امریکی صدارتی انتخاب 2020: کیا امریکہ کے سپر پاور کے درجے کو صدر ٹرمپ سے خطرہ ہے؟


صدر ٹرمپ
’ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے لیے ایک خطرہ ہیں۔۔۔ یہ امریکہ کی عالمی بالادستی کے لیے ایک خطرہ ہیں۔ اگر وہ صدر بن گئے تو امریکہ ایک سپر پاور نہیں رہے گا۔ امریکی تاریخ میں آج تک کسی صدارتی امیدوار نے امریکہ کے سپر پاور سٹیٹس کو سنجیدہ انداز میں چیلنج نہیں کیا، سوائے اِس ٹرمپ کے!‘

یہ کہہ کر میرا ایک امریکی دوست میز سے اٹھا اور میں یہ سوچتا رہ گیا کہ وہ غصے میں ہے یا حالتِ غم میں۔ ہماری یہ نشت واشنگٹن میں اکتوبر 2016 میں ہوئی تھی جب ٹرمپ بطور صدارتی امیدوار پہلی مرتبہ میدان میں تھے۔

آج جب چار سال بعد صدر ٹرمپ دوبارہ امریکی صدرات کا الیکشن لڑ رہے ہیں تو میرے ذہن میں وہی سوال دوبارہ سر اٹھا رہا ہے جو آج سے لگ بھگ چار برس قبل میرے امریکی دوست نے کیا تھا یعنی کیا صدر ٹرمپ امریکہ کے سپر پاور سٹیٹس کے لیے خطرہ ہیں؟

اس سوال کا جواب جاننے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ کسی ملک کے ’سُپر پاور‘ ہونے کا مطلب کیا ہے؟ اور امریکہ کب اور کیسے سپر پاور بنا تھا؟

بین الاقوامی امور اور سیاست کے ماہرین لفظ ’سُپر پاور‘ کی کسی ایک تعریف پر متفق نہیں ہیں تاہم چند حوالوں سے اس بارے میں یکسانیت ضرور ہے۔

دوسری جنگِ عظیم سے پہلے طاقتور ممالک کے لیے ’گریٹ پاور‘ کے الفاظ استعمال کیے جاتے تھے۔ کسی ملک کے لیے لفظ سپر پاور کا استعمال سنہ 1945 کے بعد امریکہ اور سویت یونین کے لیے ہوا۔

یہ بھی پڑھیے

امریکہ اب بھی ایشیا کی واحد فوجی سپرپاور ہے؟

’چین کی موجودہ طاقت کا امریکہ سے کوئی موازنہ نہیں‘

امریکہ کے لیے ’انکل سیم‘ کی اصطلاح کیسے وجود میں آئی

سنہ 2050 میں دنیا کی پانچ عالمی طاقتیں کون سی ہوں گی؟

عام فہم زبان میں بات کی جائے تو سپر پاور ایک ایسے ملک کو کہا جاتا ہے جو معاشی، عسکری، ثقافتی، سفارتی طور پر طاقتور ہو۔ سپر پاور ملک میں یہ صلاحیت ہونا بھی ضروری ہے کہ وہ جغرافیائی قید سے آزاد اور بیک وقت دنیا کے مختلف حصوں میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کر سکتا ہو۔

اب اس اعتبار سے امریکہ آج دنیا کی سب سے بڑی اور کچھ ماہرین کے خیال میں واحد سپر پاور ہے۔ امریکہ کے اس وقت دنیا بھر میں آٹھ سو سے زیادہ فوجی اڈے ہیں۔ ورلڈ اکامک فورم کے مطابق امریکہ اس وقت عسکری اعتبار سے دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو دنیا کے کسی کونے میں ‘زمینی، بحری، فضائی یا خلائی جنگ کی منصوبہ بندی کر کے اسے کافی عرضے تک لڑ سکتا ہے۔’

امریکہ

امریکہ کے اس وقت دنیا بھر میں آٹھ سو سے زیادہ فوجی اڈے ہیں

امریکہ مجموعی عالمی عسکری اخراجات کا 38 فیصد تک خرچ کرنے والا ملک ہے، امریکہ کے عسکری اخراجات سنہ 2019 میں 732 ارب ڈالر تھے جو کہ دوسرے نمبر پر آنے والے ملک چین سے تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔ (انڈیا اور روس کے مقابلے میں امریکہ دس گنا زیادہ خرچ کرتا ہے)۔

معیشت کی بات کریں تو بھی کہانی کچھ ایسی ہی ہے۔ چین کی معیشت تیزی سے بڑھ رہی ہے مگر اگر ہم مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کو دیکھیں تو امریکہ کے حصے میں اس وقت دنیا کی پیداوار میں سے تقریباً ایک چوتھائی سے کچھ کم آتا ہے۔

امریکی معیشت کا حجم ’نومینل جی ڈی پی‘ کے لحاظ سے 21.44 کھرب ڈالر ہے جبکہ چین کی معیشت کا حجم 14.14 کھرب ڈالر ہے۔ (یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ پرچیزنگ پاور پیریٹی یعنی مقامی طور پر قوتِ خرید کے لحاظ سے چینی معیشت امریکی معیشت سے زیادہ بڑی ہے۔)

سفارتی اثر و رسوخ کے حوالے سے امریکہ کا اس وقت کوئی ثانی نہیں ہے۔ امریکی کمپنیاں دنیا بھر میں کام کرتی ہیں اور سویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکی عقائد جیسا کہ جمہوریت کو عالمی سطح پر فوقیت حاصل ہے۔ امریکہ کے اثر و رسوخ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کہنے کو جہاں امریکی فوج نہیں پہنچ سکتی، وہاں بھی امریکی کوکا کولا کاروبار ضرور کر رہی ہوتی ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی جگہ ہو جہاں لفظ برگر یا مکڈونلڈز سے لوگ شناسا نہ ہوں۔

امریکہ

PA Media
دنیا میں شاید ہی کوئی جگہ ہو جہاں لفظ برگر یا مکڈونلڈز سے لوگ شناسا نہ ہوں

سی این این کے بارے میں آپ کی جو بھی رائے ہو، دنیا میں کوئی چینل بھی اس سے زیادہ مقامات پر اپنی نشریات نہیں پہنچاتا یا کون سا ملک ہے جہاں ہالی وڈ کی فلمیں نہیں دیکھی جاتیں۔

امریکہ سپر پاور کیسے بنا؟

یہ کہانی کافی دلچسپ ہے۔ جب 18ویں صدی کے آخر میں امریکی کالونیوں نے برطانوی راج سے آزادی حاصل کی تو امریکی اشرافیہ نوآبادیاتی نظام کے بالکل خلاف تھے۔ بطور صدر اپنے خطاب میں امریکہ کے فاؤنڈنگ فادر تھامس جیفرسن نے امریکی خارجہ پالیسی کے لیے یہ اصول وضع کیا تھا کہ ’امن، تجارت، تمام ممالک کے ساتھ ایمانداری سے دوستی اور کسی کے ساتھ بھی الجھنے سے گریز۔‘

مگر اپنے وجود کے ابتدائی ستر برسوں میں امریکہ براعظم شمالی امریکہ کے مشرقی کونے سے بڑھتا ہوا تقریباً پورے شمالی امریکہ تک پھیل گیا۔ امریکی پالیسی ساز اسے ’مینیفیسٹ ڈسٹنی‘ کہتے تھے جس کے مطابق امریکہ کو آباد کرنے والوں کا یہ حق تھا کہ وہ پورے براعظم پر پھیل جائیں اور بحر الکاہل سے بحرِ اقیانوس تک پہنچیں۔ اس پھیلاؤ میں براعظم کی مقامی آبادی کا کئی مرتبہ قتلِ عام کیا گیا۔

امریکی خانہ جنگی کے بعد ملک میں اس سوال پر کہ امریکہ کو دیگر دنیا کے معاملات میں دخل اندازی کرنی چاہیے یا نہیں، ایک شدید بحث چل نکلی۔ ایک طرف امریکہ نے روس سے الاسکا تو خرید لیا مگر امریکی کانگریس نے گرین لینڈ حاصل کرنے کی کوششوں کو روک دیا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ امریکی رائے عامہ میں اکسپینشنسٹ (ملک کے پھیلنے) کے حق میں آوازیں بڑھنے لگیں اور آخر کار امریکہ اپنی پہلی جنگ کا حصہ بنا جس میں کوبا کے معاملے پر امریکہ اور سپین میں جنگ ہوئی۔

اس دوران امریکہ نے گوائم، ہوائی، سموعا اور فلپائن کے بیرونی علاقوں پر قبضہ کیا اور خود ایک نوآبادیاتی پاور بن گیا۔ چند سال بعد امریکہ نے پاناما کنال کا کنٹرول بھی حاصل کیا۔

تھامس جیفرسن

تھامس جیفرسن: ’امن، تجارت، تمام ممالک کے ساتھ ایمانداری سے دوستی اور کسی کے ساتھ بھی الجھنے سے گریز‘

پہلی جنگِ عظیم نے امریکہ کو عالمی سٹیج پر ایک اہم کھلاڑی بنا دیا۔ اس جنگ کے بعد یورپ کی معیشت تباہ ہو چکی تھی اور امریکی معیشت بڑھتی جا رہی تھی۔ اس جنگ می امریکہ داخل تو قدرے دیر سے ہوا مگر اس کا کردار اتنا کلیدی رہا کہ امریکی صدر وڈرو ولسن نے لیگ آف نیشنز کی شکل میں عالمی سربراہی امریکی گود میں ڈالنے کی کوشش کی۔ مگر آئیسولیشن ازم (یعنی الگ تھلگ رہنا) ابھی بھی امریکہ میں مقبول تھا اور امریکی کانگریس نے لیگ آف نیشنز میں شمولیت نہ اختیار کر کے صدر ولسن کا خواب توڑ دیا۔

ہٹلر کے عروج کے دوران امریکہ کی توجہ اپنے داخلی مسائل کی طرف رہی کیونکہ تیس کی دہائی میں عالمی کساد بازاری نے امریکی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ جاپانی سلطنت کے پھیلاؤ اور جرمنی کے عزائم کی وجہ سے امریکہ کو عالمی میدان میں اترنا ہی پڑا اور یہ ہوا دوسری جنگِ عظیم میں۔

دوسری جنگِ عظیم کے بعد امریکہ دنیا کی واحد بڑی معیشت تھا جو مکمل طور پر تباہ حال نہیں ہوئی تھی اور عسکری اعتبار سے دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہونے کے ناطے امریکہ نے جنگی لیڈر شپ بھی حاصل کر لی۔ مگر یہاں امریکہ نے ایک دو ایسی چالیں چلیں جن کی وجہ سے امریکہ کا سپر پاور سٹیٹس عالمی نظام کا حصہ بن گیا۔

معاشی اعتبار سے امریکہ نے دنیا بھر کے ممالک میں تجارت اور معیشت کو ریگولیٹ کرنے کے لیے بریٹن وڈ معاہدہ بنایا جس کا مقصد تو دنیا بھر کی معیشتوں کو مضبوط کر کے ایک اور عالمی جنگ روکنا تھا مگر اس سے آئی ایم ایف، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور ورلڈ بینک کے وجود کی بنیاد بھی ڈلی جہاں امریکہ اور امریکی ڈالر کی عالمی بالادستی کو یقینی بنا لیا گیا۔

اسی طرح اقوام متحدہ کی بنیاد تو رکھی گئی مگر امریکی اثر اس قدر زیادہ تھا اور ہے کہ یہ تنظیم امریکہ کے بغیر آج بھی ناکارہ ہے۔

نیٹو

امریکہ کے صدر ہیری ٹرومین نیٹو سنہ 1949 میں نیٹو کے قیام کے معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے دیگر عالمی رہنماؤں کے ساتھ

عسکری اعتبار سے امریکہ نے نیٹو بنایا جس کا مقصد سویت یونین کے پھیلاؤ کو روکنا تھا مگر اس کے ذریعے ویتنام اور افغانستان جیسے ممالک میں مداخلت کی گئی۔ سویت یونین کے خلاف سرد جنگ کے دوران امریکہ نے لاطینی امریکہ میں اور دیگر کئی ممالک جیسا کہ ایران اور سعودی عرب میں آمرانہ حکومتوں کی نہ صرف حمایت کی بلکہ جہاں کا ڈکٹیٹر پسند نہیں آیا، جیسا کہ یوگوسلاویا، وہاں مخالف باغیوں کی مدد بھی کی۔

سرد جنگ کے دوران امریکہ نے سینکڑوں تنازعات میں مداخلت کی اور دنیا کے ہر کونے میں کسی نہ کسی قسم کا الائنس قائم کر لیا۔

سویت یونین کی شکست کے بعد امریکہ کے پاس ایک موقعہ تھا کہ وہ اپنے بین الاقوامی معاہدوں سے دستبردار ہو جاتا، مگر امریکہ نے ایسا نہ کیا۔ امریکی صدور ریگن، جارج بش سینیئر، بل کلنٹن، اور جارج بش جونیئر نے یہی فلسفہ اپنایا کہ امریکہ کو دنیا میں امن ساز پاور بننا ہے۔ مگر دنیا میں کئی لوگ اس رائے کو درست نہیں مانتے ہیں اور اسے امریکی امپیرئل عزائم چھپانے اور امریکی معاشی مقاصد حاصل کرنے کا بہانہ تصور کرتے ہیں۔

اور اب آ جائیں 2020 کے امریکی صدارتی انتخابات پر۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے نیٹو ممالک سے کہا ہے کہ وہ اپنے دفاعی اخراجات کا زیادہ حصہ خود برداشت کریں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی بار کہا ہے کہ شاید یہ بہتر ہو کہ ہم جاپان اور جنوبی کوریا کو کہیں کہ وہ خود شمالی کوریا کے خلاف اپنا دفاع کریں۔

صدر ٹرمپ عالمی ماحولیاتی معاہدوں سے دستبردار ہوئے ہیں، شمالی امریکہ میں تجارتی معاہدے نیفٹا کو ازسرِنو تشکیل دینا چاہتے ہیں، افغانستان سے فوجی نکالنا اور مشرقِ وسطیٰ میں امریکی مداخلت سے پیچھے ہٹنا چاہتے ہیں۔

وہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اصول بھی تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح کی کئی اور مثالیں ہیں جن کے تحت ٹرمپ امریکہ کے ان الائنسسز اور معاہدوں کے اس نازک جال کو ادھیڑ رہے ہیں جن کے ذریعے وہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا کی سب سے بڑی اور واحد سپر پاور بنا تھا۔

میں آج پھر سوچتا ہوں میرا وہ امریکی دوست جو آج سے چار سال پہلے ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں پیش گوئیاں کر رہا تھا، آج وہ غصے میں ہو گا یا حالت غم میں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp