امریکی صدارتی انتخاب 2020 سے شدت پسند تنظیموں کو کیا امیدیں ہیں؟


شدت پسند تنظیمیں اس سوچ میں ہیں کہ امریکہ میں تین نومبر کو ہونے والے صدارتی اتنخابات کے بعد دنیا کی یہ 'سپر پاور' اندرونی طور پر افراتفری اور بدامنی کا شکار ہو جائے گی اور اس کی توجہ ملک سے باہر شدت پسندوں سے ہٹ جائے گی۔

امریکی انتخابات اور اس کے گرد گھومتی ہوئی سیاست کے بارے میں شدت پسند عناصر کا جو نقطۂ نظر ہے اس کے دو اہم نکات ہیں۔

اول یہ کہ شدت پسند عناصر قدامت پسندوں اور متنازع مغربی حکومتوں جیسا کہ امریکہ کی موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کو اچھا سمجھتے ہیں کیونکہ وہ ان کے سخت بیانات اور پالیسیوں کا فائدہ اٹھا کر اپنے جہادی یا سخت گیر ایجنڈے کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔

صدر ٹرمپ کے مسلمانوں کے بارے میں خیالات، ان کی امیگریشن اور خارجہ پالیسی اور مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی مکمل حمایت کو شدت پسند تنظیمیں اپنے بیانیے ‘کہ اسلام خطرے میں ہے’ کو تقویت دینے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

مغرب میں انتہائی دائیں بازو کے لوگوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں اور انٹرنیٹ پر جاری کیے جانے والے انتہا پسندانہ مواد سے ان تنظیموں کو مزید موقع ملتا ہے کہ وہ اپنے سخت گیر بیانیے کا پرچار کریں۔

مجموعی طور پر مغربی ممالک میں دائیں بازو کی جماعتوں کا سر اٹھانا ان کے لیے اچھی خبر ہے کیونکہ انھیں یہ ثابت کرنے میں آسانی ہوتی ہے کہ مسلم اور غیر مسلم ایک ساتھ نہیں رہ سکتے اور وہ مستقل ایک جنگ کی حالت میں ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

روس، چین اور ایران امریکی انتخابات میں کس کی فتح کے خواہش مند

ٹرمپ کے رہنے یا نہ رہنے سے انڈیا کو کیا فرق پڑے گا؟

امریکہ کا اگلا صدر کون ہو گا؟ آپ فیصلہ کریں

اس سال جولائی میں جب امریکہ میں ڈیموکریٹ پارٹی کے صدارتی امیدوار جو بائیڈن نے مسلمان ووٹروں سے حمایت کی اپیل کرتے ہوئے پیغمبرِ اسلام کا حوالہ دیا تو اس پر ان تنظیموں نے شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے جو بائیڈن کو ’دھوکے باز‘ قرار دیا اور مسلمانوں کو خبردار کیا کہ وہ ان کے ’جھانسے‘ میں نہ آئیں۔

شدت پسند تنظیموں میں کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ سے نمٹنا آسان ہے کیوں کہ جو کچھ وہ کہتا ہے یا جیسا وہ نظر آتا ہے وہ اصل میں ویسا ہی ہے۔

اس کے ساتھ ہی صدر ٹرمپ کی خارجہ پالیسی جو کہ بیرونی دنیا کے تنازعات میں امریکہ کی مداخلت کم سے کم کرنے کی سوچ پر مبنی ہے، اسے شدت پسند اپنے حق میں بہتر سمجھتے ہیں۔

گو کہ صدر ٹرمپ نے بیرونی دنیا میں شدت پسند عناصر کے بارے میں اپنے لب و لہجے یا اقدامات میں کوئی نرمی نہیں دکھائی ہے۔

گزشتہ برس امریکہ نے نام نہاد تنظیم دولت اسلامیہ کو شام میں اس کے مضبوط گڑھ سے اکھاڑ پھیکنا تھا اور گروپ کے سربراہ ابو بکر البغدادی اور ان کے ترجمان کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس سال امریکہ نے یمن میں القاعدہ کے سربراہ کو ہلاک کیا ہے۔

دوسری اہم چیز جس پر شدت پسند بڑے خوش ہیں وہ امریکہ کے اندرونی حالت ہے خاص طور پر صحت، سیاست اور نسلی منافرت سے متعلق مسائل ہیں جن سے ملک میں بدامنی، بے چینی اور تشدد پھیل رہا ہے۔

شدت پسند تنظیموں کا خیال ہے کہ کووڈ 19 سے امریکہ میں ہونے والی ہلاکتوں اور ملک میں بڑھتا ہوا نسل پرستانہ تشدد جو کہ ‘بلیک لائف میٹر’ کے نعرے پر ہو رہا ہے، وہ ’قدرت کی طرف سے امریکہ کے زوال کے اشارے ہیں‘۔

وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہے جہاں امریکہ ایک کمزور اور اپنے اندرونی مسائل میں الجھا ہوا ملک ہوگا اور اس سے ان تنظیموں کو کھلی چھٹی مل جائے گی کہ وہ مسلمان ملکوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھائیں اور مکمل آزادی سے اپنے کارروائیاں مکمل کریں۔

یہ بھی پڑھیے

’میں پہلے جہادی تھی اب جہاد کے خلاف ہوں‘

’جہاد اب بھی لوگوں کو اپنی طرف مائل کر رہا ہے‘

فرانس میں بچے کا نام ‘جہاد’ رکھا جا سکتا ہے یا نہیں؟

اس سال موسم گرما میں القاعدہ نے ایک موقع پرستانہ پیغام جاری کیا جس میں امریکہ میں نسل پرستانہ تشدد کا حوالہ دیتے ہوئے افریقی النسل امریکی شہریوں کو پیغام دیا جس میں اپنے آپ کو پسے ہوئے اور استحصال کا شکار لوگوں کا نمائندہ اور نجات دہندا بنا کر پیش کیا گیا۔

اس پیغام میں زور دیا گیا کہ وہ ڈیموکریٹرٹ، رپبلکن اور سرمایہ دارانہ نظام اس کے بینکوں اور بڑی بڑی کمپنیوں کے خلاف اپنا احتجاج جاری رکھیں۔ اس میں کہا گیا کہ ڈیموکریٹ اور رپبلکن دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔

شدت پسند حلقوں میں امریکی انتخابات میں جاری بحث میں اس امید کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ امریکی انتخابات کے جو بھی نتائج سامنے آئیں اس کے بعد سیاسی افراتفری پھیلے گی اور امریکی سیاست میں اور مختلف نسل کے لوگوں میں کشیدگی بڑھے جو خانہ جنگی تک جا سکتی ہے۔

لیکن کچھ استثنیٰ بھی ہیں۔

افغانستان کے طالبان اس بات کو نہیں چھپاتے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ ایک اور مدت کے لیے صدر منتخب ہو جائیں۔

امریکی حکومت اور طالبان کے درمیان اس سال جنوری میں معاہدے کے پس منظر میں یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں طالبان کو یہ یقینی دہانی کروائی گئی کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کو نکال لیا جائے گا۔ اس معاہدے کے بعد طالبان کو اپنے قیدیوں کو رہا کروانے میں مدد ملی اور ان کے افغان حکومت سے بین الافغان مذاکرات شروع ہوئے۔

طالبان کے اس معاہدے سے شدت پسند عناصر میں تقسیم پیدا ہوئی لیکن دیگر جگہوں پر ان کی اسی طرح کے معاہدے کرنے کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp