فیک نیوز: انڈین میڈیا اور سوشل میڈیا پر پاکستان میں ’خانہ جنگی‘ کی جھوٹی خبریں، ’ٹوئٹر کب جاگے گا‘


پاکستان میں حزب اختلاف کی 11 جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک فرنٹ (پی ڈی ایم) کی جانب سے حکومت مخالف تحریک کے تحت کراچی میں جلسے اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات کے بعد اپوزیشن اور حکومت کے درمیان جہاں ایک جانب چپقلش کا پارہ چڑھتا دکھائی دے رہا تھا وہیں دوسری جانب منگل کی شب ساڑھے دس بجے ٹوئٹر پر ایک اکاؤنٹ سے ٹویٹ کی گئی۔

ٹویٹ میں لکھا تھا ’خبروں کے مطابق پاکستان کے چار فوجی اور سندھ پولیس کے ایک سب انسپیکٹر کراچی میں ہونے والی ایک جھڑپ میں ہلاک ہو گئے ہیں۔ غیر مصدقہ خبروں کے مطابق کراچی میں سڑکوں پر ٹینک نظر آئے ہیں۔‘

ایک گھنٹے بعد اسی اکاؤنٹ سے ایک اور ٹویٹ کی گئی جس میں لکھا تھا: ’کراچی کے گلشن باغ علاقے سے بھاری فائرنگ کی آوازیں، پاکستان فوج نے سندھ پولیس کے سپرانٹینڈنٹ محمد آفتاب کو حراست میں لینے کی کوشش کی۔‘

پاکستان میں صارفین کے لیے یہ ٹویٹس کافی حیرانی کا باعث تھیں کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا اور اسی حوالے سے متعدد صارفین نے یہ شکایت سوشل میڈیا پلیٹ فارم تک بھی پہنچائی کہ یہ ’فیک نیوز‘ یعنی غلط خبر ہے۔

لیکن یہ سلسلہ تھم نہ سکا اور رات بھر انڈیا سے تعلق رکھنے والے مختلف اکاؤنٹس سے اسی نوعیت کی ٹویٹس کی جاتی رہیں۔

یہ بھی پڑھیے

فیس بک نے پاکستانی اکاؤنٹس کے ایک ’منظم نیٹ ورک‘ کو بند کر دیا

انڈیا، چین سرحدی تنازع: سوشل میڈیا پر شیئر کیے جانے والے دعوؤں کی حقیقت کیا ہے؟

سوشل میڈیا پر لنگڑاتا سچ اور دوڑتا جھوٹ

کپل شرما شو کے بعد ’ارنب گوسوامی کے حامی بڑے صدمے میں ہوں گے‘

ایک انڈین ٹوئٹر صارف پرشانت پٹیل امراؤ نے، جن کا ٹوئٹر اکاؤنٹ نہ صرف ’تصدیق شدہ‘ ہے اور ٹوئٹر پر وہ خود کو بطور وکیل انڈین سپریم کورٹ پیش کرتے ہیں، متعدد ٹویٹس میں لکھا کہ ’پاکستان میں خانہ جنگی کے حالات بن گئے ہیں، پولیس اور فوج کے درمیان تصادم میں کئی اہلکاروں کی ہلاکت ہو گئی ہے، وزیر اعظم عمران خان نے ریڈیو پر قومی نغمے چلانے کا حکم دیا ہے اور ممکنہ طور پر امریکی بحریہ کراچی کی بندر گاہ پر پہنچنے والی ہے‘۔

پرشانت پٹیل کی ٹویٹس پر کئی لوگوں نے ان کا ازراہ مذاق مزید مبالغہ آرائی کرتے ہوئے ٹویٹس میں جواب دیا۔

ایک صارف مہوش نے لکھا کہ ‘میں یہاں کراچی میں ہوں اور ہم نے ساری رات بیٹ مین کو سگنل بھیجے لیکن وہ نہیں آیا۔ ہم سب اس سے اتنے خفا تھے کہ اچانک سے کیپٹن امریکا ہمیں بچانے آ گئے۔ تب ہم نے دیکھا کہ بیٹ مین تو مخالفین کی جانب سے لڑ رہا تھا۔’

یہی معاملہ بدھ کے روز بھی جاری رہا جب متعدد انڈین نیوز چینلز اور نیوز ویب سائٹس نے اسی نوعیت کی خبریں چلائیں اور شہ سرخیوں میں ’پاکستان میں خانہ جنگی کے امکانات’ کے خدشے کا اظہار کیا اور لکھا کہ ‘پاکستان آرمی نے کراچی کے تمام پولیس سٹیشنز پر قبضہ کر لیا ہے۔’

ان اداروں میں زی نیوز، انڈیا ٹو ڈے، سی این این 18 اور کئی دیگر اداروں کے ٹوئٹر اکاؤنٹس شامل تھے جو کہ ٹوئٹر پر تصدیق شدہ ہیں۔

‘یہ میڈیا ہاؤسز صحافت نہیں مذاق کر رہے ہیں’

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ‘فیک نیوز’ اور ‘ڈس انفارمیشن’ کے حوالے سے تنازعات نئے نہیں ہیں اور بالخصوص پاکستان اور انڈیا میں اس نوعیت کے کئی واقعات سامنے آ چکے ہیں جہاں ان پلیٹ فارمز پر منظم طریقے سے ‘فیک نیوز’ کا پرچار کیا جاتا رہا ہے۔

عام صارفین تو اکثر اوقات اس نوعیت کی ٹویٹس کرتے ہیں اور ‘ٹرولنگ’ کرنے میں آگے آگے ہوتے ہیں لیکن جب بات میڈیا ہاؤسز کی ہو اور وہ بھی ایسے ادارے جن کے اکاؤنٹس ٹوئٹر سے تصدیق شدہ ہوں، تو یہ حالات میں مزید بگاڑ پیدا کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔

اس حوالے سے بی بی سی نے جب موقر انڈین جریدے ‘دا کاراوان’ کے سیاسی مدیر ہرتوش سنگھ بل سے سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’دونوں ممالک میں چند ایسے میڈیا ادارے ہیں جو صحافت نہیں مذاق کر رہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ کھیل کھیل رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا ‘ان اداروں کا صحافت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ جب ان کی اپنے خود کے ملک میں صحافت غیر جانبدار نہیں ہوتی اور وہ اس ایجنڈے پر چلتے ہیں جو حکومتی ہو، تو آپ ان سے کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ وہ دوسرے ملکوں کے بارے میں غیر جانبدارانہ صحافت کریں گے۔’

دوسری جانب دہلی میں مقیم ایک سینئیر انڈین صحافی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا کہ یہ جو معاملہ چل رہا ہے وہ بظاہر ’حکومتی جماعت (بھارتیہ جنتا پارٹی) کے آئی ٹی سیل کی جانب سے ہو رہا ہے‘۔

ٹویٹس کرنے والے صارفین پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر آپ ان کا جائزہ لیں تو یہ صاف نظر آتا ہے کہ غلط خبریں پھیلانے والے اکاؤنٹس وہ ہیں جو یا تو حکومتی جماعت سے منسلک ہیں یہ ان کے حمایتی ہیں۔’

انھوں نے مزید کہا کہ جھوٹی معلومات کی ایسی مہم کوئی نئی بات نہیں ہے اور شاید انڈیا میں اس بار کسی کو خیال آیا ہے کہ پاکستان کی فوج اور پولیس کے درمیان تفرقہ پیدا کیا جائے کیونکہ یہ ‘حکومتی بیانیے سے مماثلت رکھتا ہے کہ پاکستان تنزلی کا شکار ہے۔’

صحافتی اقدار اور ایڈیٹوریل نگرانی کے بارے میں سوال پر انھوں نے کہا کہ اس نوعیت کی زیادہ تر ٹویٹس ٹی وی چینلز کی جانب سے کی گئی ہیں اور وہ ‘فیکٹ چیکنگ’ میں زیادہ مہارت نہیں رکھتے۔

دہلی میں واقع تھنک ٹینک ‘او آر ایف’ كے سوشانت سرین نے بی بی سی کے نیاز فاروقی سے بات کرتے ہوئے ان ٹویٹس اور خبروں کو ‘بہت زیادہ مبالغہ آرائی’ قرار دیا۔

سوشانت سرین کا کہنا تھا کہ پاکستان کے موجودہ حالات سول وار جیسی صورتحال سے ‘بہت، بہت دور ہیں۔’

انڈیا كے سابق سیکریٹری خارجہ امور ویوک کاٹجو نے بی بی سی کے نیاز فاروقی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے سیاسی حالات میں ایک ٹکراؤ ضرور ہے۔

’اگر آپ پاکستان کی تاریخ دیکھیں تو ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی بیٹی بینظیر كے بعد یہ پہلی مرتبہ ہے جو پاکستان کا ایک سیاسی حصہ یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ فوج سیاست میں دخل اندازی نہ کرے۔’

‘انڈین میڈیا ان کی حکومت کے تابع ہے’

ٹوئٹر پر چلنے والی ان خبروں اور ٹویٹس کے حوالے سے جب بی بی سی نے وزیر اعظم عمران خان کے فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل میڈیا ڈاکٹر ارسلان خالد سے سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ‘بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب انڈین میڈیا نے اس طرح ایک منظم طریقے سے پاکستان کے خلاف مہم جوئی کی ہو، اور یہ بی جے پی حکومت کی پالیسی کا حصہ ہے کہ پاکستان کے خلاف پراپگینڈا کیا جائے۔’

ڈاکٹر ارسلان خالد نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس پلیٹ فارم کو انڈیا میں موجود عناصر غلط طریقے سے استعمال کر رہے ہیں۔

‘تصدیق شدہ اکاؤنٹس سے جھوٹی ٹویٹس کی جاتی ہیں اور پراپگینڈا کیا جاتا ہے۔ یہ ٹوئٹر کی اپنی ساکھ کے لیے بہت نقصان دہ ہے اور ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی خود کی پالیسیوں پر عمل پیرا نہیں ہیں۔’

ان کا کہنا تھا کہ حکومتِ پاکستان نے مختلف مواقعوں پر ٹوئٹر سے رابطہ کیا ہے اور اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے لیکن ان کی شنوائی نہیں ہوئی ہے۔

’اگر ہمیں لگتا ہے کہ انڈیا ٹوئٹر کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف جھوٹ کا پرچار کر رہا ہے تو حکومت پاکستان کے پاس پورا حق ہے کہ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے تمام قانونی اور سفارتی اقدامات اٹھائیں۔‘

بی بی سی نے ٹوئٹر کی انتظامیہ سے اس حوالے سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم ان سے اس مضمون کے شائع ہونے تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا تھا۔

تاہم سوشل میڈیا پر فیک نیوز اور ڈس انفارمیشن کے حوالے سے تحقیق کرنے والی صحافی رمشا جہانگیر سے بی بی سی نے جب اسی حوالے سے سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ انڈیا میں ایسے کئی منظم نیٹ ورکس ہیں جن کا تعلق بے جے پی سے ہے اور وہ سماجی رابطوں کے مختلف پلیٹ فارمز پر ان کے بیانیے کو بڑھانے میں مدد دیتے ہیں۔

ٹوئٹر کی پالیسیوں کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘فیک نیوز’ پلیٹ فارم کی پالیسی کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے تاہم ٹوئٹر نے ایسا کوئی طریقہ نہیں بنایا کہ اُن اکاؤنٹس کی شکایت کی جا سکے جو اس خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں۔

رمشا جہانگیر نے پرشانت پٹیل کے اکاؤنٹ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ‘یہ ایک تصدیق شدہ اکاؤنٹ ہے لیکن ٹوئٹر نے ان کی فیک نیوز والی ٹویٹس یہ کہہ کر حذف نہیں کیں کہ یہ پالیسیوں کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔’

سوشل میڈیا پر رد عمل: ‘کراچی کے گلشن باغ میں خانہ جنگی کا ماحول’

پہلے تو یہ جان لیں کہ کراچی میں ’گلشن باغ‘ نامی کوئی علاقہ ہی نہیں ہے۔

پاکستانی ٹوئٹر کا خاصہ رہا ہے کہ کوئی بھی بات ہو، طنز و مزاح کا موقع نہیں چھوڑنا چاہیے اور پاکستانی صارفین تفریح کی اس بہتی گنگا میں ہاتھ ضرور دھوتے ہیں۔

ایسا ہی کچھ اس بار بھی ہوا جب انڈین اکاؤنٹس نے کراچی کے ‘گلشن باغ’ علاقے میں ‘پولیس اور فوج کے درمیان تصادم’ کا ذکر کیا۔

ایک صارف نے مزار قائد کی فوٹو شاپ کی ہوئی تصویر لگا کر ٹویٹ میں لکھا: ‘بریکنگ نیوز، ہمارے پاس کراچی سے مناظر آ رہے ہیں کہ کراچی کے شہریوں نے خانہ جنگی میں شرکت شروع کر دی ہے اور پاک فضائیہ سے مقابلہ کر رہے ہیں۔’

ایک اور صارف جین ڈو نے لکھا کہ ’ابھی تک گلشن باغ میں پھنسے ہوئے شہریوں کے لیے کسی نے چندے کی مہم کیوں نہیں شروع کی، ان کے پاس کھانے پینے کا سامان اور ختم ہو جائے گا‘۔

اسی طرح احسن نامی ایک اور صحافی نے ٹویٹ میں تباہ شدہ درختوں کی تصویر دکھاتے ہوئے تبصرہ کیا کہ ‘گلشن باغ میں بھاری لڑائی کے بعد تباہ ہوئے درخت۔’

لیکن مزاح کے علاوہ سنجیدہ تبصرے بھی کیے جا رہے ہیں۔ صحافی اور کالم نگار عباس ناصر نے انڈین میڈیا سے آنے والی خبروں پر ٹویٹ میں کہا کہ ‘اگر انڈیا سے آنے والی خبریں اُس ففتھ جنریشن وارفئیر کا حصہ ہیں جس کے بارے میں ہمیشہ خبردار کیا جاتا تھا، تو ہمیں سوائے ہنس ہنس کر اپنا سر پھٹ جانے کے علاوہ کسی اور چیز سے خطرہ نہیں ہے۔’

تجزیہ نگار مائیکل کگلمین نے بھی ٹویٹ میں کہا کہ انڈیا کے غلط خبریں پھیلانے والے صارفین کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان کے سیاسی بحران سے فائدہ اٹھائیں لیکن وہ جو کر رہے ہیں وہ بہت خطرناک ہے۔

البتہ صحافی خرم حسین نے اس تمام سلسلے پر ٹوئٹر کو مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا کہ ‘ٹوئٹر کب جاگے گا؟’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp