چین اور تائیوان: کشیدہ تعلقات اور سفارتکاروں کے درمیان ہاتھا پائی کا معاملہ


چین اور تائیوان کے پرچم
چین اور تائیوان کے مابین طویل عرصے سے جاری کشیدگی میں اس وقت مزید اضافہ ہوگیا جب فیجی میں دونوں ممالک کے سفارت کاروں کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی۔

تائیوان نے الزام لگایا ہے کہ رواں ماہ اپنے قومی دن کی تقریبات کے دوران چینی سفارت خانے کے دو اہلکار بغیر دعوت کے وہاں پہنچ گئے جبکہ چین نے تائیوان کے ان دعوؤں کو مسترد کر دیا ہے۔

دونوں فریقین کا کہنا ہے کہ اس جھڑپ میں ان کے افسر زخمی ہوئے ہیں اور فیجی کی پولیس سے معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

تائیوان کو چین اپنا الگ ہونے والا صوبہ کہتا ہے لیکن تائیوان کے رہنماؤں کا کا کہنا ہے کہ ان کا ملک ایک خودمختار ملک ہے۔

دونوں ممالک کے مابین تعلقات کشیدہ ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین لڑائی کا مستقل خطرہ ہے جس میں تائیوان کے اتحادی کی حیثیت سے امریکہ کو بھی شامل ہونا پڑ سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

امریکی اعلیٰ عہدیدار کے دورے کے موقع پر چین کی آبنائے تائیوان میں فوجی مشقیں

چینی فضائیہ کی پروپیگنڈا ویڈیو کا پول کھل گیا

شی جن پنگ: ’تائیوان چین میں ضم ہو کر رہے گا‘

’ون چائنا پالیسی کو چیلنج کیا تو آبنائے تائیوان میں امن متاثر ہو گا‘

شیو نادر یونیورسٹی کے بین الاقوامی تعلقات اور گورننس سٹڈیز کے شعبہ میں ایسوسی ایٹ پروفیسر جبین تھامس جیکب کا کہنا ہے کہ ‘یہ صرف فیجی کا معاملہ نہیں ہے۔ جہاں بھی تائیوان سے متعلق کچھ ہوگا اس میں چینی سفارتکار مداخلت کریں گے۔’

جیکب کا کہنا ہے کہ چینی سفارتکار کچھ عرصے سے بہت حد تک جارحانہ سلوک کر رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ‘انھیں سفارتکار کہنا بھی درست نہیں ہے کیونکہ وہ سفارت کاروں کی طرح سلوک نہیں کر رہے ہیں۔ مار پیٹ کرنا، بدسلوکی کرنا، گالیاں دینا سفارتکاروں کا کام نہیں ہے۔’

پورا معاملہ کیا ہے؟

یہ واقعہ آٹھ اکتوبر کو اس وقت پیش آیا جب فیجی میں تائیوان کے تجارتی دفتر نے فیجی کے دارالحکومت سووا کے پرتعیش گرانڈ پیسیفک ہوٹل میں لگ بھگ 100 مہمانوں کے اعزاز میں استقبالیہ دیا۔ ایک طرح سے اس تجارتی دفتر کو تائیوان کا سفارت خانہ سمجھا جاتا ہے۔

تائیوان کی وزارت خارجہ کا دعویٰ ہے کہ دو چینی عہدیداروں نے تصاویر کھینچنا شروع کیں اور مہمانوں کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنا شروع کردیں۔ وزارت کا کہنا ہے کہ ’تائیوان کے سفارت کار نے انھیں جانے کے لیے کہا، لیکن ان پر حملہ ہوا اور سر میں چوٹ لگنے کے باعث انھیں ہسپتال میں داخل کرنا پڑا‘۔

تائیوان کی وزارت خارجہ کی ترجمان جوآن اواو نے اس واقعے کے متعلق اپنے رد عمل میں بتایا ‘ہم فیجی میں چینی سفارت خانے کے عملے کے اس اقدام کی سخت مذمت کرتے ہیں جنھوں نے قانون اور مہذب طرز عمل کی شدید خلاف ورزی کی ہے۔’

لیکن چین نے اس پر مختلف موقف دیا ہے۔ چین میں فیجی کے سفارت خانے نے کہا ہے کہ ان کے دفتر کا عملہ ‘پروگرام کے مقام سے باہر عوامی مقام’ پر تھا اور وہ اپنے سرکاری فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ چین نے تائیوان کے اہلکاروں پر اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کرنے اور ایک چینی سفارت کار کو زخمی کرنے اور نقصان پہنچانے کا الزام عائد کیا ہے۔

پیر کو چین کی وزارت خارجہ نے ایک بریفنگ میں بتایا کہ ان کے اہلکاروں کو اس بات کا علم تھا کہ پروگرام میں کیا ہو رہا ہے۔ انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ وہاں ایک کیک پر تائیوان کا پرچم بنا ہوا تھا۔ چین اسے غلط سمجھتا ہے کیونکہ وہ تائیوان کو بطور خودمختار ملک تسلیم نہیں کرتا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے کہا ‘وہاں کھلے عام ایک جھوٹا قومی پرچم لگا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ ایک کیک پر بھی جھوٹا قومی پرچم بنا ہوا تھا۔’

چین تائیوان

'چین جارح ہو رہا ہے'

چین طویل عرصے سے تائیوان کی بین الاقوامی سرگرمیوں پر پابندیاں لگانے کی کوشش کر رہا ہے اور دونوں ممالک بحر الکاہل کے علاقے میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں سینٹر فار چائنیز اینڈ ساؤتھ ایسٹ ایشین سٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر راکیش کمار کہتے ہیں ‘اس طرح کے واقعات پہلے کبھی نہیں سنے گئے ہیں، لیکن جس طرح سے چین جارحانہ اقدامات کر رہا ہے اس میں کچھ بھی ممکن ہے۔’

اگرچہ تائیوان کو کچھ ممالک ہی باضابطہ طور پر تسلیم کرتے ہیں لیکن اس کی جمہوری طور پر منتخب حکومت کے بہت سے ممالک کے ساتھ کاروباری اور غیر رسمی تعلقات ہیں۔

ڈاکٹر راکیش کمار کا کہنا ہے کہ چین اور تائیوان کے مابین تناؤ نیا نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘چین تائیوان کو اپنا حصہ مانتا ہے، جبکہ تائیوان کا کہنا ہے کہ وہ ایک آزاد ملک ہے۔ سنہ 1949 میں چیانگ کائیشک کے زمانے سے ہی یہ کشیدگی چلی آ رہی ہے۔’

جیکب کا کہنا ہے کہ چین ‘ون چائنا پالیسی’ پر عمل کرتا ہے اور ایسی صورتحال میں اگر کوئی بھی ملک تائیوان کو زیادہ اہمیت دیتا ہے تو وہ یقینی طور پر اس پر اعتراض کرتا ہے۔

انھوں نے کہا ‘تائیوان نے کووڈ 19 کے دوران ڈبلیو ایچ او کی رکنیت حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن چین نے اسے کامیاب نہیں ہونے دیا۔’

تائیوان کی تاریخ

تائیوان کا ذکر پہلی بار سنہ 239 میں چینی ریکارڈ میں ہوا تھا۔ اس وقت چین نے ایک مہم جو ٹیم کو اس جزیرے میں دریافت کے لیے روانہ کیا تھا۔ چین اس حقیقت کو تائیوان پر اپنا دعویٰ پیش کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

سنہ 1624 سے 1661 تک ڈچ کالونی رہنے کے بعد تائیوان 1683 سے 1895 تک چین کی کوئنگ سلطنت کے ماتحت رہا۔ 1895 میں پہلی چین-جاپان جنگ میں جاپان نے کامیابی حاصل کی اور کوئنگ حکومت نے تائیوان کو جاپان کے حوالے کردیا۔

دوسری عالمی جنگ میں چین فاتحین میں شامل تھا۔ امریکہ اور برطانیہ کی رضامندی سے چین نے تائیوان پر حکمرانی کرنا شروع کر دی۔ تاہم اگلے چند برسوں کے اندر چین میں خانہ جنگی شروع ہوگئی اور اس وقت کے رہنما چیانگ کائیشک کی افواج کو ماؤ زی تنگ کی کمیونسٹ فوجیوں نے کچل دیا۔

سنہ 1949 میں چیانگ اور ان کی کوؤمیتاانگ پارٹی (کے ایم ٹی) حکومت کے باقی ماندہ افراد تائیوان فرار ہوگئے۔ یہ گروپ طویل عرصے تک تائیوان کی سیاست پر قابض رہا، جبکہ ان کی آبادی صرف 14 فیصد تھی۔

مقامی لوگوں کی مخالفت اور جمہوریت کے مطالبے کی وجہ سے چیانگ کے بیٹے چیانگ چینگ کوؤ نے جمہوریت لانے کا عمل شروع کیا۔ اس کی وجہ سے سنہ2000 میں پہلی بار کے ایم ٹی کے باہر سے صدر چن شوئی بیان اقتدار میں آئے۔

چن شوئی بین

تائیوان کے رہنما چن شوئی بین

موجودہ حالات

کئی دہائیوں کی کشیدگی کے بعد سنہ 1980 کی دہائی میں چین اور تائیوان کے مابین تعلقات میں بہتری آنے لگی۔ چین نے ‘ایک ملک دو نظام’ کا فارمولا دیا جس کے تحت اگر تائیوان نے چین کے ساتھ اتحاد کو قبول کرلیا تو اسے زیادہ سے زیادہ خودمختاری دی جانی تھی۔

تائیوان نے اس پیشکش کو مسترد کردیا لیکن وہاں کی حکومت نے چین میں نقل و حرکت اور سرمایہ کاری سے متعلق قواعد میں نرمی کردی۔ سنہ 1991 میں اس نے چین کے ساتھ جنگ کے خاتمے کا اعلان بھی کیا۔

سنہ 2000 میں چین کے کان اس وقت کھڑے ہوئے جب تائیوان نے چن شوئی بین کو صدر منتخب کیا۔ وہ کھلے عام آزادی کی حمایت کرتے تھے۔

سنہ 2004 میں چن شوئی ایک بار پھر جیت گئے۔ اس کی وجہ سے چین نے سنہ 2005 میں علحیدگی مخالف قانون منظور کیا۔ اس میں آزادی کی کوشش کے نتیجے میں چین کی جانب سے تائیوان کے خلاف غیر پر امن ذرائع استعمال کرنے کے حق کے بارے میں کہا گیا تھا۔

جنوری سنہ 2016 میں ہونے والے انتخابات میں تسائی اینگ وین نے کامیابی حاصل کی۔ وہ ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی (ڈی پی پی) سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کی پارٹی چین سے علیحدگی چاہتی ہے۔

تسائی نے سنہ 2020 میں ایک بار پھر کامیابی حاصل کی اور چین ان سے سخت ناراض ہے۔

دوسری طرف امریکہ نے تائیوان کے ساتھ اپنے تعلقات میں اضافہ کیا ہے۔ ستمبر میں امریکہ نے اپنے ایک سینیئر سیاستدان کو تائیوان بھیجا تھا۔

چین نے امریکہ کے اس اقدام پر کڑی تنقید کی تھی۔ چین نے متنبہ کیا کہ امریکہ تائیوان کے آزادی کے حامی عناصر کو غلط پیغام نہ دے تاکہ چین اور امریکہ کے تعلقات کو بڑے نقصان سے بچایا جاسکے۔

تسائی اینگ وین

تسائی اینگ وین

امریکہ اور چین کے درمیان تناؤ کا اثر

اس وقت امریکہ اور چین میں کافی تناؤ ہے اور معاملات پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں۔

جیکب کا کہنا ہے کہ امریکہ میں تائیوان ریلیشنز ایکٹ کے نام سے ایک قانون موجود ہے جس کے مطابق اگر تائیوان کو کوئی خطرہ لاحق ہو تو امریکہ مداخلت کرے گا۔

چین اور تائیوان کے مابین گذشتہ چند برسوں کے دوران سمندری اور فضائی حدود کی خلاف ورزی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

ڈاکٹر راکیش کمار کہتے ہیں ‘چین تائیوان کو اپنا حصہ بنانے کے لیے جارحانہ انداز میں کام کر رہا ہے۔’

کمار کا کہنا ہے کہ شی جن پنگ کی آمد سے قبل چین خود کو عالمی فورمز میں ایک شریک کے طور پر شامل کرنا چاہتا تھا۔

کمار کہتے ہیں کہ شی جن پنگ کی آمد کے بعد چینی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی آئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘چین چاہتا تھا کہ اسے دنیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر شامل کیا جائے، لیکن شی جن پنگ کی آمد کے بعد سے چین اب ورلڈ لیڈر بننے کی کوشش کر رہا ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp