خاتون سیاستدان کی خوب صورتی


یہ ایک بہت دل چسپ بات ہے، کبھی آپ غور کریں تو آپ کو سمجھ آتی ہے کہ دوسروں کی بے عزتی کرنے، غلط تنقید کرنے اور دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش کرنے والے لوگ عام طور پر خود محروم، نا آسودہ، کم حیثیت اور کم شکل ہوتے ہیں (شکل تو قدرت کی بنائی ہے، مگر خود کو ظاہری باطنی طور پر گروم کرنا، انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے)۔ بہت کم ایسا ہو گا کہ کوئی خوش شکل، مالی، معاشی اور جنسی طور پر آسودہ شخص کسی کا مذاق بنائے یا بے عزتی کی نیت سے تحقیر کے لبادے میں تنقید کرے۔

میں نے اس موضوع پر پہلے بھی خاصا پڑھا تھا، لیکن پچھلے دنوں اچانک ایک بات سے دوبارہ اس طرف دھیان گیا۔ پاکستان میں بے تحاشا مسائل میں سے، ایک بڑی عمر کی شادی بھی ہے۔ اب تو بڑی تعداد میں عورتیں پہلے بچے کی پیدائش پر 35 سال کی عمر کو پہنچی ہوتی ہیں۔ ان حالات میں اگر کوئی خاتون 45 سال کی عمر میں انتہائی سمارٹ اور خوبصورت ہونے کے ساتھ ”نانی“ بھی ہو، تو اسے برداشت کرنا واقعی مشکل کام ہے۔

محترمہ سیاستدان کو ٹرول کر نے والی عورتوں کے کبھی پروفائل کھول کر دیکھیں، یہ عورتیں وہ ہیں جو خود شادی کے پانچ سال بعد ایک بچہ گود میں اٹھائے ہوئے، بے ڈھنگی اور بے رنگ روپ ہو چکی ہوتی ہیں۔ اور اپنے سے پانچ سال بڑے خاوند کی بے اعتنائی کے شکوے کرتی، اس کے ساتھ بد تہذیبی اور بد لحاظی کرتی، اس کی ماں نہیں تو بڑی بھابھیاں ضرور لگ رہی ہوتی ہیں۔

اچھا پھر تنقید بھی کیا کی جاتی ہے کہ وہ نانی ہے، تو نانی بن کے رہے۔ خود کو لڑکی سمجھتی ہے۔ چھوئی موئی بنتی ہے۔ دس سرجریاں کروا چکی ہے، چہرے کی۔ گھر سے بھاگ کر شادی کی تھی۔

بھئی آپ اس کی عمر میں پانچ سات سال کے بچے انگلی سے لگائے، خاندانی سیاست، جٹھانیوں، نندوں سے مقابلے کرنے اور شوہر کو کنٹرول میں رکھنے کے طریقے آزما رہی ہیں۔ چہروں پر ہر طرح کے ٹوٹکے آزمانے کے ساتھ، پارلروں کے چکر لگا رہی ہیں اور ساتھ ساتھ آلو والے پراٹھے کھا رہی ہیں۔

آپ نے خود پسند کی شادی کی ہوئی ہے، صرف آپ نے ہی نہیں مڈل کلاس کی پچاس فی صد سے زیادہ عورتوں نے پسند کی شادی کی ہوئی ہے۔ آپ کی اپنی بہنیں بیٹیاں بغاوت کر چکی ہیں اور ہمیشہ کے لئے میکے کے دروازے اپنے لئے بند کر چکی ہیں، یا پھر قتل ہو چکی ہیں۔ اور تو اور آپ کی تو کام والیاں بھی اپنی پسند سے شادیاں کرتی ہیں اور سیاستدان محترمہ پسند کی شادی کرنے کے با وجود، نا صرف اپنے باپ کی جاں نشین، بلکہ باپ کا فخر اور غرور ہے۔

محترمہ نے خود کو فٹ سمارٹ رکھا ہے۔ وہ ملکی سیاست میں خود کو گروم کر رہی ہے۔ وہ لڑکی نظر آ رہی ہے۔ اپنی ہم عصر اور ہم عمر بیشتر سیاستدان خواتین سے زیادہ پرکشش ہے، جب کہ سرجری کروانا تو وہ سبھی افورڈ کرتی ہیں (یہ بھی یاد رہے کہ اس ملک میں ہزاروں نہیں لاکھوں عورتیں سرجری کروانا افورڈ کر سکتی ہیں) اور وہ بیشتر وقت اپنے خاوند کی بانہوں کے حصار میں ہوتی ہے، تو آپ کی نظر یہ خوبیاں کیوں نہیں دیکھ سکتی۔

پھر ایک گروپ ہے مردوں کا جو کیپٹن صاحب کو ٹرول کرتا ہے۔ ان مردوں کو بھی دیکھیں۔ پھر ان کے پروفائل پر ان کی بیویوں کو بھی دیکھیں۔ یہ خود معمولی شکل صورت اور حیثیت کے نا آسودہ مرد، جن کی بیویاں ہر طرح کی نسوانی خوبصورتی کھو چکی ہوتی ہیں، پھر بد تمیز بد لحاظ، تنقید، تحقیر، اور خاوندوں پر مسلسل کنٹرول الگ کرتی ہیں اور یہ مرد مختلف سوشل ایشو کی وجہ سے جنسی نا آسودگی کا شکار بھی ہوتے ہیں۔ ان کے لئے تو یہ تصور ہی محال ہے کہ بیوی خوب صورت، چھوئی موئی، سمارٹ ہو۔

ان گھر جوائی کے طعنے دینے والوں کو کوئی اپر مڈل کلاس کا بندہ ہی گھر جوائی بنانا آفر کرے تو کبھی انکار نہ کریں۔ مگر یہ سب حضرات اپنی نا کامیوں، محرومیوں اور نا آسودگیوں کا سارا غصہ دوسروں کی تحقیر پر نکالتے ہیں۔ دل کو یہ کہہ کر تسلی دیتے ہیں کہ ہم تنقید کر رہے ہیں، کیوں کہ تنقید تو ہمارا حق ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).