مچھلی اسی مچھیرے کی، جس نے اسے باندھ لیا


انیسویں صدی کے آغاز میں انگلینڈ کی عدالت میں ایک انتہائی دل چسپ مقدمہ چلا۔ ایک شخص کا دعویٰ تھا کسی دوسرے نے اس کی بیوی پر قبضہ کر لیا ہے۔ البتہ اس شخص نے یہ اعتراف کیا کہ چند سال پہلے اس نے اپنی بیوی کو خود آزاد چھوڑ دیا تھا۔ اب وہ اپنے عمل پر نادم ہے، اور وہ چاہتا تھا بیوی اس کے حوالے کی جائے۔ دوسری طرف کے وکیل کا موقف تھا، مدعی کو بیوی واپس نہیں مل سکتی، کیوں کہ اب وہ کسی اور کے قبضے میں ہے۔ اس وکیل نے اپنے دلائل میں ماہی گیری کے تسلیم شدہ اخلاقی ضابطے کا سہارا لیا۔

یہ ضابطہ اتنا مختصر اور جامع ہے کہ امریکی مچھیرے اسے رومی شہنشاہ جسٹینین کے قوانین اور چینیوں کے اخلاقی اصولوں سے بھی زیادہ قابل عمل اور دانش مندانہ قرار دیتے ہیں۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے، اس ضابطے نے جہاں سمندری جھگڑوں کو روکا، وہیں خشکی پر موجود انسانوں کی جان و مال کے استحصال کا نفرت انگیز ہتھیار بھی بنا، اور آج تک بنتا چلا آ رہا ہے۔ ضابطہ یہ ہے، ”مچھلی اسی مچھیرے کی، جس نے اسے باندھ لیا“۔ مطلب اپنی کشتی یا جہاز وغیرہ سے۔ عورت کی واپسی کی مخالفت کرنے والے وکیل نے تازہ عدالتی فیصلے کی مثال بھی دی جس میں ماہی گیری کے اسی ضابطے کو انصاف کا معیار بنایا گیا تھا۔

چلیں مثال بھی سن لیں، 1810ء کے لگ بھگ برطانوی جج لارڈ ایلن برا کی عدالت میں ماہی گیروں کے درمیان وہیل مچھلی کے تنازع کا مقدمہ چلا۔ یہ وہ دور تھا جب وہیل کا شکار انتہائی منافع بخش کاروبار سمجھا جاتا تھا۔ مقدمے کے مدعی ماہی گیروں کا دعویٰ تھا، سخت مشقت کے بعد وہ ایک وہیل کو زخمی کرنے میں کامیاب رہے۔ ان کے برچھے مچھلی میں پیوست تھے لیکن وہیل نے پلٹ کر حملہ کر دیا۔ یہ لوگ ڈر کے مارے اپنا تمام سامان چھوڑ کر سمندر میں کود گئے۔

شدید زخمی وہیل بھاگ نکلی، لیکن تھوڑی دور جا کر اس کی سانسیں اکھڑنے لگیں۔ عین اسی وقت ایک اور شکاری جہاز وہاں پہنچا اور زخمی وہیل آسانی سے قابو کر لی۔ مچھلی کے ساتھ بندھی ڈور، وہیل میں پیوست برچھی اور قریب کھڑی کشتی پر بھی قبضہ کر لیا۔ یہ سب کچھ ان کی آنکھوں کے سامنے ہوا۔ عدالت انہیں قیمتی وہیل سمیت تمام سامان واپس دلائے۔

دلائل سننے کے بعد جج لارڈ ایلن برا نے کشتی تو انہیں واپس دلوا دی، لیکن وہیل اور اس میں موجود برچھے شکاری جہاز کی ملکیت قرار دے دیے، کیوں کہ ماہی گیری ضابطے کے مطابق شکار کے وقت مچھلی کشتی سے بندھی نہیں تھی۔ عورت کی واپسی کی مخالفت کرنے والے وکیل کا کہنا تھا، وہیل اور عورت کا معاملہ ایک ہی جیسا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہوئی عدالت کو یہ دلیل ماننا بھی پڑی۔

در اصل آج کی جدید دنیا میں بھی قبضہ آدھا قانون کہلاتا ہے، اس سے بحث نہیں قبضہ حاصل کیسے ہوا بلکہ مجھے کہنے دیجیے، ہمارے یہاں تو اکثر قبضہ ہی پورا قانون ہوتا ہے۔ آپ نے لوگوں کو اپنے ہی مکان کا قبضہ چھڑانے کے لیے عدالتوں میں برسوں دھکے کھاتے دیکھا ہو گا۔

بندھی ہوئی مچھلی کا یہ قاعدہ صدیوں سے جارحانہ مزاج سمندر کے ساتھ صوفی منش زمین پربھی راج کرتا آیا ہے۔ بعض اوقات تو ماہی گیری کے اس اصول کی ہماری زندگی سے غیر معمولی سچی اور کھری مطابقت، ہمیں حیران کر دیتی ہے، کیسے؟ میں بتاتا ہوں۔

آپ نے ایسے کئی پیر دیکھے ہوں گے جو مریدوں کے ٹکڑوں پر پلتے ہیں۔ یہ لوگ دم درود اور ٹونے ٹوٹکوں کے نام پر سادہ لوح مریدوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں۔ پیروں کی ایک قسم تو ایسی بھی ہے جو مریدوں کے بیڈ روم تک میں داخل ہو جاتی ہے۔ ایمان داری سے بتائیں، جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتے یہ مرید اس پیر کے لیے بندھی ہوئی مچھلیاں نہیں تو کیا ہیں؟

چلیں ایک اور منظر دیکھتے ہیں، جس کا میں خود گواہ ہوں۔ ایک خطیب پورے جوش و جذبے سے نیکی کا درس دے رہے تھے پھر اچانک انہوں نے رخ تبدیل کر لیا، وہ ثابت کرنے پر تل گئے پاکستان کا چین کو دوست قرار دینا غیر شرعی اقدام ہے۔ دلیل یہ تھی کہ ڈیڑھ ارب کافروں اور دہریوں سے ہم توحید پرستوں کی دوستی ہمالیہ سے اونچی اور سمندروں سے گہری کیسے ہو سکتی ہے؟ ان کے بقول ایک مسلمان کا سچا دوست صرف مسلمان ہی ہو سکتا ہے۔ حکومت اور پاکستانی قوم چینی دہریوں سے دوستی کر کے گناہ عظیم کی مرتکب ہو رہی ہے۔ خارجہ امور کے ماہر اس خطیب نے چین میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا نقشہ کچھ ایسا کھینچا، صوبہ سنکیانگ کی سرزمین کربلا کا میدان لگنے لگی۔

خطیب کے سامنے بیٹھے درجنوں سامعین ان سے کہیں زیادہ تعلیم یافتہ اور سمجھدار تھے۔ سفارتی معاملات کا بھی بہتر شعور رکھتے تھے لیکن مجال ہے کوئی شخص ان سے سے پوچھنے کی ہمت کر لے، قبلہ سفارت کاری اور خارجہ امور کی ایسی نادر و نایاب مہارت آپ نے کہاں سے سیکھی؟ یا کم از کم کوئی اتنا ہی کہہ دیتا، جناب جو جوتا آپ کا ہے ہی نہیں، آپ اس میں پاؤں گھسانے کی مضحکہ خیز کوشش کیوں کر رہے ہیں؟ آپ کو نہیں لگتا یہ بھی انسانوں پر قبضے ہی کی ایک شکل ہے۔ مجھے بتائیے ایسے سامعین حضرت واعظ کے لیے بندھی ہوئی مچھلیاں نہیں تو کیا ہیں؟

چلیں تھوڑا اور آگے چلتے ہیں۔ ایک غریب ملک کے حکمرانوں کو بظاہر ملک چلانے کے لیے غیر ملکی قرض درکار ہے۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے انہیں عوام سے زیادہ اپنی عیاشیاں عزیز ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تو پہلے والا قرض ادا نہیں کیا، نیا کیسے ملے گا۔ مگر لومڑی کی طرح چالاک بین الاقوامی بنیوں کا گروہ حاتم طائی بننے کو تیار ہے۔ بدلے میں بس معیشت ہی تو گروی رکھنی ہے۔ تھوڑی سی کھسیانی پیش و پیش کے بعد نئے قرض کا معاہدہ طے پا جاتا ہے۔ یوں غریب شہریوں کے جسم پر بچا کھچا ماس بھی مقامی لکڑ بگے اور عالمی گدھ مل کر نوچنے لگتی ہیں۔ عوام کے درد کی اداکاری کرنے والے حکمرانوں کو اتنی بھی جرات نہیں ہوتی کہ عالمی سود خوروں سے مرضی کی ایک شق ہی منوا سکیں۔ آپ کا کیا خیال ہے یہ بھی قبضے کی ایک صورت نہیں؟ افلاس کے مارے لاغر جسموں اور زرد چہروں پر حکمرانی کرتا یہ طبقہ آئی ایم ایف کی بندھی ہوئی مچھلیاں نہیں تو اور کیا ہے؟

کوئٹہ کے معروف فلم پروڈیوسر اور رائٹر عاشر عظیم کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر بہت شیئر ہو رہی ہے۔ یہ وہی عاشر عظیم ہیں جن کا بنایا گیا، ٹی وی ڈراما ”دھواں“، لوگوں کو آج بھی یاد ہے۔ عاشر عظیم کا دعویٰ ہے، کوئٹہ میں ان کی چار ایکڑ زمین پر ریاستی ادارے نے قبضہ کر کے، وہاں ہاؤسنگ اتھارٹی کا بورڈ لگا دیا ہے۔ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے با وجود، انہیں زمین کا قبضہ واپس مل سکا نہ رقم۔ اگر عاشر عظیم کا دعویٰ سچا ہے جو عدالتیں کہہ رہی ہیں، سچا ہے تو پھر خوف ایک طرف رکھ کر بتائیں عاشر عظیم کی یہ زمین ڈی ایچ اے کے لیے بندھی ہوئی مچھلی نہیں تو کیا ہے؟

ڈی چوک کے دھرنوں سے نواز شریف کی نا اہلی تک کے اس پورے کھیل میں اب کون سا کردار بچا ہے جو سامنے نہ آیا ہو۔ جس طرح ثاقب نثار نے چند با اثر لوگوں سے مل کر قانون کے نام پر سیاسی دھما چوکڑی مچائی کیا واقعی کسی ملک کی آزاد عدلیہ ایسا کر سکتی ہے؟ آپ کو لگتا ہے یہ سارے فیصلے ججوں نے ضمیر کی آواز پر دیے ہوں گے؟ کیا یہاں بھی بندھی ہوئی مچھلی والا فارمولا ہی کارفرما نظر نہیں آ رہا؟ اس وقت نیب میں احتساب کے نام سے جو مزاحیہ ڈراما جاری ہے کیا اس میں کوئی شک رہ گیا ہے، کہ نیب کسی کی بندھی ہوئی مچھلی نہیں ہے؟

ایوب خان دور سے الیکشن 2018ء کی منصوبہ بندی تک آجائیں، منتخب حکومتوں اور عوام کو ہمیشہ باندھ کر رکھنے کی روایت نسل در نسل چل رہی ہے۔ مقبول سیاسی رہنماؤں کی شہرت کو دانستہ داغ دار کیا جاتا ہے، تا کہ نہ صرف طاقت کا مرکز اپنی جگہ برقرار رہے، بلکہ جمہوری حکومتوں کے تختے الٹنے اور لوگوں کو ذہنی غلام رکھنے کا جواز بھی قائم رہے۔ جس کسی نے اس روایت کو توڑنے کی کوشش کی وہی غدار کہلایا۔ ہمیں سوچنا چاہیے یہی وہ خوفناک رویہ تھا جسے دیکھتے ہوئے بنگالیوں نے اپنے دریا اور سمندر ہم سے بہت پہلے الگ کر لیے۔ کسی قوم کے لیے غلامی کی اس سے زیادہ بد ترین شکل کیا ہو سکتی ہے کہ وہ حکومت بھی اپنی مرضی سے نہیں بنا سکتی۔ مجھے تو یہ پوچھنے کی بھی ضرورت نہیں، ہم پاکستان کے عوام بندھی ہوئی مچھلیوں کے سوا بھی کچھ ہو سکتے ہیں؟ اور نہ یہ بتانے کی ضرورت ہے ہمیں کس نے باندھ رکھا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).