کراچی دھماکہ: مسکن چورنگی کے قریب عمارت میں دھماکہ، کم از کم پانچ افراد ہلاک، 25 سے زائد زخمی


کراچی دھماکہ
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایک عمارت میں دھماکے کے نتیجے میں کم از کم پانچ افراد ہلاک اور 25 سے زائد زخمی ہوگئے ہیں دھماکے کی نوعیت اور ساخت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکا ہے۔

نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق کراچی یونیورسٹی کے داخلی راستے کے سامنے واقع مسکن چورنگی کے قریب موجود چار منزلہ عمارت میں تقریباً ساڑھے نو بجے کے قریب یہ دھماکہ ہوا۔

عمارت کے نیچے بینک، جنرل اسٹور، کھانے پینے کے اشیا کی دکانیں جبکہ بالائی منزلوں پر رہائشی فلیٹس واقع ہیں۔

دھماکے کے بعد فلاحی ادارے ایدھی اور چھیپا ایمبولینس سروس کے رضاکار موقعے پر پہنچ گئے اور انھوں نے زخمیوں کو قریبی پٹیل ہسپتال منتقل کیا۔

پولیس کے مطابق اس دھماکے میں پانچ افراد ہلاک ہوگئے جن میں سے تین لاشیں جناح اور دو عباسی شہید ہسپتال منتقل کی گئی ہیں جبکہ 25 سے زائد افراد زخمی ہوگئے، جن میں ایک عورت بچہ اور گارڈ بھی شامل ہیں۔

مسکن چورنگی سے کراچی یونیورسٹی اور این ای ڈی یونیورسٹی کے طالب علموں کا بڑی تعداد میں گزر ہوتا ہے۔ یہاں سے ایک سڑک سپر ہائی وے، ایک عزیز آباد اور ایک گلشن اقبال، یونیورسٹی روڈ کی طرف جاتی ہے۔

کراچی دھماکہ

چشم دید گواہوں نے کیا دیکھا؟

متاثرہ عمارت کے نیچے دو نجی بینک واقع ہیں۔

بینک ملازم شاہزیب نے بتایا کہ صبح نو بجے بینک کا کام شروع ہوگیا تھا۔ وہ کام کاج میں مصروف تھے کہ ساڑھے نو بجے یہ دھماکہ ہوا اور برانچ کے اندر ملبہ گرا، ایک بینک گارڈ عبدالوہاب نے بتایا کہ دھماکے کے جیسے ہی وہ بینک سے باہر نکلے تو گرد و غبار تھا اور لوگ جمع ہوگئے تھے، کئی زخمی بھی تھے جنہیں ایمبولینس لے گئیں۔

دھماکے کی نوعیت کیا تھی؟

بم ڈسپوزل اسکواڈ نے قرار دیا ہے کہ نجی بینک کے اندر دھماکے گیس لیکیج کی وجہ سے ہوا ہے اور کسی بھی دھماکہ خیز مواد کی موجودگی کے ثبوت نہیں ملے ہیں۔ صرف گھریلو چولھے کے پگھلے ہوئے ٹکڑے ملے ہیں۔

کراچی دھماکہ

گذشتہ روز ہونے والا دھماکہ

کراچی کے علاقے شیریں جناح کالونی میں منگل کی دوپہر کو بھی ایک دھماکہ ہوا تھا جس کے نتیجے میں پانچ افراد زخمی ہوگئے تھے، ایس ایس پی جنوبی شیراز احمد کا کہنا تھا کہ بم ایک موٹرسائیکل میں نصب تھا جب ایک بس اس کے قریب سے گذری تو دھماکہ ہوا۔

واضح رہے کہ شہر میں ایسے وقت میں یہ دھماکے ہو رہے ہیں جب پولیس قیادت آئی جی سندھ مشتاق مہر سے پیس آنے والے واقع پر خفا ہے اور گذشتہ روز کراچی سمیت کئی ڈویزنز کے ڈی آئی جیز اور ایس ایس پیز نے چھٹی پر جانے کی درخواست دے دی تھی۔

دھماکے کے بعد جب ریسکیو آپریشن جاری تھا پولیس قیادت وزیر اعلیٰ ہاؤس میں وزیراعلیٰ کے ساتھ ملاقات میں موجود تھے جبکہ ڈی جی رینجرز جائے وقوع پر پہنچے۔

کراچی دھماکہ

سوشل میڈیا پر ردعمل

دھماکے کے بعد کراچی دھماکے سے متعلق ہیش ٹیگ پاکستان میں ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے جہاں ہلاکتوں پر افسوس کااظہار کیا گیا وہیں دو دن میں دوسرے دھماکے پر شہر کی سکیورٹی کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا۔

جہاں خدشات ہیں تو وہیں کچھ چہ مگوئیاں بھی ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین کو جہںا یہ خدشہ ہے کہ یہ کوئی دہشت گردی کی کارروائی ہے وہیں مختلف لوگوں اور اداروں پر توجہ ہٹانے کے لیے کیے جانے والے اقدام کا الزام بھی عائد کر رہے ہیں۔

منزہ حق نامی صارف کا کہنا تھا ’آج کا دھماکہ ہم سب کے لیے ذاتی اہمیت رکپتا ہے کیونکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں ہم سب جاتے ہیں۔ جنہیں علم نہیں ان کو بتاتی چلوں کے مسکن میں سکولز ، ریستواران اور اہپارنمنٹس ہیں، اور کراچی یونیورٹمی کا گیٹ بھی ہے۔`

پولیس کی جانب سے انتطامی معاملات کی شکایات کے پس منظر میں ایک بار پھر اس واقعے پر پولیس سے پہلے رینجرز کی موجودگی پر ایک صارف نے سوال اٹھایا۔

کراچی دھماکہ

ایک صارف نے سوال اٹھایا کہ ' دھماکہ کراچی میں ہوا اور وہاں تمام سول ایڈمنسٹریٹرز اور پولیس موجود ہیں تو اس ڈی جی رینجرز کو پریس کانفرنس کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی کیا اس ملک کے باقی ادارے ختم کردیے گئے ہیں؟؟'


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32494 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp