جمہوریت کا جرنیل


بابائے قوم قائد اعظم نے کبھی بلند آواز میں شاید اپنے حریفوں تک سے بھی بات نہ کی ہو گی۔ قائد اعظم کو جھوٹے پراپیگنڈے اور سستی شہرت سے بہت سخت نفرت تھی۔ اس کے علاوہ قائد اعظم یہ بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ حقیقت کو چھپایا جائے یا سچی باتوں کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جائے۔ مجھے ہمیشہ ان سب لوگوں پہ بشمول اپنے ابا کے رشک آتا ہے، جو قائد اعظم سے ملے اور ان کی تقریریں سنتے تھے۔ مجھے فخر ہے میں اس باپ کی بیٹی ہوں جو قائد اعظم کی مسلم لیگ کے کارکن تھے۔

بابائے قوم قائد اعظم تاریخ کی عظیم المرتبت شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔ ایک ایسی ہستی جنھوں نے برصغیر کے مسلمانوں کی ہچکولے کھاتی ہوئی کشتی کو نہایت کامیابی سے کنارے پر لگایا۔ وہ دیانت، امانت، حق گوئی، ایثار و قربانی، معاملہ فہمی، سیاسی تدبر اور جہد مسلسل کا عملی نمونہ تھے۔ حال ہی میں بابائے قوم کے مزار پر چند شر پسند عناصر نے نعروں کی شکل میں جو ہلڑ بازی کی اس میں انھوں نے خود اپنی تربیت اور تہذیب کے کپڑے اتار کر رکھ دیے۔

کیا آزادی کا مطلب بے لگام ہونا ہے؟ کیا سیاست منہ زوری کا نام ہے؟ کیا جمہوریت مزار قائد پہ نعرہ گیری کا نام ہے؟ نہایت شرم کا مقام ہے کہ بابائے قوم کی قبر کے بالکل اوپر قائد ملت زندہ باد کے نعرے لگوائے گئے۔ ووٹ کو عزت دو، مادر ملت زندہ باد وغیرہ کے نعروں کی ہڑبونگ مچا کر بد نظمی پیدا کی گئی۔ با قاعدہ طور پر کیپٹن صفدر (ر) ہاتھوں کے اشارے سے پھیریاں دیتے ہوئے نعرے لگائے جا رہے تھے۔ کم از کم میں نے تو آج تک اس سے پیش تر ایسا کوئی واقعہ مزار قائد پر نہیں دیکھا۔

1971ء میں بابائے قوم کے مزار کی حفاظت کے لیے ایک آرڈیننس بنایا گیا، جس کے تحت مزار پہ نہ تو کوئی سیاسی نعرہ لگایا جا سکتا ہے اور نا ہی کوئی سیاسی سرگرمی کی جا سکتی ہے۔ مزار کے احاطے کی بیرونی دیوار سے بھی دس فٹ باہر تک، کسی قسم کی سیاسی تقریب یا نعرے بازی، جن سے مزار قائد کا تقدس پامال ہوتا ہو، نہیں ہو گی۔ لیکن افسوس صد افسوس! نا صرف ایسا ہوا، بلکہ بدلے میں ایسی ایسی تاویلیں پیش کی جا رہی ہیں، جن کا ذکر کرنا بھی باعث شرم ہے۔

ویسے تو ہم عوام ہیں ہی بے وقوف۔ پچھلے چالیس برسوں سے یہ ملک سرمایہ داروں اور جاگیر داروں نے بد عنوانیوں سے حاصل کردہ دولت کے بدلے میں عوام کو ان کی بنیادی ضرورتوں سے محروم کر دیا ہے۔ پاکستان کا موجودہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کا ڈھانچا 1973ء کے دستور کے تحت کام کر رہا ہے۔ اس دستور میں آزادی ایکٹ 1947ء کی بعض دفعات، 1956ء کا پہلا دستور اور 1972ء کا عبوری دستور شامل ہے۔ وفاقی نظام میں وفاق اور صوبے دستور کے مطابق ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔

ملک میں جب حکومت کا قیام ہو جاتا ہے، تو عوام اس نظام سے توقع رکھ سکتے ہیں کہ ملک میں انصاف اور مساوات کی حکمرانی ہو گی۔ ایک طبقہ دوسرے طبقے کا استحصال نہیں کرے گا۔ بہترین نظام حکومت میں تمام عوامی و حکومتی فیصلے شفاف طریقے سے انجام دیے جائیں گے اور تمام ریاستی اداروں کے ملازمین اپنے اپنے عہدوں کے لیے ذمہ دار قرار دیے جائیں۔ اچھی حکومتیں استحصال سے پاک معاشرے قائم کرتی ہیں۔ حکومت کے ہر کارندے کو خواہ کوئی بھی ہو احتساب کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہر ایک کی نا اہلی اور بے پروائی کی سزا دی جاتی ہے۔ مگر بد قسمتی سے پاکستان میں ہر چند سالوں کے بعد سیاسی میلے ٹھیلے لگ جاتے ہیں۔ ان ٹھیلوں میں عوام کو بے وقوف بنانے کے مختلف نعرے لگائے جاتے ہیں۔ ان نعروں میں کبھی بنیادی جمہوریتوں کا نظام، کبھی قرض اتارو ملک سنوارو، کبھی ادھر ہم ادھر تم، کبھی روٹی کپڑا اور مکان، کبھی تبدیلی وغیرہ کے نام شامل ہوتے ہیں، مگر تغیر ہے کہ آتا نہیں۔ نہیں بدلتی تو غریب عوام کی حالت نہیں بدلتی۔

حکومتوں پر تعمیری تنقید ہو، تو جواب میں حکومت کو اس تعمیری تنقید کو خوش آمدید کہنا چاہیے، تا کہ غلطیوں کو سدھار کر عوام کو ان کے بنیادی حقوق مہیا کیے جا سکیں۔ لیکن بعض لوگ اپنے ذاتی اغراض کے پیش نظر ایسا منفی اور جارحانہ رویہ اختیار کر لیتے ہیں، جس سے معاشرے میں نفاق اور انتشار پیدا ہوتا ہے۔ میاں نواز شریف اگر خود سلیکٹڈ ہوتے تو کبھی اتنی فرسٹریشن کا شکار نہ ہوتے۔ حیرت ہے لندن کے آرام دہ اور پر آسائش بنگلے میں بیٹھ کر انھیں پاکستان کے غریبوں کی آہیں، سسکیاں اور بھوک محسوس ہو رہی ہے۔

اگر اتنی ہی ہمدردی ہے تو لوٹا ہوا پیسہ لوٹا دیجیے باؤ جی۔ اب تو ایک نیا کاروبار بھی چمک اٹھا ہے۔ ٹھیکے دار بسوں، ٹرکوں میں لوگوں کو بھیڑوں کی طرح بھر کر لے آتا ہے اور ان کے کھانے اور خرچے کا پیسہ بھی وہی ٹھیکے دار دیتا ہے۔ اس کی ایک مثال ایک ویڈیو سے ملاحظہ فرمائیں۔ یہ پی ڈی ایم کے دوسرے جلسے کی ویڈیو ہے جس میں رپورٹر ایک بڑھیا سے سوال کرتی ہے آپ یہاں کس لیے آئی ہیں؟ بڑھیا انتہائی سادہ لوحی سے کہتی ہے بلاول بھٹو کی برسی پہ آئی ہوں (اللہ بلاول کو لمبی عمر دے)۔

جناب یہ ہیں ہمارے بھولے بھالے عوام، جو کئی دہائیوں سے جمہوریت کی سیاست کی بھینٹ چڑھتے آ رہے ہیں۔ جلسوں اور جنون کا آپس میں گہرا رشتہ ہے۔ لیکن ابھی ان جلسوں نے احتجاجی رنگ نہیں اوڑھا۔ اب تو یوں بھی کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری اور پھر رہائی نے ایک الگ باب کھول کے رکھ دیا ہے، اس پہ پھر بات ہو گی۔ فی الحال تو ان کو چاہیے کہ خود پہ لگے الزامات کو جھوٹا ثابت کریں۔ بتائیں کہ یہ پارٹیاں عوام کو لوٹ کھسوٹ کر روز بروز کیسے موٹی ہوتی جا رہی ہیں۔

کیا پاکستان اس لیے بنایا گیا تھا؟ کیا پاکستان کا وزیر اعظم بیٹے کی فرم میں نوکری کرتا ہے؟ اس کا کوئی جواب ہے ان کے پاس؟ جب ہم کالج میں پڑھ رہے تھے، تو میاں صاحب نے محترمہ بی بی شہید کے کردار پہ وہ بہتان لگائے تھے کہ اللہ کی پناہ ہم آج بھی نہیں بھولے۔ میں حیران ہوں بلاول صاحب نے کیسے اپنی سیاسی بہن مریم کو خوش آمدید کہا ہو گا؟ پرانے ٹاک شوز کی ویڈیو دیکھ لیں تو شرمیلا فاروقی مریم نواز پہ طنز کے وہ تیر چلاتی ہیں اور پھر مفادات کے سٹیج پہ بیٹھ کر ان پہ پھول نچاور کیے جاتے ہیں۔

عوام کو سمجھ لینا چاہیے اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں خاندانی آمریت کے جھنڈے تلے جمع ہوئی ہیں۔ یہ سارا ٹولہ بنیادی طور پر قدامت پسند ہے اور انتظامی تغیرات اور سیاسی تجربات کو اپنے لیے خطرناک سمجھتے ہوئے عوام کو ان کے حقوق دینے سے گھبراتا ہے۔ قائد اعظم، مادر ملت فاطمہ جناح سے کہا کرتے تھے: ”فاطی کیا تم نے کبھی سنا ہے کہ ایک جرنیل چھٹی پر چلا جائے، جب کہ اس کی فوج اپنی بقا اور سلامتی کی جنگ میں مصروف ہو“۔

میاں صاحب سے سوال ہے کہ وہ خود کو جمہوریت کا جرنیل سمجھتے ہیں لیکن اپنی عوام کو بھوک اور غربت کی جنگ میں اکیلا چھوڑ کر لندن پہنچ گئے۔ جس وقت عمران خان اپنی سیاسی جد و جہد میں مصروف تھے تو جمہوریت کے جرنیل نے خطرے کو سونگھتے ہوئے عوام کے پیسے کو کیوں لوٹا؟ جمہوریت کے جرنیل کے ٹولے کی ترجیح صاف نظر آ رہی ہے کہ سیاست نہیں انھیں ریاست چاہیے۔ جمہوریت کے جرنیل نے ہمیشہ یہ تاثر دیا کہ پاکستان کی جمہوریت خطرے میں ہے۔

جب سے جمہوریت کا جرنیل لندن گیا ہے ایک دن بھی علاج کے لیے ہسپتال داخل نہیں ہوا بلکہ الٹا ریاستی اداروں کے خلاف محاذ کھول دیا۔ جب کوئی قوم دیگر اقوام میں با وقار انداز میں رہنا چاہتی ہے، تو اسے اتحاد، یقین اور نظم و ضبط سے کام لینا ہو گا۔ ظلم و تشدد کو ختم کر کے تمام لوگوں کو برابر کے انسانی حقوق مہیا کرنا، اب موجودہ حکومت کا کام ہے۔ مہنگائی کے گھوڑے کو لگام دینا حکومت ہی کی ذمہ داری ہے۔ اسے تیز تر کرنے کے لیے ضلعی سطح پر حل کرنے کے لیے اقدامات اٹھانا ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).