’ڈارک سائڈ‘ نامی ہیکرز نے چوری شدہ رقم عطیہ کرنا شروع کر دی
ایک ہیکنگ گروپ کی جانب سے چوری شدہ رقم عطیہ کیے جانے کا اقدام ماہرین کو حیران کیے ہوئے ہے اور خیال کیا جا رہا ہے کہ ایسا سائبر جرائم کی دنیا میں پہلی مرتبہ کیا گیا ہے۔
ڈارک سائڈ نامی ہیکرز کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے مختلف کمپنیوں سے لاکھوں ڈالر چوری کیے تھے مگر اب وہ کہتے ہیں کہ وہ دنیا کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔
ڈارک ویب پر ایک پوسٹ میں انھوں نے دو فلاحی تنظیموں کو دس دس ہزار ڈالر بٹ کوائن کی صورت میں عطیہ کرنے کی رسیدیں شیئر کی ہیں۔
ان تنظیموں میں سے ایک چلڈرن انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ وہ یہ پیسے اپنے پاس نہیں رکھیں گے۔
ہیکنگ گروپ کے اس اقدام کو قانونی طور پر اور اخلاقی طور پر عجیب اور پریشان کن تصور کیا جا رہا ہے۔
13 اکتوبر کی ایک بلاگ پوسٹ میں اس گروہ نے کہا کہ وہ صرف بڑی بڑی منافع بخش کمپنیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ گروپ عموماً رینسم ویئر اٹیک کرتے ہیں جو کہ کمپنیوں کے آئی ٹی نظام کو یرغمال بنا لیتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمارے خیال میں یہ منصفانہ ہے کہ کمپنیوں نے جو پیسے ادا کیے ہیں ان میں سے کچھ فلاحی تنظیموں کو دیے جائیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
ہیکرز نے کس طرح یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے 11 لاکھ 40 ہزار ڈالر کا تاوان لیا
’ہیکرز نے کمپیوٹر وائرس سے میرا ہاتھ جلا دیا‘
جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد ہیکرز کے گروپ ’انانیمس کی واپسی‘
ہیکر نے ڈھائی کروڑ ڈالر چوری کیے، پھر خود ہی واپس کر دیے
‘چاہے آپ ہمارے کام کو جتنا بھی برا سمجھتے ہیں، ہمیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ہم نے آج کسی کی زندگی بدلی ہے۔ آج ہم نے اپنی جانب سے پہلے عطیات بھیج دیے ہیں۔‘
انھوں نے اپنے پوسٹ میں عطیات کی رسید کے ساتھ ٹیکس کی رسید بھی پیش کی جس میں ان کے 0.88 بٹ کوائن عطیے کو دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ عطیات دو تنظیموں دی واٹر پروجیکٹ اور چلڈرن انٹرنیشنل کو بھیجے گئے۔
چلڈرن انٹرنیشنل کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘اگر یہ عطیہ کسی ہیکر سے منسلک ہے تو ہم اسے اپنے پاس نہیں رکھیں گے۔‘
دی واٹر پروجیکٹ افریقہ کے صحرائی علاقوں میں پانی تک رسائی پر کام کرتی ہے۔ تنظیم نے ابھی تک اس حوالے سے اپنے موقف کا اعلان نہیں کیا ہے۔
سائبر سکیورٹی کمپنی ایمسیسوفٹ کے تھریٹ اینالسٹ بریٹ کالو کا کہنا ہے کہ ‘یہ مجرمان اس اقدام سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں، اب تک یہ واضح نہیں ہے۔ شاید وہ اپنے احساسِ جرم کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ یا پھر شاید وہ رابن ہُڈ جیسے دکھنا چاہتے ہیں۔‘
‘ان کے جو بھی مقاصد ہوں، یہ ایک غیر معمولی اقدام ہے اور میری معلومات کے مطابق یہ پہلا موقع ہے کہ کسی رینسم ویئر گروپ نے فلاحی تنظیم کو عطیہ کیا ہو۔‘
ڈارک سائڈ نامی یہ ہیکر گروپ قدرے نیا ہے تاہم کریپٹو کرنسی مارکیٹ کے تجزیے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ متاثرین سے بارہا پیسے چوری کر چکے ہیں۔
اس کے علاوہ اس بات کے شواہد بھی ہیں کہ ان کے دیگر سائبر کرمینیل گروہوں کے ساتھ روابط ہیں جو کہ متعدد ہائی پروفائل کمپنیوں کو نشانہ بنا چکے ہیں جیسے کہ جنوری میں ٹریول ایکس کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
اور جس طرح ہیکرز نے فلاحی تنظیموں کو پیسے دیے ہیں یہ بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔
انھوں نے امریکہ میں سروس ’دی گیونگ بلاک‘ استعمال کی ہے جو کہ 67 غیر سرکاری تنظیمیں استعمال کرتی ہیں جن میں سیو دی چلڈرن، رین فوریسٹ فاؤنڈیشن اور شی اِز دا فرسٹ شامل ہیں۔
دی گیونگ بلاک خود کو وہ واحد کمپنی قرار یہے جو کہ غیر سرکاری فلاحی تنظیموں کے لیے کریپٹو کرنسی میں عطیات جمع کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔
دی گیونگ بلاک نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں نہیں معلوم کہ یہ عطیات سائبر مجرمان کی جانب سے کیے گئے ہیں۔ ‘ہم یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیا یہ پیسے واقعی چوری کیے گئے تھے۔‘
‘اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ پیسے چوری کے ہیں تو ہم انھیں واپس کرنے کا عمل شروع کر دیں گے۔‘
تاہم کمپنی نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ پیسے انھی مجرمان کو واپس کریں گے یا وہ ان لوگوں کو پیسے واپس کرنے کی کوشش کریں گے جن سے پیسے چوری کیے گئے تھے۔
دی گیونگ بلاک کا یہ بھی کہنا ہے کہ کیونکہ ان لوگوں نے عطیات کریپٹو کرنسی کے ذریعے کیے ہیں اس لیے انھیں پکڑنا بھی زیادہ آسان ہوگا۔
تاہم کمپنی نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ عطیہ کرنے والوں کی کیا کیا معلومات اپنے پاس رکھتے ہیں۔ ایسی سروسز میں عموماً صارفین کی شناخت جمع کی جاتی ہے مگر ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اس معاملے میں کیا کیا گیا تھا۔
ایک تجربے کے طور پر بی بی سی نے بغیر شناخت ظاہر کیے عطیہ کرنے کی کوشش کی اور اس دوران ہم سے کوئی شناختی دستاویزات نہیں مانگے گئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کیس بےنامی عطیات کی پیچیدگیوں اور خطرات کی نشاندہی کرتا ہے۔
بی بی سی نے دیگر فلاحی تنظیموں سے بھی اس بارے میں بات کی ہے۔ سیو دی چلڈرن نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ کبھی بھی ایسے ذرائع سے پیسے نہیں لیں گے جہاں انھیں معلوم ہو کہ کوئی جرم سرزد کیا گیا ہو سکتا ہے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).