حصول کے لیے انسان ہر رکاوٹ اور روڑے (پتھر) کو دور کرتا ہے۔ وہ صرف چاہتا ہے کہ پیسے آئے، جس کے لیے وہ طریقوں کی پروا نہیں کرتا۔ جائز یا نا جائز طریقوں سے وہ صرف اپنی خواہش کی تکمیل چاہتا ہے۔

چوری، سمگلنگ اور اس قبیل کی دیگر واردات کو انجام دینے سے بھی ایسے بشر گریز نہیں کرتے۔ تیز رفتاری سے امیر بننے کے لیے پہلے سٹے کا سہارا لیا جاتا تھا، اب یہ ذمہ داری ڈریم ایلون نامی اپلیکیشن نے اٹھائی ہے۔ اس اپلیکیشن نے سٹے کو مباح کا لبادہ پہنایا ہے۔ اس کے ذریعے ہر عمر کا فرد گھر بیٹھے دو ٹیموں میں سے اپنی ایک ٹیم کا انتخاب کر کے زر جتنے اور مدت قلیل میں امیر بننے کی دوڑ میں شامل ہو جاتا ہے۔ جیتنے کے شوق میں کام کاج سے منہ موڑ لیتا ہے۔

اس اپلیکیشن کے ساتھ مصروف رہ کر جیتنے کی آرزو میں اپنے پیسے، وقت اور دماغ لگا دیتا ہے۔ ہر وقت اسی میں کھویا رہتا ہے۔ بار بار اپنی پوزیشن کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ خود کو جیت کی طرف بڑھتا دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتا ہے اور ہار کا ہار اپنے گلے میں دیکھ کر کبیدہ خاطر ہو جاتا ہے۔ ہر دن امید کا ہاتھ پکڑ کر اسی خیال سے ٹیم کا انتخاب کرتا ہے کہ کبھی نہ کبھی سوئی ہوئی قسمت جاگ جائے گی اور وہ جیت جائے گا۔ ہر روز کوشش کرتا رہتا ہے تا کہ وہ سپنے پورے ہوں، جو ابھی تک ادھورے رہے ہیں۔

ڈریم ایلون میں اپنی ٹیم بنا کر ’ڈریم‘ کی وادی کی سیر کرتے کرتے، اکثر اسی حالت میں اونگھ جاتا ہے۔ خواب دیکھتا ہے کہ وہ ایک کروڑ کا مالک بن گیا ہے۔ طرح طرح کے منصوبے بناتا ہے۔ گاڑی خریدنے کا اپنا دیرینہ خواب پورا کرتا ہے۔ قسم قسم کی گاڑیوں میں اپنی پسند کا انتخاب کرتا ہے۔ گاڑی میں کن کن علاقوں کے گشت کرنے ہیں اور بعض دفعہ یہ بھی طے کرتا ہے کہ کن کن دوستوں کو اس میں جگہ دینی ہے اور کن کو رہنے دینا ہے۔

پرانے مکان کے بدلے محل خانہ تعمیر کیا جاتا ہے۔ کپڑوں کی خریداری اور عمدہ عمدہ لباس کا انتخاب بھی خواب میں ہی ہوتا ہے۔ کپڑے کس رنگ کے ہونے چاہیے اور کون سا رنگ اس پر زیادہ خوش نما لگے گا۔ یہ سب معاملات خواب میں ہی طے پاتے ہیں۔ اس حساب کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے کہ سارے کام کرنے کے بعد کتنی بچت ہو گی اور اس بچی ہوئی رقم کو کن کاموں میں خرچ کرنا ہے۔ اب اگر یہ بندہ قرض میں ڈوبا ہوا ہو، اور جن کا یہ قرض دار ہو، ان سیٹھ ساہو کاروں نے اس کا جینا دوبھر کیا ہوا ہو، تو سب سے پہلے جیتی ہوئی رقم میں سے انہی کے قرض کی ادائیگی ہوتی ہے۔

ان کا قرض چکانے کے بعد ایک فاتحانہ تبسم کے ساتھ سر اونچا کر کے جس طرح جنگ میں فتح پانے والے سپاہیوں کی خوشی قابل دیدہ ہوتی ہے، اس کا بھی ویسا ہی کچھ عالم ہوتا ہے۔ آنکھ کھلتے ہی پتا چلتا ہے کہ جو دیکھا تھا خواب تھا اور جو سنا وہ افسانہ تھا۔ اس کیفیت سے گزرنے کے بعد اس کا حوصلہ پست نہیں ہوتا بلکہ وہ نئی امید باندھ کر پھر سے وہی سب کچھ دہراتا ہے اور پھر سے اپنی نئی ٹیم کا انتخاب کر کے اس دوڑ میں پھر سے لگ جاتا ہے۔

اتنا تو طے ہے کہ صرف خواب دیکھنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے جو لگن اور محنت درکار ہے، وہ موبائل فون ہاتھ میں لے کر گھر میں تکیے سے ٹیک لگائے چائے کی چسکیاں لے کر اور گپیں ہانک کر نہیں کی جا سکتی۔ ہاں کبھی کبھار کسی کی قسمت ہاتھی پر سوار ہوتی ہے اور وہ ڈریم ایلون چن کر ہی اپنے ڈریم کو حقیقت کا جامہ پہناتا ہے۔ سب کے نصیب ایسے نہیں ہوتے۔ اپنے وقت اور کم قلیل پیسے کو بچا کر اس امیر بننے کے چکر میں نہیں پڑنا چاہیے۔ سیٹھ بننے کی اس دوڑ میں حلال حرام کی تمیز بھی ضروری ہے۔ اگر جائز طریقوں سے خوابوں کی تکمیل ہو پائیں، تو سونے پہ سہاگا، ورنہ ایسے خواب ہی نہیں دیکھنے چاہیے، جن کو پورا کرنے کے لیے غلط راستوں پر چلنا پڑے اور بد فعلیوں کا سہارا لینا پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).