زندگی: ایک فرضی مکالمہ


وہ معتدل موسم کی ایک ٹھنڈی دوپہر تھی۔ میں گھر کے قالین پر بیٹھا کوئی کام کر رہا تھا۔ کمرے کے ایک کونے سے کچھ شور اٹھتا محسوس ہوا۔ اس جانب کتابوں کی ایک الماری تھی۔ میں اس کی طرف بڑھنے لگا۔ آواز کو سننے کے لیے جھک کر اپنے کان کتابوں سے لگا دیے۔ مجھے کوئی اپنی طرف آتا محسوس ہوا۔ میں سیدھا ہو کر شیلف کی کتابیں ٹھیک کرنے لگ گیا۔

لکڑی کی یہ بڑی الماری دیوار میں نصب تھی۔ اس میں نئی اور پرانی کتابیں موجود تھیں۔ مذہب، سائنس، فلسفہ، تاریخ اور ادب کے موضوعات پر کتب موجود تھیں۔ اس کے علاوہ مختلف انسائیکلو پیڈیا، رسالے اور میگزین بھی تھے۔ جب مجھے لگا کہ اب آس پاس کوئی نہیں تو میں پھر ہمہ تن گوش ہو گیا۔ ارے، یہ تو ایک گفتگو تھی۔ میرے پسندیدہ ادیب، شاعر اور فلسفی مکالمہ کر رہے تھے۔ اور ان کی بحث کا موضوع تھا: زندگی۔

میلان کنڈیرا اس گفتگو کی میزبانی کر رہا تھا۔ وہ کہتا ہے:
زندگی کی تمام بنیادی سچو ایشن صرف ایک بار واقع ہوتی ہیں۔
پابلو نرودا: یہی آرٹ اور زندگی کا قانون ہے۔
عتیق رحیمی: خدا نے انسان کو مٹی سے بنایا۔ اس سے پہلے کہ وہ اس میں روح پھونکے؟
بورس پیسٹرناک: زندگی کا مطلب۔ آہا، میرا پسندیدہ موضوع۔
البرٹ کامیو: آپ کبھی جی نہیں سکیں گے، اگر آپ محض زندگی کے معنی تلاش کرتے رہیں۔
ارنسٹو سباتو: کیا ہماری زندگی بے نیاز کہکشاؤں کی گرد میں فقط گم نام چیخوں کا ایک سلسلہ ہے؟
نجیب محفوظ: کیا یہی زندگی ہے! زندگی رب کریم کا مبارک تحفہ ہے۔
ہنرش بول: نظریاتی لحاظ سے زندگی خوبصورت ہے۔ نظریاتی لحاظ سے زندگی شاندار ہے۔

الفریڈو جیلینک: زندگی ختم ہو جاتی ہے، کام زندہ رہ جاتا ہے۔ حالاں کہ حقیقی زندگی کام کے بعد شروع ہوتی ہے۔ پیشہ ورانہ زندگی سے انسان کو کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ بالآخر ایک دیرپا موت اس کا مقدر بنتی ہے۔

میلان کنڈیرا: ایسی زندگی کا کیا فائدہ، جس میں زندگی کی پہلی ریہرسل ہی خود زندگی ہو۔
کارلوس فیونٹس: ایک زندگی کافی نہیں!
اورحان پاموک: دوسری زندگی کچھ نہیں، سوائے ایک کتاب کے جو آپ کے ہاتھوں میں ہو۔
عتیق رحیمی: انسان نے آخرت کا تصور اس لیے تخلیق کیا کہ انسانی نسل کے مٹ جانے کے خوف کو کم کر سکے۔

میلان کنڈیرا جو خاصی دیر سے گہرے ارتکاز میں تھا بولا:
اگر ہمیں جینے کے لیے صرف ایک زندگی ملی ہے تو گویا ہم جیے ہی نہیں۔ ہم صرف ایک بار پیدا ہوتے ہیں۔ ہم کبھی ایسے تجربے سے زندگی شروع نہیں کر سکتے جو ہم نے گزشتہ زندگی سے حاصل کیا ہو۔ انسان جانتا ہے کہ وہ فانی ہے، اس لیے وہ اپنی قوم کو ہمیشہ زندہ دیکھنا چاہتا ہے۔ انسان کو اگر ہمیشہ کی زندگی مل جائے تو وہ یقیناً نا معلوم کو جاتی ہوئی ایک لکیر کے مانند نہ ہو گی۔

ایمل سیوران: اگر زندگی عارضی نہ ہو تو اس کا ڈرامائی کردار ختم ہو جاتا ہے۔
(سب اس انوکھے فلسفی کو حیرت سے دیکھتے ہیں)

اتالو کالوینو: یقیناً بہت سے لوگ آخرت میں اپنا حال موجودہ زندگی سے مختلف چاہتے ہیں۔
میلان کنڈیرا: ایک لذت پرست یہ چاہے گا کہ اس کی زندگی ایک لگے بندھے معمول میں تبدیل نہ ہو جائے۔
البرٹ کامیو: حظ پسندی، میری رومانی زندگی پر حاوی رہی ہے۔

میلان کنڈیرا: انتہائی نا مساعد حالات میں بھی ایک فرد، غیر ارادی طور پر اپنی زندگی کی ترتیب، دل کشی کے اصولوں کے مطابق کرتا ہے۔

البرٹ کامیو: ایک طرف زندگی ہے، دوسری طرف موت۔ درمیان میں حسن اور اداسی معلق ہیں۔
اورحان پاموک: میں نے اپنی پوری زندگی اس اداسی سے لڑتے ہوئے گزاری ہے۔
رینر ماریا رلکے : آپ کی زندگی کیسی رہی؟
میلان کنڈیرا: میری پوری زندگی۔ مجھے لگتا ہے۔ سایوں کی آماج گاہ رہی ہے۔
پابلو نرودا: ایک شاعر کی زندگی اس کی شاعری میں جھلکنی چاہیے۔

جینز پیٹر جیکبسن: زندگی کی آزاد نظم۔ زندگی کو اس کی حقیقی شکل میں قبول کرنا اور اسے اپنے اصولوں کے مطابق پنپنے دینا۔

میلان کنڈیرا: زندگی میں اہم ہے اس کا جاری رہنا۔ بچے پیدا کرنا۔
رینر ماریا رلکے: صرف ایسی زندگی جو حال میں زندہ ہو۔
میلان کنڈیرا: زندگی کی حقیقی جھلک۔ زندگی کی نثر۔ صرف لمحہء موجود میں دیکھی جا سکتی ہے۔
رینر ماریا رلکے: زندگی جو چہروں پر جاری و ساری رہتی ہے۔
کارلوس فیونٹس: زندگی کا صرف جاری رہنا کافی نہیں، اس کا کامل ہونا بھی ضروری ہے۔
پابلو نرودا: میں نے زندگی کو کبھی سیاست اور شاعری میں تقسیم نہیں کیا۔

میلان کنڈیرا: میں نے ہمیشہ سیاست میں شمولیت سے احتراز کیا ہے، گو یہ مجھے اپنی طرف متوجہ کرتی رہی ہے۔ سیاست دان عوام کو ان کے ماضی کے عوض ایک روشن کل کی فروخت کرتے ہیں۔ گویا وہ اپنے وجود کو اتار کر ایک سائے میں تبدیل ہو جائیں۔ جی ہاں، ایک سائے کی زندگی چاہتے ہیں، وہ ان کے لیے۔

ہاروکی موراکامی: ہماری زندگی ایک لمحاتی دھوکا ہے۔ میں اپنی تمام زندگی کو آنے والے وقت میں جمع ہوتا دیکھتا ہوں۔
میلان کنڈیرا: آنے والا وقت، محض ایک بے نیاز خلا ہے۔ جب کہ ماضی زندگی کا مسکن ہے۔
ایمل سیوران: میں تو اپنے ماضی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اب جو میں اس کی طرف پلٹ کر دیکھتا ہوں، ایسا لگتا ہے، گویا کسی اور کی زندگی ہے۔

میلان کنڈیرا: فراموشی۔ زندگی میں چھپی ہوئی ہے موت کی ایک صورت ہے۔
ہاروکی موراکامی: زندگی کے مدار میں موجود ہر چیز، موت کے گرد گھومتی ہے۔ موت کا بلیک ہول آہستہ آہستہ زندگی کے ستارے کو نگلتا ہے۔

(گھر کے دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ میں گفتگو چھوڑ کر باہر کی طرف جاتا ہوں۔ زندگی کے کچھ حقیقی مکالمے میرے منتظر ہوتے ہیں)

فرحان خالد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

فرحان خالد

فرحان خالد تعلیمی اعتبار سے انجنیئر ہیں. ایک دہائی سے سافٹ ویئر انڈسٹری سے منسلک ہیں. بچپن سے انہیں مصوری، رائٹنگ اور کتابیں پڑھنے کا شوق ہے. ادب اور آرٹ کے شیدائی ہیں.

farhan-khalid has 36 posts and counting.See all posts by farhan-khalid